ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 14
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم، لیہ
ظہیر الدین محمد بابر کی نانی اماں دولت بیگم ایک زیرک خاتون تھی وہ کئی مغل خاقانوں کی سیاست دیکھ چکی تھی۔ جن کی حکومتوں کی اتنی وسعت تھی کہ اگر کوئی آدمی تین تین چار چار مہینوں تک بھی چلتا رہتا مگر ان کی حدود ختم نہ ہوتیں۔ فرغانہ تو ان کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹی سی حکومت تھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ بادشاہوں کے خلاف محلاتی سازشیں کس طرح پروان چڑھتی ہیں اور پھر دیکھتے دیکھتے ہی بادشاہوں کے تختے الٹ دیے جاتے ہیں۔ بابر ابھی بچہ تھا اسے کیا خبر تھی کہ محلاتی سازشیں کیا ہوتی ہیں ؟؟ وہ نادانی اور جلد بازی میں بعض ایسے فیصلے کر بیٹھتا تھا جس سے اس کی حکمرانی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ حالانکہ وہ بزعم خویش خود کو بڑا فہیم اور معاملہ سنج سمجھتا تھا۔ نانی اماں کے منع کرنے کے باوجود اس کا حسن یعقوب کو وزیر اعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز کرنا سراسر نادانی کے مترادف تھا۔ کیونکہ نانی اماں کے بقول وہ شخص آستین کا سانپ تھا۔ وہ اسے ایک نمک حرام اور احسان فراموش شخص سمجھتی تھی۔ یہ شخص اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ مگر وہ اپنی خوشامدانہ روش کے باعث بابر کی ناک کا بال بنا بیٹھا تھا۔
جب سے سلطان محمود مرزا کا فرستادہ ایلچی عبد القدوس بیگ اس کی طرف سے بابر کے نام شادی کا دعوت نامہ لے کر فرغانہ میں وارد ہوا تھا اور اس نے اپنے قیام کے لئے حسن یعقوب کے گھر کا انتخاب کیا تھا اس وقت سے دولت بیگم کا سکون غارت ہو گیا تھا۔ اسے عبد القدوس بیگ کی آمد اور اس کا حسن یعقوب کے گھر کا قیام کسی بہت بڑی سازش کا پیش خیمہ لگتا تھا۔ اس کی دور رس نگاہیں وادی فرغانہ پر امڈتے ہوئے سازشوں کے سیاہ بادلوں کو بڑی تشویش سے دیکھ رہی تھیں۔ اس نے بابر کو وہ سیاہ بادل دکھانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ مگر اس کی آنکھوں پر ابھی تک بچپن کے بھولپن کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ دولت بیگم کے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا کہ وہ بذات خود اس سازش کو ناکام بنانے کی کوشش کرتی۔
ادھر بابر اپنے تئیں چچا کی طرف سے شادی کا دعوت نامہ ملنے پر بہت شاداں نظر آتا تھا بابر کے بہی خواہ دوست اور مصاحب بھی عبد القدوس بیگ کی غیر متوقع آمد اور اس کے حسن یعقوب کے گھر میں قیام کو بڑی تشویش کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ لوگ حسن یعقوب اور بابر کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت سے پہلے ہی کافی پریشان تھے۔ مگر عبدالقدوس بیگ کی سلطان محمود مرزا کے قاصد کی حیثیت سے آمد کو اور بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس کی ایک معقول وجہ بھی تھی وہ یہ کہ گزشتہ کئی ماہ سے حسن یعقوب کا بابر کے مقربین اور معتمدین کے ساتھ رویہ کافی معاندانہ ہو گیا تھا۔ وہ ہر وقت ان کی تحقیر پر کمر بستہ رہتا تھا۔ ان کی بے عزتی کرنے اور انہیں بابر کی نگاہوں میں گرانے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا تھا۔ دولت بیگم کو حسن یعقوب کے اس رویے اور اس کی مشکوک نقل و حرکت سے کسی بہت بڑی سازش کی بو آرہی تھی۔ انہی خطرناک حالات کے پیش نظر دولت بیگم نے بابر کے معتمدین خاص اور جانثار سرداروں کی ایک خفیہ مگر خصوصی مجلس مشاورت طلب کی ان لوگوں نے بابر کے جانثار دوست شلاخ، قاسم بیگ اور شیرم طغائی بھی شامل تھے۔ شرکاء مجلس کے مشورے سے حسن یعقوب کے دوستوں، حامیوں اور آلہ کاروں کی ایک جامع فہرست تیار کی گئی۔ باہمی مشورے سے طے پایا کہ دولت بیگم کا اشارہ ملتے ہی حسن یعقوب اور اس کے تیار کر دہ فہرست میں شامل حامیوں کو بیک وقت اور آناً فاناً گرفتار کرکے یا تو تہ تیغ کر دیا جائے یا انہیں پا بند سلاسل کرکے قید خانے کی کال کوٹھڑیوں میں بند کرایا جائے اور یہ بھی طے پایا کہ اس منصوبے کی بابر کے کانوں میں بھنک تک بھی نہیں پڑنی چاہیے۔
حسن یعقوب نہایت ہی کائیاں اور شاطر انسان تھا اسے معلوم تھا کہ ایک نا ایک دن اس کی سازشوں کا بھانڈا پھوٹ ہی جائے گا۔ اس لئے اس نے پیش بندی کے طور پر اپنے معتمد فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ الگ بنا رکھا تھا۔ تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کی مدد سے راہ فرار اختیار کر کے اپنی جان بچا سکے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے خاص جاسوسوں پر مشتمل ایک فوج ظفر موج کو محل کے اندر اور بابر کے اردگرد پھیلا رکھا تھا۔ تاکہ وہ اسے پل پل کی خبریں پہنچاتے رہیں۔ جس طرح چوہے کے ذہن پر ہر وقت بلی کا خوف سوار رہتا ہے چاہے بلی کتنی بھی مہربان اور درویش صفت بھی کیوں نہ ہو۔ بالکل اسی طرح حسن یعقوب کو بھی ہروقت دولت بیگم سے خطرہ لاحق رہتا تھا۔ کیونکہ وہ اسے اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتا تھا اسے معلوم تھا کہ وہ بھی اس کی طرح نہایت شاطر دماغ رکھتی تھی اور عرصہ دراز سے اس سے مخاصمت بھی چلی آرہی تھی۔ سلطان احمد مرزا کے ساتھ لڑی جانے والی گزشتہ جنگ میں اس نے اپنی بے پناہ وفاداری اور جانثاری کا ثبوت پیش کرکے بابر کے مزاج میں کافی اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا۔ اس لئے اسے بابر کی طرف سے کوئی تشویش لاحق نہیں تھی۔ اس کے لئے سب سے بڑا خطرہ دولت بیگم کی ذات تھی۔ اس لئے اس نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے اس کی پوری پوری نگرانی کا بندوبست کر رکھا تھا۔
ان دنوں جبکہ بابر کو اپنے بڑے چچا سلطان محمود مرزا کی طرف سے اس کے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ بابر کی والدہ اپنی عدت کے دن پورے کر رہی تھی۔ شاہی محل میں مکمل آرام و سکون تھا۔ دولت بیگم کو غمی کے دنوں کے دوران شادی کا یہ دعوت نامہ نہایت گراں گزرا۔ جبکہ بابر اس لئے مسرور نظر آرہا تھا کہ اس کے چچا نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ مگر وہ نادان لڑکا یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس دوستی اور محبت کے پس پردہ اس کا لالچی اور شاطر دماغ چچا اس کے اردگرد ایک بہت بڑی سازش کا جال بُن رہا تھا۔ اپنے باپ کی جاگیر کے دو حصوں پر قابض شخص ( یاد رہے کہ سلطان محمود مرزا نے اپنے دوسرے بھائی سلطان احمد مرزا کے مرنے کے بعد اس کے حصے کی جاگیر پر بھی قبضہ کر لیا تھا ) اب تیسرے بھائی کی جاگیر کو بھی ہڑپنا چاہتا تھا۔ اس کی حریص نظریں سر سبز و شاداب وادی فرغانہ پر جمی ہوئی تھیں۔ مگر نوعمر بابر چچا کی چال سمجھ نہیں رہا تھا جبکہ دولت بیگم نے بطور ایلچی عبد القدوس بیگ کے اندجان میں ورود پر بھانپ لیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس لئے اس نے بابر کے معتمدین کی مجلس مشاورت بلائی تھی۔ عبد القدوس بیگ کی واپسی کے بعد دولت بیگم حرکت میں آگئی اور اس نے مجلس مشاورت میں شامل لوگوں کو حسن یعقوب اور شامل فہرست لوگوں پر شب خون مارنے کے لئے سبز جھنڈی دِکھا دی۔
سلطان محمود مرزا کے بابر کی طرف بھیجے گئے قاصدعبدالقدوس بیگ کے اند جان سے روانہ ہونے سے پہلے حسن یعقوب اپنے اپنے متوقع منصوبے سے آگاہ کردیاتھا، جو کچھ اس طرح تھا:’’بابر ایک ناپختہ ذہین لڑکا ہے اس لیے فرغانہ کی حکومت اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ مسند شاہی پر چند دنوں سے زیادہ متمکن رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا، اس کی معزولی کے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں آخشی کے اہم قلعے پربابر کے چھوٹے بھائی جہانگیر مرزا کو مامور کروادیاگیا ہے اور اسے یہ باور کرادیاگیاہے کہ اس کا چچا سلطان محمود مرزاسمر قند سے آکر اسے اپنی سرپرستی میں لے لے گا اور بابر کو فرغانہ سے نکال دیا جائے گا دراصل اس کے پس پردہ یہ امر کا رفرماہوگا کہ حکومت کی باگ ڈور تو سلطان محمود مرزا کے ہاتھ میں ہوگی اور جہانگیر مرزا صرف ایک کٹھ پتلی کی طرح سلطان محمود مرزا کے احکامات کی تعمیل کرے گا، مگر عبدالقدوس بیگ پر یہ لازم ہوگاکہ وہ سلطان محمود مرزا سے یہ وعدہ لے کر کہ وادی فرغانہ کے اقتدار کی منتقلی کے بعد سلطان محمود مرزا اپنی عد م موجودگی میں حسن یعقوب کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے جہانگیر مرزا کی سرپرستی کے اختیارات سونپ دے گا تاکہ جہانگیر مرزا اپنے پر پرزے نکال سکے۔
اس منصوبے کو سننے کے بعد عبدالقدوس بیگ نے حسن یعقوب سے یہ کہاکہ میں عبدالقدوس بیگ سلطان محمود مرزا کے ایک نمائندے کی حیثیت یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا یہ مطالبہ من وعن تسلیم کرلیاگیاہے میرے اس وعدے کو سلطان محمود مرزا کاوعدہ تصور کیاجائے۔
حسن یعقوب بھی عبدالقدوس بیگ کے کئے ہوئے اس وعدے پر پوری طرح خوشی بھی نہیں منایاتھاکہ اسے اس کے جاسوسوں نے یہ بری خبر سنائی کہ دولت بیگم اپنے حواریوں کے ذریعے اس پر شب خون مارنے کا ارادہ رکھتی ہے یہ خبر سن کر حسن یعقوب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اس نے آناًفاناً اپنے دستے کو کوچ کاحکم دے دیارات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی کہ جب حسن یعقوب سمر قند کی جانب نکل کھڑا ہواکیونکہ اس نے سمر قند جانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی تھی۔
دولت بیگم کو سلاخ قاسم بیگ اور شیرم طغائی کے ذریعے حسن یعقوب کے سمر قند کی جانب فرار کی خبر مل چکی تھی لہذا انہوں نے ایک فوجی دستے کے ساتھ حسن یعقوب کا پیچھا کرنا شروع کردیا، حسن یعقوب نہایت ہی شاطر دماغ شخص تھا اسے معلوم تھا کہ دولت بیگم نچلی نہیں بیٹھے گی اور ا س کا تعاقب کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی اہتمام کرے گی، اس نے دولت بیگم کے آدمیوں کو چقمہ دینے کے لیے سمر قند کی طرف جان کی بجائے راستے ہی سے اپنارخ آخشی کی طرف موڑ دیا وہ جانتا تھا کہ آخشی کے قلعے میں اس کا پروردہ شہزادہ جہانگیر مرزا اس کا منتظر ہوگا وہ وہاں پہنچ کر قلعے پر قابض ہوجائے گا اور جہانگیر مرزا کو اپنی سرپرستی میں لے لے گا، اسی وقت سمر قند کے سلطان محمود مرزا کو یہ ساری خبریں بھیج دی جائیں گی، اس طرح سلطان محمود مرزا بہت خوش ہو جائے گا فرغانہ کی وسط میں قابض ہوکر وہ بابر کو بھی بہت پریشان کرسکے گا اور آخشی کا اہم قلعہ سلطان محمود مرز اکو تحفہ پیش کرکے وہ اپنی نوکری بھی پکی کرلے گا اور پھر اس کے مزے ہی مزے ہوں گے۔شیخ چلی کی طرح دل ہی دل میں منصوبے بناتا ہوا وہ آخشی کے قلعے کی طرف رواں دواں ہوگیا ’تدبیر کند بندہ تقدیر کند خندہ ‘کے مصداق اسے کیامعلوم تھا کہ وہاں پہنچ کر اس کے ساتھ کیاہونے والاتھا۔
[آپ بھی اگلی قسط کے آنے تک یہ سوچتے رہیے کہ نمک حراموں اور غداروں کا کیا انجام ہونا چاہیے؟]