مذاہب عالم سے اسلام کا تقابلی جائزہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
مذاہب عالم سے اسلام کا تقابلی جائزہ
فوزیہ چوہدری، مانسہرہ
1: ہندومت:۔
ہندومذہب کا آغاز1500قبل مسیح میں ہواآریہ قبائل جب ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ کچھ عقائد اور نظریات بھی لائے تھے مگر وہ ہندوستانی باشندوں کے وعقائد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ہندوستان میں آریائوں کی آمد سے قبل چند خدا دراوڑی نظریے کے مطابق موجود تھے اورکچھ آریا اپنے ساتھ لائے تھے مگر رفتہ رفتہ ہرکام اوربالآخر ہر مطلب کے لیے الگ الگ دیوتا کی پرستش کرتا ہندومت کے پیروکاروں کی مذہبی عادت بن گئی۔
کرم کاتصور:۔
ہندومت میں قربانی کو خاص اہمیت حاصل تھی کرم لفظ ہندی میں قربانی کے لیے ہی استعمال کیاجاتاتھا اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ اس سے انسان کو نجات مل جاتی ہے اور اگلا جنم اس کے لیے سکون کاباعث بنتاہے انسان اس دنیا میں جس قسم کے اعمال کرتاہے ان کی سزااسے بھگتا پڑے گی۔
ذات پات کا نظام:۔
ہندوستان میں ذات پات کا نظام آج بھی عروج پرہے اس نظام کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کو چلانے کے لیے خالق نے چار ذاتیں بنائی ہیں برہمن، کھشتری،ویش اور شودر۔
برہمن سب سے برتر وافضل ہے کیونکہ ان کے خالق نے اپنے منہ سے پیدا کیاہے کھشتریوں کا کام حکومت کرنا اور دنیاوی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنا ہے ویش کا کام تجارت وزاعت ہے جب کہ شودر صرف اور صرف برہمنوں کی خلافت کے لیے ہے۔ شودرسور اورکتے کی طرح ناپاک ہیں شودر وہی کھاناکھاسکتاہے جوبرہمن کا جھوٹاہو۔شودر صرف ایک بار مہینے میں حجامت بنوائے اور اس کی غذا برہمن کا کھایاہوا جھوٹا کھاناہے۔
[پانچواں ادھائے اشکوک 140]
ہندومت میں شودر کو انتہائی گھٹیاا وررسواسمجھاجاتاہے وہ اپنے مذہب اور عبادت کے متعلق درس دیناتو درکنار اگر چھپ کرسن بھی لے تواس کی سخت سے سخت سزاہے بدھ مت میں ہندومت کی مخالفت کے آثار بھی ذات پات کا نظام ہی ہے۔
بدھ مت:۔
بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کا اصل نام’’ سدھارتایاساکھیامنی‘‘ تھا۔وہ ایک امیر گھرانے میں پیداہوئے ابتدائی زندگی شہزادوں کی طرح گزاری ان کی پیدائش کے وقت نجومیوں نے کہاکہ اگر انہوں نے بڑے ہوکردنیا کے مصائب کا مشاہدہ کرلیاتو وہ رہبانیت اختیار کریں گے اور اگر انہوں نے مصائب کا مشاہدہ نہ کیاتو وہ بادشاہ بنیں گے۔
گوتم بدھ کے والد نے یہ سن کر اس بات کا اہتمام کیاکہ وہ مصائب وآلام سے واقفیت حاصل نہ کرسکیں ان کی توجہ عیش وعشرت کی طرف مائل کرنے کے لیے زبردست انتظامات کیے گئے انہیں محل میں ہی تمام آسائش دی گئیں تاکہ دنیاوی مصائب سے بے خبر رہیں مگر ایک دن اس سب کے باوجود انہوں نے حقیقت جان لی۔
انہوں نے ایک بوڑھا دیکھا ضعف کی وجہ سے اس کی کمر جھکی ہوئی تھی کمزوری کی بدولت اس کا چلناپھرنا محال تھا، ایک لاش دیکھی جس کے اردگرد بچے اور بوڑھے ماتم کر رہے ہیں مریض دیکھاجو درد کی شدت سے کراہ رہاتھا، غرض ان سب کو دیکھ کردنیا کی حقیقت ان پرکھل گئی کہ دنیا فانی ہے دنیا کی بے پناہ آسائشوں سے بھی کوئی دلی سکون حاصل نہیں کرسکا، انہوں نے اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو الوداع کرکے درویشانہ طریقہ اختیار کرلیا، حق کی تلاش میں وہ بیابانوں اور صحرائوں میں پھرتے رہے چونکہ ان کی ابتداء ہندوطرز معاشرت پرہوئی تھی۔ اس لیے انہوں نے سب سے پہلے ہندو مت میں ہی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اس میں اونچ نیچ اور ذات پات کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا اور وہ سچائی پانے سے قاصر رہے۔
آخر کار اپنے چیلوں سے کہاکہ میں نے یہ مان لیاہے کہ حقیقت کی تلاش اور ریاضت بے کارہے اس لیے تم اس سے پرہیز کرنا۔چنانچہ گوتم بدھ نے خود آگاہی شروع کی، اس دوران وہ پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے کئی فاقے اور صعوبتیں برداشت کیں اور بالآخر بدھی یعنی روحانی روشنی (بزعم خود… ادارہ)حاصل کرلی جس کی وجہ سے انہیں بدھ کہاجانے لگا۔ چونکہ ان کے قبیلے کانام گوتم تھا اس لیے عام طور پر انہیں گوتم بدھ کہاجاتاہے۔گوتم بدھ نے جس مذہب کی تبلیغ دی اس میں دیوی دیوتائوں کی پوجاکاحکم نہ تھا۔ اس سے ہندوانہ عقیدوں کی شدید مخالفت ہوئی ہندو اس مذہب سے شدید نفرت کرتے تھے۔
کفارہ:۔
بدھ مت میں توبہ اور کفارہ کا سرے سے تصور ہی نہیں ہے اور نہ اس کی گنجائش ہے ان کے نزدیک اگر گناہ کیاجاسکتاہے توپھر اس کی سزابھی بھگتی جاسکتی ہے۔
بدھ مت اورخدا:۔
بدھ کے متعلق کہاجاتاہے کہ اس نے خداکے وجود کا انکار کیاہے، بدھ مذہب میں عبادات اوراعتقادات کا کوئی خاص مقام نہیں اور نہ ہی نجات کاکوئی واضح عقیدہ موجود ہے اسی وجہ سے کہاجاتاہے کہ گو تم بدھ خداکے وجود کا منکرتھا، مگر اس کی بھی اصل کچھ نہیں ہے کیونکہ خود گوتم نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیاکہ وہ خدا کے منصب پرفائز ہے یا اپنے پیروکاروں کے لیے نجات دہندہ ہے۔بدھ مت میں خدا کی ذات اور صفات کے متعلق خاص نشاندہی نہ ملتی تھی، البتہ جب مدتوں بعد بدھ مت کے پیروکاروں میں اختلاف ہوا تو کئی نظریات نے جنم لیا۔ بدھ مت دوبڑے فرقوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک تصور تو یہ تھاکہ ہرکام اور ہرضرورت کے لیے دیوی اور دیوتائوں کا اپنا اپنا مخصوص دائرہ اختیار ہے یعنی کہ ہندومت کے قدیم دیوی اور دیوتائوں کا تصور تھا۔دوسرا تصور خدا کے بارے میں یہ تھاکہ وہ قادر مطلق ہے تمام طاقتوں اور فیوض کا سرشمہ وہی ہے وہی کائنات کا خالق بھی ہے۔ایک دوسرے فرقہ جس نے یہ تبلیغ دی کہ خدا بدھ کی صورت میں ظاہر ہوا یہ نظریہ بدھ کے تعلیمات کی منافی ہے مگر اس کے پیروکاروں نے ان تعلیمات کو فراموش کر دیا۔
بدھ مت کی سب سے بڑی کمزوری عبودیت کی ہے کیونکہ اس میں کہیں بھی خدا کی عبادت کاتصور نظر نہیں آتا اور ایک بشر کے لیے عبادت ِخدا نے بغیر تسکین حاصل کرناممکن نہیں۔ یہ بہت بڑی خامی تھی جو بدھ مت کے ابتدائی دور میں رہی کیونکہ اس میں نہ تو دیوی دیوتائوں کے پوجنے کی اجازت تھی اور نہ خدا کی عبادت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی جس کی بدولت بدھ مت کے پیروکارگوتم بدھ کا مجسمہ بناکراس کی پرستش میں لگ گئے تھے تاکہ دلوں کو تسکین حاصل ہو۔
یہودی مذہب:۔
یہودی کاسلسلہ قدیم سامی اقوام سے ہے اور ان کا قدیم وطن عراق ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے نبوت عطاکی تواس وقت بنی اسرائیل کسی ایک خداکی پوجا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے کئی خدا تھے یہودی اپنے قومی دیوتا مولک کے حضور اپنی قربانی پیش کرتے تھے کئی عرصہ تک اس دیوتاکوبھی یہودا کہاجانے لگا خاندانی دیوتا الگ الگ تھے اور ان کی پوجا بھی کی جاتی تھی ایک دوسرے کے خاندانوں کے دیوتائوں کی پوجا نہیں کی جاتی تھی۔
یہودی نظریات:۔
یہودی خدا کی وحدانیت کا اقرارکرتے ہیں یہودی عقائد کے مطابق یہ دنیا تسکین آورہے اور اسے حاصل کرنا ہر کسی کا حق ہے یہودیت میں تبلیغ کرنا اچھا نہیں سمجھاجاتاان کے ہاں ہفتے میں ایک تعطیل بھی ہے جو جمعہ کے دن غروب آفتاب سے شروع ہوکرہفتہ کی رات ستاروں کے طلوع ہونے تک رہتی ہے اسے ’’سبت ‘‘کی تعطیل کانام دیاگیاہے اس دن عبادت کی جاتی ہے اورکوئی دنیاوی کام نہیں کیاجاتا۔
یہودیوں کے فرقے:۔
تمام یہودی حضرت موسیٰ حضرت ہارون اور حضرت یوشع علیہم السلام پر ایمان لاتے ہیں اس طرح یہودی تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں سب یہودی اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی پیغمبر دوسرے پیغمبر کے لائے ہوئے احکامات کو منسوخ نہیں کرسکتا۔
یہودیوں کا مقدر:۔
یہودی حکومت اور سلطنت کے اعتبار سے کہیں بھی خود مختار اور مضبوط قوم نہیں رہے اور نہ رہیں گے یہودیوں کو ہردور میں نقصان پہنچتا رہاہے یروشلم کے فاتحین نے یہودیوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کے صحیفوں کو بھی نقصان پہنچایا، یہودی؛ دنیا میں ہمیشہ کم تعداد میں رہے ہیں ان پر ہمیشہ کے لیے عزت وعظمت کے دروازے قرآن مجید نے یہ کہہ کر بند کردیے ’’اور ان پر ذلت اور بے چارگی مسلط کردی گئی ہے اور یہ قوم غضب کی مستحق قرارپائی۔‘‘
عیسائیت:۔
دنیا میں عیسائیت کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے مذہبی اجارہ داری خطرے میں نظرآنے لگی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، عیسائیوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے مغلوب ہونے پر کوئی متفق قول نہیں ہے، کئی اقوال نقل کئے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ حقیقت عیسائیوں سے بھی مشتبہ ہے ان میں سے کوئی کہتاہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایاگیاتھا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا۔ کوئی کہتاہے کہ انہوں نے صلیب پر جان دے دی غرض عیسائیوں کو اپنے مذہب کی اہم معلومات میں بھی شبہ ہے۔
عیسائیوں کا کفر:۔
عیسائیوں کا خیال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ خدا کا اکلوتا بیٹاہے اور خدانے اپنے اکلوتے بیٹے کو زمین پر اس لیے بھیجا ہے کہ وہ انسانوں کے گناہوں کو اپنے سرسے لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے گناہ کا کفارہ کرے، حالانکہ یہ محض عیسائیوں کاخیال ہے اس بات کا ثبوت مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے ثابت نہیں اور اس کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
اسلام:۔
اب باری آتی ہے اسلام کی جو تمام ادیان عالم کا سردار ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں ہر مقصد اور ہر عبادت کی حقیقت ہے زندگی کے ہر شعبہ کی ہدایات اس میں موجود ہیں اسلام میں تمام پیغمبروں پر ایمان لانا ضروری ہے کسی ایک پیغمبر کونہ ماننا اسلام نہیں۔ اسلام ایک سچا مذہب ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے: ان الدین عند اللہ الاسلام
ترجمہ: بے شک خدا کے نزدیک اصل دین تو اسلام ہے۔
(آل عمران 16]
اسلام جس نظام زندگی کانام ہے اس کی ماخذ اللہ کی کتاب(قرآن کریم )ہے اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ایک سچا مسلمان وہی ہے جو اپنی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھال دیتاہے اسلام ایسا مذہب ہے جوکسی قسم کے جبر کا حکم نہیں دیتا جو چاہے اطاعت و فرمانبرداری اختیارکرے اور جو چاہے بغاوت کی راہ پر چل پڑے، اسلام میں ذات پات کا کوئی وجود نہیں اور بعض مقام پر اس کی کھل کر مخالفت بھی کی گئی ہے۔
خداکااقرار:۔
اسلام میں سب سے پہلے جس چیز پر ایمان لاناضروری ہے وہ ہے اللہ رب العالمین کی ذات۔ یعنی خداکامنکر مسلمان نہیں ہوسکتا، ایک مومن کا عقیدہ ہوناچاہیے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سامنے ہی جھکنا چاہیے اوراسی سے محبت کرنی چاہیے۔
خداکے وجود کا سب سے بڑاثبوت کائنات ہی ہے میں نے درختوں سے پتے جھڑتے دیکھے، زمین سے پانی نکلتا دیکھا،آسمان پر چھائے بادل دیکھے تو اس حقیقت سے انکارنہ کر سکی کہ ان سب کا موجد اور خالق موجود ہے جب ہم سوچتے ہیں کہ ایک سلطنت بادشاہ کے بغیر نہیں چل سکتی تو وہ خدا ہی ہے جو اس تمام دنیا کو چلارہاہے دنیاکے اور تمام مذاہب نے خدا کو جن صفات کے ساتھ پیش کیاہے وہ نامکمل اور ناقص ہے جب کہ اسلام میں خدائے واحد کی تمام صفات مبارکہ موجودہیں۔ ایک مومن کبھی مایوسی نہیں ہوتاکیونکہ اسے معلوم ہوتاہے کہ خدا کا سہارا اس کے ساتھ ہے اور وہ اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
نبوت کے امین:۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس برس کی عمر میں نبوت ملی آپ کو نبوت ملنے سے پہلے بھی لوگ صادق اور امین کہہ کر مخاطب کرتے تھے امانت داری کایہ عالم تھا کہ مکہ کے مشرکین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امانتیں رکھواتے تھے۔
یہی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے صدقے یہ کائنات بنائی گئی ہے انہوں نے کبھی عیش وآرام کو پسند نہیں کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دو دو مہینے گزر جاتے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے مکانات میں چولہا نہیں جلتاتھا کھجور اور پانی پر گزرہوتا تھا اگر نبی پاک چاہتے تو انہیں قیصروکسریٰ سے زیادہ دولت عطا فرماسکتے تھے، مگرنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرت رکھنے کے باوجود تمام آسائشوں کو ٹھکرا کرآخرت کی طلب کی۔ اپنی امت کی بخشش طلب کی رات کو رو رو کر دعائیں کیں اپنی امت کے لیے کہ میری امت نارسے بچ جائے۔
ارکان اسلام:۔
اسلام کے پانچ ارکان ہیں :۔
1:کلمہ 2:نماز 3:روزہ 4:زکوۃ 5:حج
کلمہ ایک بارپڑھ لیاکافی ہے مگر سچے دل سے پڑھنا ضروری ہے نماز دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے روزے سال میں ایک مہینہ فرض ہیں زکوۃ اور حج صاحب حیثیت لوگوں پر فرض ہے۔
تمام مذاہب کامحاسبہ:۔
ہندومذہب کے پیروکارتیس کروڑ خدائوں کے قائل ہیں تعجب یہ ہے کہ جودیوتا اپنی سیوا نہیں کرسکتے وہ اوروں کی کیاکریں گے؟ ؟ مگر اس کے باوجود وہ اپنے دیوتاکے وجود پر ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ بدھ مت نے خداکے وجود کا انکار تو نہیں کیا مگر اس کی زندگی میں خداکے وجود کی نشاندہی نہیں ملتی، گو تم کے نزدیک ہر شخص غیبی طاقت کے بغیر بھی اپنے نفس پر قابوپا سکتا ہے۔
یہودیت کی بنیاد خدا کی وحدانیت اور بنی اسرائیل۔ خدا کی منتخب کردہ امت تمام الہامی مذاہب خدا کی وحدانیت کو تسلیم کرتے تھے مگر بعد میں لوگوں نے اپنی خواہشات اور نظریات کے مطابق اس تصور کو خالص نہ رہنے دیا۔عیسائیت کے داعی بھی تثلیث کا تصور رکھتے ہیں اور کفریانہ طورپرحضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں ان کا نظریہ کفر اور شرک پر مبنی ہے۔اسلام لاثانی مذہب ہے، اس کے فرمانبردار صر ف ایک خداکے قائل ہیں جوتمام جہانوں کا مالک ہے وہ جو چاہے جب چاہے جس کے بارے میں چاہے سب کچھ کرسکتاہے کوئی چیز اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی قرآن مجید میں ارشادہے:’’اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم !آپ لوگوں کو بتلادیں کہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔
جس پر ایمان لاناکامل ایمان ہے وہ ہیں محمد عربی جسے ان سے محبت ہے اسے خدا سے بھی محبت ہے مسلمانوں کو ہادی عالم سے محبت کیوں نہ ہو؟ وہ راتوں کواٹھ اٹھ کر اپنی امت کی بھلائی کے لیے دعائیں مانگتے تھے، تاریخ شاہد ہے کہ کسی مذہب کے پیشوا یا راہنمانے اپنی آل کے لیے اتنے مصائب برداشت نہیں کیے جتنے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے برداشت کیے ہیں اسی لیے کروڑوں سلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر۔