شرعی پردہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر1
شرعی پردہ
حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی رحمۃ اللہ
مسئلہ حجاب کی بنیادی علت:۔
پردہ خود مقصود نہیں اس کی بنیادی حقیقت مقصود ہے۔مسئلہ حجاب اور اس کی مالہ و ماعلیہ کو سامنے لانے سے پیشتر یہ اصولی حقیقت سمجھ لینی ضروری ہے کہ عموما ًتمام انواع احکام اور خصوصا معاشرتی احکام میں ہر شرعی حکم کے نیچے اس کی کوئی نہ کوئی بنیادی علت ضرورت ہوتی ہے۔ جو ا س حکم کا منشاء اور مدار ہوتی ہے اور اس علت کی بناپر وہ حکم شارع حقیقی کی طرف سے وضع کیاجاتاہے خواہ وہ علت نص وآیت وروایت کے الفاظ میں موجود ہو جسے ہر کس وناکس دیکھ سکے یا معنی میں لپٹی ہو جس تک مجتہد اور راسخین فی العلم ہی کی نگاہ پہنچ سکتی ہو اور وہی اسے اندر سے نکال کر باہر نمایاں کرسکتے ہوں، بہر صورت حکم میں کسی نہ کسی علت کا ہونا ضروری ہے جو مدار حکم ہی نہیں ہوتی، بلکہ حکم کی یہ صورت اسی مخفی اور بنیادی علت کے حصول کی ایک تدبیر ہوتی ہے اگر مثبت حکم ہے جسے امر کہتے ہیں تو اس زیرینہ علت کا دفعیہ پیش نظر ہوتاہے پس یہ حکم اپنی متعلقہ علت کے حصول یا دفعیہ کی ایک تدبیر ہوتاہے جس کامقصود اصلی رداً یااثباتا یہی علت ہوتی ہے خود حکم بذاتہ مقصود نہیں ہوتا اندریں صورت علت مرتفع ہوجانے پر حکم بھی مرتفع ہوجاتاہے اور اس میں ضعف پیدا ہو جانے پر حکم میں شدت باقی نہیں رہتی۔
بنیادی علتوں کی چند مثالیں
تصویرکی مثال:۔
مثلاً: ممنوعات شرعیہ کے سلسلہ میں تصویر کی ممانعت ایک حکم شرعی ہے جس کی بنیادی علت صورت پرستی اور حقیقت بیزاری کا انسدادہے جس کانام شرک ہے اس سے بچنے کے لیے تصویر کی ممانعت کی گئی ہے کیونکہ کہ تصویر ہی تاریخی طور پر ہمیشہ شرک وبت پرستی اور حقیقت بیزاری کی بنیاد ثابت ہوئی ہے قوم نوح عملًا اس میں مبتلا تھی تو اس کے مٹانے کے لیے نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ قوم ابراہیم بت گر اور بت پرست تھی تو ابراہیم علیہ السلام بت شکن بن کر آئے قوم موسیٰ نے مصر سے ہجرت کرتے ہوئے صنعا ء میں مورتی پوجا دیکھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خواہش کی کہ انہیں بھی ایسے ہی برنجی معبود بنا دیے جائیں تو انہوں نے سختی سے یہ کہہ کر جھڑکاکہ:انکم قوم تجھلون تم جاہلانہ باتیں کرتے ہو۔
بہرحال! تصویر کی ممانعت درحقیقت انسداد شرک کے لیے تھی جہاں اور جس قوم میں اس کے جراثیم پائے گئے وہیں ان روحانی اطباء انبیاء علیہم السلام نے ان کا آپریشن کیا، شریعت اسلام چونکہ جامع مکمل اور ابدی شریعت تھی اس لیے اس نے وقوع شرک کا انتظارکئے بغیر اسباب شرک اور احتمال شرک پر بھی انسدادی احکام جاری کیے اور تصویر کی ممانعت بلکہ استیصال میں بعید سے بعید احتمال کوبھی سامنے رکھا، مگر علت ممانعت وہی رذیلۂ شرک اور اس کا انسداد رہا، پس ممانعت تصویر کا حکم درحقیقت علت شرک کے دفعیہ کی ایک تدبیر ہے خود بذاتہ مقصود نہیں اور نہ ہی تصویر بذاتہ قبیح ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاں شرک کا کوئی واہمہ اور امکان نہ ہو وہاں یہ حکم ممانعت بھی باقی نہ رہے گا، عالم برزخ میں ملائکہ علیہم السلام میت سے سوال وجواب کرتے وقت بتصریح شراح حدیث نبی کریمﷺ کی تصویردکھلاکر سوال کریں گے کہ’’من ھذاالرجل‘‘؟ یہ کون ہیں ؟
ظاہر ہے کہ ادھر تو ملائکہ علیہم السلام شرک کے واہمہ تک سے بری اور ادھر میت کے حق میں بھی وہاں شرک کا کوئی امکان نہیں۔ جبکہ ہر دو فریق کو وہاں وحدانیت حق کا مشاہدہ حاصل ہے اس لیے وہاں تصویر کی ممانعت بھی باقی نہ رہی۔ نیزبنصِ حدیث جنت کے بازاروں میں تصویریں بھی فروخت ہوں گی جن کی قیمت ذکر اللہ ہو گا ظاہر ہے کہ سارے اہل جنت ارباب کشف شہود ہوں گے جن میں شرک کا تخیل بھی ناممکن ہو گا اس لیے وہاں ممانعت تصویر کا حکم بھی باقی نہ رہے گا، ورنہ جو چیز بذاتہ قبیح ہوگی وہ جیسے دنیا میں حرام ہوگی جنت میں بھی حرام ہوگی، زنا یہاں جائز نہ وہاں جائز، جھوٹ اور دنگا فساد نہ یہاں جائز نہ وہاں جائز، فرق یہ ہے کہ یہاں اس سے بہ تکلف اور بزور عقل وہمت بچا جاتاہے اور وہاں بداعیہ طبع ان امور سے نفر ت ہوگی بلکہ ان کا مادہ ہی دلوں میں سے ختم کر دیا جائے گا اگر تصویر بھی بذاتہ قبیح اور منکر ہوتی تو دنیا کی طرح جنت میں بھی اس کے وجود کو برداشت نہ کیا جاتا اس سے واضح کہ وہ صرف رذیلۂ شرک سے بچانے کی ایک تدبیر ہے جہاں اس رذیلہ کا وجود نہ ہو جیسے عالم برزخ اور آخرت اس تدبیر کی ضرورت بھی نہ ہوگی۔
خود شریعت اسلام نے شرک کے ریشے ختم کرنے کے لیے تصویر کی شدت سے ممانعت کی مگر علت ممانعت وہی احتمال شرک قرار دیاہے اس لیے دنیا میں بھی جہاں جہاں شرک کا احتمال نہیں وہاں یہ حکم ممانعت بھی باقی نہیں رہتی کہ مقطوع الراس سرکٹی تصویر کی پوجا نہیں کی جاتی یا پورے جسم ہی کی تصویر ہومگر چہرے پر قلم پھیر دیا جائے یا کوئی بھی توہین آمیز علامت بنا دی جائے جس سے چہرے کے خدوخال میں فرق پڑجائے تو پھر یہ پوری تصویر بھی ممنوع نہیں رہتی کہ یہ صورت توہین تصویر کی ہے تعظیم تصویر کی نہیں ہے جس سے شرک کی بنیاد پڑتی۔
یاقلم بھی نہ پھیراجائے مگر تصویر کوجو توں کی جگہ قدموں میں ڈال دیا جائے تو پھر بھی حکم ممانعت اٹھ جاتاہے کیونکہ تصویر کو پامال کرنے کے ساتھ شرک جمع نہیں ہوسکتا کہ یہ انتہائی تذلیل ہے اور شرک انتہائی عظیم ہے تو ضدیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں ؟؟ اس سے واضح ہے کہ تصویر خود بذاتہ ممنوع نہیں ہے ورنہ برزخ، آخرت اور عالم دنیا میں تصویر اور اس کے مذکورہ افراد ہرگز مباح نہ قراردیے جاتے بلکہ اس کی ممانعت رذیلۂ شرک سے بچانے کی ایک تدبیر ہے اس لیے وہ شرک کے امکانات ہی کے وقت ممنوع رہے گی ورنہ نہیں۔
حرمت سود کی مثال:۔
مثلا ً:معاوضات کے سلسلہ میں سود کے حرام ہونے کی بنیاد ی علت صاحب معاملہ کے مال مملوک میں سے مقدار سود کا بلا عوض اور زائد حق جھپٹ لینا ہے جو بلاشبہ ظلم وغصب اور غارت گری ہے پس سود کی ممانعت اس بے جا چھیناجھپٹ اور ظلم وغارت گری کی علت کی وجہ سے ہے خود بذاتہ زیادۃ کا لیاجاناممنوع نہیں چنانچہ یہی مال مملوک اگر معصوم ہونے کی بجائے کسی وجہ سے مباح قرار پائے جیسے کفار حربی بن جائیں اور ان کا جان ومال مباح ہوجائے تو اس میں سے مقدار سود کالے لیاجانا بھی ظلم اور غارت گری نہ رہے گا اس لیے ممنوع بھی نہ رہے گا جیسا کہ فقہ میں اس کی تفصیلی صورتیں موجود ہیں۔
حرمت شراب کی مثال:۔
یاجیسے شراب کی حرمت علت سکر(نشہ)کی وجہ سے ہے گویاشراب سے روکا جانا خود اس مشروب سے روکنا نہیں بلکہ اس کی کیفیت نشہ سے بچاناہے جس نے اس مشروب کو ناپاک کر دیا ہے یہ دوسری بات ہے کہ یہ کیفیت نشہ آوری اس شربت میں گھل مل گئی ہے اور اس سے جدا نہیں ہے اس لیے اس سے بچانے کی صورت بجز اس مشروب سے روک دیے جانے کے دوسری نہیں ہو سکتی تھی۔
پس اس مشروب سے روکنا درحقیقت اس کیفیت سے بچانے کی ایک تدبیر ہے فی نفسہ اس سیال مادہ سے روکنانہیں، اگر اس میں یہ کیفیت نہ آئے یا باقی نہ رہے تو یہ حکم ممانعت بھی اٹھ جائے گا، چنانچہ ان کو یاکھجورکے اس زلال اورنچوڑہ میں جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو یا ابھرنے نہ پائے جسے نبیذ کہتے ہیں تو اس پر شرع کی ممانعت کا فتویٰ بھی نہ لگے گا حالانکہ یہ وہی سیال مشروب ہے جو نشہ آور ہو جانے کے بعد فوراً ہی زیر ممانعت آکر حرام ِخالص بن جاتاہے جس کانام اب بجائے نبیذ کے خمر ہوجائے گا یا کسی سیال مادہ میں مثلاً نشہ آوری کی کیفیت پیدا ہوکر کسی وجہ سے زائل ہوجائے جیسے الکحل دوائوں یا دوسری استعمالی اشیاء میں ملادیے جانے پر اس کے کچھ مادی اجزاء تو باقی رہ جاتے ہیں مگر سیلانی کیفیت اڑ جاتی ہے جس کے ذیل میں یہ نشیلا پن بھی کافور ہو جاتا ہے تو ایسے مشروبات کی ممانعت بھی نہیں آئی جیسے خمر؛ سرکہ بن جائے تو تبدل ماہئیت سے وہی مشروب اب بجائے حرام ہونے کے حلال ہوگیا حالانکہ سیال مادہ وہی ہے جو پہلے تھا،تبدیل ہئیت نے صرف اس کے نشہ کی کیفیت کو زائل کردیاہے۔
بہرحال!ممانعت شراب سے ممانعت نشہ مقصود ہے ممانعت مشروب مقصود نہیں اندریں صورت اس مشروب کی ممانعت در حقیقت نشہ سے بچانے کی ایک تدبیر ہوئی جو تابقاء نشہ باقی رہے گی ورنہ رخصت ہو جائے گی، البتہ بقاء نشہ کی صورت میں شراب کاایک ایک قطرہ اسی طرح حرام رہے گا جس طرح پورا جام وسبو حرام تھا اگرچہ ایک قطرہ سے نشہ نہ چڑھے کیونکہ اس میں بقدر حصہ وجثہ؛ نشہ ضرور موجودہے۔ خواہ اس کا احساس ہویانہ ہو جیسے درخت یا بچہ کا نشوونما ہر ہر ساعت اور ہر ہرپل ہوتارہتاہے مگر قلت مقدار کی وجہ سے اس کا احساس نہیں ہوتا سال دوسال میں جب اس کی مقدار معتد بہ ہو جاتی ہے تو مجموعہ کا احساس ہوتاہے پس اس عدم احساس کی وجہ سے اس مقدار قلیل کے عدم کا دعویٰ نہیں کیاجاسکتا اسی طرح قطرات شراب میں جزوی نشہ کے محسوس نہ ہونے کی وجہ سے اس کی موجودگی کی نفی نہیں کی جاسکتی بہرحال شراب کی ممانعت نشہ سے بچانے کی تدبیر ہے خود بذاتہ مقصودنہیں۔
قتل کلاب کی مثال:۔
اسی ضعف علت کی وجہ سے حکم میں بھی ضعف آجاتاہے کہ مدار حکم علت ہی ہوتی ہے جیسے شریعت نے کتوں کے قتل عام کا حکم دیا جس کی علت کتے کی محبت تھی جو اہل جاہلیت کے ذہنوں میں رچی ہوئی تھی بالکل اسی طرح جس طرح آج کے نصرانی تمدن میں عیسائیوں کے قلوب پر کتوں کی محبت مستولی ہے اس علت کے استیصال کیلیے شریعت نے ابتداء ًکتے کی جنس کے قتل عام کا حکم صادر کیاہے مگر جوں جوں محبت کم ہوتی رہی توں توں اس حکم کی شدت بھی ختم ہوتی رہی ابتداء ً ہر کتا واجب القتل تھا جب محبت کم ہوگئی تو یہ حکم سیاہ کتوں تک محدود گیا جب محبت کا یہ درجہ بھی نکل گیا توحکم ممانعت بھی اٹھ گیا اور فرمادیاگیا۔مالنا وللکلاب
ہمیں کتوں سے کیا تعلق کہ ان کے استیصال کی فکر رکھیں وہ بھی ایک امت ہے امتوں میں سے اور جب کتوں سے اعراض او رنفرت قائم ہوگئی تو پھر اس کی بعض انواع کے کام میں لانے تک کی اجازت دے دی گئی جیسے شکاری کتے کی شکار کے لیے حفاظتی کتے کی حفاظت کے لیے البتہ اس استعمال سے احتمال تھا کہ کہیں محبت عود نہ کرآئے تو یہ حقیقت ظاہر کرکے اس کے اختلاط عام سے روک دیاگیا۔ کہ ملائکہ اس بیت میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہوتاہے۔
بہرحال ہمارا مقصد واضح ہوگیا کہ قتل کلاب کے مسئلہ محبت کلاب کی بناء پرتھا جوں جوں محبت گھٹتی گئی توں توں حکم میں ضعف آتاگیا تاآنکہ استیصال علت سے آخر کار یہ حکم عام ختم کر دیا گیا جس سے واضح ہواکہ قتل کلاب کاحکم ان کی محبت سے بچانے کی ایک تدبیر تھا خود بذاتہ مقصود نہ تھا ورنہ منسوخ نہ کیا جاتا۔
پردہ کا حکم انسداد فحش کے لیے ہے:۔
ٹھیک اسی طرح عورت کا پردہ بلاشبہ ایک شرعی اور دینی امر ہے لیکن وہ خود بذاتہ مقصود نہیں بلکہ ایک ایسی مہلک اور خطرناک علت سے بچانے کی تدبیر کے طوپررکھاگیاہے جوانسانیت انسانی فرد اور انسانی سوسائٹی سب ہی کے لیے سم قاتل ہے اور اس کے متعدی اثرات سے کسی بھی وقت قومیں کی قومیں بتاہی وبربادی کے کنارے لگ سکتی ہیں اس مہلک علت کو قرآن حکیم نے فحش سے تعبیر کیاہے جس کا دوسرا نام بے حیائی، بے غیرتی، عریانی اور سیہ کاری ہے اور یہ بلاشبہ اقوام کے لیے ہلاک وبربادی کا پیشہ خیمہ ہے۔
فحش کے آثاربد:۔
وجہ یہ ہے کہ فحش حیاء وعفت کی ضد ہے حیاء کا تعلق عقل وخرد سے ہے اور فحش کا؛لاعقلی اور سفاہت سے۔ جانوروں میں برملا ایک نر؛اپنی اور دوسری کی مادہ پرجست کرتاہے تو نہ اسے عجیب سمجھاجاتاہے نہ اس حیوان کے لیے مہلک۔ اس لیے کہ وہ عقل سے خالی ہے انسان ایسی حرکت کرے تو لوگ انگشت بدنداں ہوجاتے ہیں کہ بہائم قسم کے بے حیاء انسان بھی اسے بری ہی نگاہ سے دیکھتے اور برائی سے اس کا چرچاکرتے ہیں فرق وہی عقل وبے عقل کاہے جس سے واضح ہے کہ فحش بے حیائی آئی تودوسرے لفظوں میں انسانیت غائب ہوگئی اور یوں کچھ عقل معاش یعنی کھانے کھانے کی عقل غالب ہوگئی اور عقل معاد یعنی نجات اخروی حاصل کرنے کی عقل غالب ہوگئی تو محض اس طبعی یادینوی عقل سے انسانیت کا بھلا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ اپنے کمال پر باقی رہ سکتی ہے اور جب انسان، انسان ہی نہ ہو، جانوروں کے زمرہ میں شامل ہوجائے اس کی انسانیت کی بتاہی اور بربادی میں شک کی کون سی وجہ باقی رہ گئی؟
لیکن پھر بھی بربادی کا یہ منظر نظری ہے عملی طور پر دیکھا جائے تو جو قومیں عقل وخرد کے زوال یا ضعف واضمحلال کے سبب ان وقتی لذات کو زندگی کا حاصل سمجھ کر اور انجام سے قطع نظر کر کے اس مہلک علت فحش کا شکارہوتی ہیں طبعی طور پر ان میں رشتہ زوجیت اور سلسلہ مناکحت بھی سست پڑکر رفتہ رفتہ ختم ہوتاہے کیونکہ اس طبعی خواہش کی جب ایک نفسانی راہ نفس کے لیے متعین ہو جاتی ہے تو دوسری روحانی یا اخلاقی راہوں کی طرف خود ہی متوجہ نہیں رہ سکتا۔
مزدکیوں میں یہ فحش آیا تو اباحیت پھیل گئی اور عورت ایک وقف عام کی حیثیت میں آگئی جسے ہر مرد ہر حالت میں استعمال کرسکتا تھا، سفاح(زنا)پھیل گیا اور نکاح رخصت ہوگیا، بولشویکوں میں فحش پیدا ہوتو وہی اباحیت آئی، نکاح کا حقیقی رشتہ کالعدم ہوگیا اور عورت پر ہر مرد بلا روک ٹوک جست کرنے لگا اور جہاں ایک طرف گدھوں اور کتوں میں یہ منظر نگاہوں کے سامنے آتا تھا وہیں دوسری طرف بعینہ وہی نظارہ ان انسان نما جانوروں میں بھی نظر آنے لگا، یورپین اقوام میں فحش کی کیفیات گھسیں تو وہاں بھی رشتہ نکاح ٹوٹ کر سول میرج کی صورت پیدا ہو گئی جو ایک باضابطہ زنا ہے جس میں مذہب کی قید ہے نہ قومیت کی اور سب جانتے ہیں کہ قطع نکاح کا اثر قطع نسب ہے اور انقطاع نسب یا خلط نسب کا اثر آبائی اور خاندانی خصوصیات ہی کانہیں، انسانی آثار کا بطلان، حقوق وراثت کی پامالی، بہیمی اخلاق کی آبیاری اور آدمیوں کاجانوروں کی طرح بے خصوصیت بے حق اور بے خانماں ہو جانا ہے اور سب کے ساتھ اس جنسی ہوس کا ہمہ وقت تسلط یا انسانی نسل کی تقلیل ہے یابہائم صفت انسانوں کی وقتی تکثیر، دونوں صورتوں میں نسل انسانی کی تباہی ہے۔ اس صورت میں نہ مکارم اخلاق باقی رہ سکتے ہیں، نہ شرافت طبائع قائم رہ سکتی ہے اور نہ انسانی جوہر ہی چمک سکتے ہیں، نہ نیکی بدی کا امتیاز قائم رہ سکتاہے نہ معروف و منکر کی تمیز ٹھہر سکتی ہے نہ حیاء وعفت اور نیک طینی کا مادہ ہی جم سکتاہے جو روحانی بربادی کی آخری شکل ہے مادی اور روحانی دونوں طرح کی ہلاکتیں مسلط ہوجائیں تو انسانیت اور انسانی قومیتیں اپنی اصل پر کب باقی رہ سکتی ہیں پھر ہوسکتاہے کہ کسی عام عذاب کا شکاربن کر یہ طبقہ کا طبقہ ہی ختم ہوجائے جیسے قوم لوط ختم ہو گئی یا کسی ہمہ گیر بیماری اور وبا سے جیسے طاعون اور آتشک وغیرہ باقی نہیں رہتی، یہ فحش اس طرح آخر کار قوموں کی تباہی وبربادی پرمنتج ہوتاہے جیساکہ ہم نے دعویٰ کیاتھا۔
اس لیے یہ کیسے ممکن تھاکہ شریعت اسلام جو بنی نوع انسان کی دنیا وآخرت سنوارنے کے لیے اتاری گئی ہے اس بنیادی تباہی سے صرف نظر کرلیتی؟ ناممکن تھا چنانچہ فحش جس طرح عقل سلیم کے تقاضوں کے ماتحت انسانی سوسائٹی کے لیے ایک غلیظ قسم کی ناپاکی اور مقام عقل کے لیے ایک بدنما دھبہ تھا اسی طرح شریعت اسلام نے بھی اس رذیلہ فحش کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی ممانعت کی شرعی تفصیلات اور اخلاقی،روحانی اور مادی قدروں پر مشتمل ایک مفصل پروگرام پیش کیا جو کمال اعتدال کے ساتھ معقولیت اور متانت کا مرقع ہے۔
فحش کی حرمت:۔
اس نے سب سے اول فحش کی جنس کو ممنوع اور حرام قراردیا، فرمایا
ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربیٰ وینھٰی عن الفحشاء والمنکر
(القرآن الحکیم ]
بے شک اللہ تعالیٰ اعتدال اور احسان اور اہل قرابت کودینے کاحکم فرماتے ہیں اور کھلی برائی اور مطلق برائی اور ظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں۔
فحش کی آخری حد چونکہ زنا اور حرام کاری تھی اس لیے زناکو یہی کہہ کر روکاکہ وہ فحش اور بے حیائی ہے۔
لاتقربوالزنا انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا
(القرآن]
اور زناء کے پاس بھی مت پھٹکو بے شک وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے۔
پردہ کا تربیتی پروگرام
ابتدائی صورت:۔
اب ظاہر کہ زناکاری کا راستہ دواعی زنا ہیں اور دواعی زنا کا راستہ فحش ہے اور فحش منکر کا سب سے اہم اور بڑا مرکز عورت ہے جس کے دیکھنے، چھونے اور چھیڑنے اور ملاپ کرنے سے لذت حاصل کی جاتی ہے۔
تبرج جاہلیت:۔
اور اس طرح عفت وپاک دامنی کے انمول جواہرات سے نشاط نفسانی کی یہ تفریحیں خریدی جاتی ہیں اس لیے شریعت نے اجنبیات کے اس اختلاط کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کا پروگرام دیا اور جس طرح احادیث میں ان زینت منظر بننے والیوں کی طرف نظر کرنا، ان کی آوازوں پر کان لگانا، ان کی طرف مائل ہونا، اس سے میل جول پیداکرنااوراس کے ساتھ خلوت کرنا اور بالفاظ مختصر بے حجابی برتنا، مردوں کے حق میں ممنوع قرار پایا اسی طرح عورت کے حق میں اجنبیوں سے تنہائی اختیار کرنا نرم آوازی سے ان کے دل میں طمع پیداکرنا، آراستہ ہو کر باہر نکلنا، بے حجاب منظر عام پر آنا اور اپنے نفس کو ہر ایک کی نگاہ وسماع چھیڑ چھاڑاورقرب ومیلان کے لیے پیش کرنا اور بعنوان مختصربے پردگی سے رہنا بھی حرام ہواخواہ یہ اختلاط و بے حجابی مجالس نشاط میں ہویامناظر عامہ میں عمومی ہویاخصوصی ملاقاتوں میں کیونکہ عورت کی بے حجابی کا نتیجہ قدرتی طور پر اس کی نقل وحرکت کی بے قیدی ہے اور آزادی نقل وحرکت کاثمرہ زن ومرد کا باہمی اختلاط اور میل جول ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا انجام ہیجان شہوت ہے جس کی ابتداء دواعی زنا سے ہوکر انتہاء خود زنا پرہو جاتی ہے اور پھر اس سے کتنے ہی اخلاق ذمیمہ اور احوال خسیسہ کا نشوونما بنی نوع انسان کی دنیا وآخرت تباہ ہو جاتی ہے۔
عام دنیا کے حق میں میں تو اس معمولی بے حجابی کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہ اس کے ثمرات بد سے بچ جائے لیکن دنیائے اسلام کے حق میں یہ شرعی ممانعت اس لیے بھی کہ مسلمان حجاب نسواں کے بارے میں ان بد راہ اقوام کے شبہ سے بھی بچے رہیں جنہوں نے جنون شباب کے نشہ میں مخمور ہوکر اس بے حجابی کے ذریعے فحش وبدکاری کا دروازہ کھولا، عفت نظر اور عصمت تخیل کی راہیں قلوب پرتنگ کردی اور پاک دامنی کی بجائے آلودہ دامانی کی لہریں عالم میں دوڑا دیں۔
جاہلیت اولیٰ:۔
آج سے کئی ہزارسال پیشتر حضرت نوح وادریس علیہما السلام کے درمیانی قرون نیز زمانہ فترۃ یعنی حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیانی دورمیں جن کو قرآن نے جاھلیۃ اولیٰ فرمایاہے عورت کی یہ بے حجابی وبے قیدی اپنی انتہاء پر پہنچ چکی تھی ان قرون میں عورت ایک نمائش اور مفاد عامہ کی چیز سمجھ لی گئی تھی اس کی حیثیت کسی مخفی خزانہ کی سی نہ تھی جو صرف اپنے ہی حق دار کے کام آسکے بلکہ ایک وقفی دولت کی مانند تھی جس سے ہر کس وناکس ہر حالت میں فائدہ اٹھا سکتا تھا زیوروپارچہ اور عطریات سے آراستہ ہوکر گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلتی مستانہ چال ڈھال اور نازوانداز سے مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی پھر اس بیرونی زینت ونمائش کے ساتھ ساتھ اعضائے بدن کی عریاں حیثیت اور تمام محاسن جمال نگاہ بازوں کے سامنے پیش کرتی تھی اور اس طرح ایک عورت اپنے شوہر اور عاشق کے درمیان بیک وقت استعمال کی جا سکتی تھی۔
غرض عفت وستر اور عصمت وپاک دامنی کی حقیقت سے ہی نہیں بلکہ صورت سے بھی ناآشنا ہو کر ہر اس تلذذ سے جو عورت کے ذریعہ مرد حاصل کرسکتا تھا مرد کو مستفید کرنے میں اس بے حجاب عورت کو دریغ نہ تھا،رحم ماضیہ کی ان میں ناجائز نمائشوں، حسن فروشیوں اور فحش کاریوں کوقرآن نے تبرج جاھلیۃ کے عنوان سے ظاہرفرمایا۔
جاہلیت حال:۔
آج کی شہوت راں قوم بالخصوص یورپ کی عیاش مگر متمدن اقوام کا شیوہ بے حجابی اس حد پر پہنچ چکاہے کہ جاہلیت اولیٰ بھی اس سے شرماکر زیر زمین چھپ گئی یورپین لیڈیوں کا تبرج نیم عریاں لباس دلربا یانہ گل گشت اور بے حجاب خروج اور اس کے ساتھ مردوں کاحیاء سوز رویہ جس کو قانونی زندگی کی شکل دے کر تہذیب وتمدن کے نام سے پکار دیا گیا ہے، جاہلیت اولیٰ کا نقش ثانی بلکہ اپنی نوعیت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔یہ وہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سانچے میں ڈھلتاہے۔
آج کی عورت بلاشبہ قانوناً آزادانہ حقوق رکھتی ہے لیکن اس آزادی کے معنی اس کے سوا کیاہیں کہ وہ بلاروک ٹوک نیم عریاں لباس میں سڑکوں اور تفریح گاہوں میں نکلتی ہے بے حجاب اور بلا نقاب اپنے برہنہ سینہ اور گلو کی نمائش کرتی ہے، پوری بناوٹ کے ساتھ اپنی دلربا یانہ چال ڈھال سے راہگیروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے اور اس حسن نمائی کے ذریعہ کنواری اپنے لیے متعدد دوست اور بیاہی شوہرکے بہت سے حریف پیدا کرلیتی ہے۔ شوہروں کی اذن ومرضی کی پرواہ کیے بغیرآشنائوں سے علی الاعلان اختلاط بے تکلف بات چیت ہنسی او ردل لگی اس کا شیوہ ہے غیروں سے خلوت گزینی میں شوہر کومخل ہونے کا قانونا ًکوئی حق نہیں کہ عورت اپنے حقوق میں آزاد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تمدن جدیدکے فرائض میں سیہ کاریوں کا روکنا نہیں بلکہ ان کی راہ میں سہولتیں بہم پہنچاناہے۔
موجودہ جاہلیت اور فحش کے چند نمونے:۔
اس کا نتیجہ یہ کہ بدکاری کے ساتھ قومی حمایت شامل حال ہے سالویش آرمی یورپ کی وہ خادم قوم اور محافظ بے کساں جماعت جس کا قیام خبر گیری خلق اللہ کے نام سے کیا گیا ہے اس کا ایک کام یہ بھی ہے کہ یورپ میں جن مائوں کو ناجائز بچوں کے جننے میں دشواریاں پیش آتی ہیں ان کے لیے زچہ خانہ اور زچگی کاانتظام کرے اس مشن کی ایک رپورٹ کے حوالہ سے نیویارک کا رسالہ ’’میڈیکل کراینک اینڈ گائیڈ دسی‘‘1928ء لکھتاہے جس کا اقتباس فاررڈ کلکتہ میں شائع ہواہے۔
’’آج سے بیس سال قبل ان زچہ خانوں کی آبادی پختہ عمر عورتوں سے قائم تھی جو ہر طرح سوچ سمجھ کر بدکاری کرتی تھیں لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے اب ان زچہ خانوں میں بڑی تعداد نو عمر طالبات علم ا ور ان کم سن لڑکیوں کی آنے لگی ہے جن کے دن ماں بننے کے بجائے اسکول میں حاضری دینے کے ہوتے ہیں، آخری اعداد کے بموجب انکی تعداد 42 فی صد ہے، ان لڑکیوں کی اوسط عمر16سال ہے۔‘‘
[اخبار سچ13جولائی1925ء بحوالہ تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام]
یہ تعداد اس حالت میں ہے کہ ملک میں منع حمل کے بے شمار طریقے ایجاد ہو چکے ہیں اور جہاں بغیر قصد کے ماں بننا تقریبا ًغیرممکن رہ گیاہے گویا آوارگی کے سو سو واقعات میں سے کہیں ایک آدھ ہی میں ان زچہ خانوں میں جانے کی نوبت آئی ہوگی باوجودیکہ لندن میں عصمت فروشی کا حق کسی عورت کو نہیں دیاگیا مگر ایک ذمہ دار میم صاحبہ تحریرکرتی ہیں کہ
’’1915ء سے 1917ء تک تین سال کے اندر لندن میں عصمت فروشی میں بیس ہزار عورتیں گرفتار ہوئیں یہ وہ احمق عورتیں تھیں جنہوں نے پولیس کو گرفتاری کا موقعہ دیا ورنہ لاکھوں ایسی نیک بخت بھری پڑی ہیں جن کی عمریں اس شغل میں بسر ہوئیں اور پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔‘‘
[انقلاب یکم جولائی 1928ء بحوالہ تعلیمات اسلام]
جانؔ بل لکھتاہے:۔
’’شہر نیویارک میں اس وقت40 ہزار بازاری عورتیں موجود ہیں اس تعداد میں وہ لڑکیاں داخل نہیں ہیں جنہوں نے اپنے گھروں ہوٹلوں اور دوسرے پبلک مقامات میں رفاہ عامہ کا کام جاری کر رکھاہے حساب لگا کر دیکھاگیاہے کہ تقریبا ًہردس جوان عورتوں میں نیویارک میں ایک بازاری رنڈی ہے اندازہ کیاگیاہے کہ شہر نیو یارک میں یہ بازاری عورتیں پچپن لاکھ چالیس ہزار سات سو مردوں کے ہاتھ اپنی متاع عصمت کو فروخت کرتی ہیں گویادن بھر میں پندرہ ہزار ایک سو اسی مرد بازاری عورتوں کو استعمال کرتے ہیں جس سے تمام امراض خبیثہ کے شکارہیں۔ ‘‘
[انقلاب یکم جولائی 1929ء بحوالہ تعلیمات اسلام]
رسالہ محشر خیال جون1935ء کی اشاعت میں لند ن کی باضابطہ لائسنس لے کر اعلانیہ بدکاری کرنے والی عورتوں کی تعداد 30ہزارشائع ہوئی ہے ظاہر ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے میں ایک عورت سے بدکاری کرنے والے مردوں کی تعداد بھی رکھ لی جائے جو ایسے احوال میں کم سے کم ہے تو ثابت ہوگا کہ لندن میں باضابطہ طور پر علانیہ روزانہ ایک لاکھ پچاس ہزار مردزناء کاری کے مرتکب ہوتے ہیں اور ایک سال میں 45لاکھ۔
شہر گلاسکوکے کالج میں پڑھنے والے طلباء کی اعانت کے لیے وہاں کی دوشیزہ لڑکیوں نے اعلان کیاکہ ہم شاہرائوں اور سڑکوں پر چھ شلنگ میں اپنے بوسہ کو فروخت کریں گی، چنانچہ ایسا ہی ہو ا اور سینکڑوں پونڈان نازنینوں کے بوسوں سے حاصل ہوئے۔
لندن میں باقاعدہ دوشیزہ لڑکیوں کی انجمنیں ہیں جو عہد کرتی ہیں کہ ہم شادی نہیں کریں گی ہاں عشق بازی اور معشوقانہ تعلقات ان کے اصول کے خلاف نہیں امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں طالبات سے دریافت کیا گیاکہ ایک نووارد لڑکی کویونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے کن کن امور سے واقفیت ہونی چاہیے؟ اس کا جواب دوسو سے اوپر لڑکیوں نے تحریر کیا جس کا خلاصہ اخبار مدینہ نے اس طرح شائع کیاہے
’’لڑکی کو تذکیروتانیث اور اس کے لوازم وخصوصیات سے پوری طرح واقفیت ہونی چاہیے اسے معلوم رہے کہ کسی طرح ناچنا چاہیے کس طرح سگریٹ پینا چاہیے کس طرح شراب کے ساغر غٹ غٹ چڑھانا چاہیے اور کسی طرح اسے گلے لگنا چاہیے نیز اسے تمام طالبان حسن پربے وجہ اور ہمہ گیر طورپرمہربان بھی نہ ہونا چاہیے (یعنی آشنائی کا مضائقہ نہیں مگر طبیعت کے میلان کے معیار سے خاص خاص افراد سے)بدمست اور شرابیوں سے معاملہ کرنے کا فن اسے آنا چاہیے۔ ایک لڑکی نے ان الفاظ کا اس میں اور اضافہ کیاکہ لپٹنے اور گلے لگنے کا تجربہ پہلے سے ہونا چاہیے تاکہ یونیورسٹی پہنچ کر اس عمل میں ناتجربہ کاری کی بناء پر کوئی رکاوٹ یا شرمندگی نہ ہو اور سہولت سے یہ عمل جاری رہ سکے خواہ طالب علموں سے یا پروفیسروں سے یا ملازمین یونیورسٹی سے نیز جسے وہ ناپسند کرتی ہو،اسے گلے لگنے سے باز رکھنے کا فن اور طریقہ بھی معلوم رہنا چاہیے۔‘‘
[سیاست لاہور، 28مئی1933 بحوالہ تعلیمات اسلام]
ایک امریکن دانشمند لکھتاہے:۔
’’ہمارا سینما اور ہماری موٹرکاریں کیاہیں ؟ جرائم اور بدکاری کے مبلغ جن سے چوریوں میں ہمیں آسانی ہوتی ہے عورتوں کو بھگا لے جانے میں مدد ملتی ہے فحش کاریوں میں ان مخلوط مجامع سے کافی سہولتیں بہم پہنچ جاتی ہیں نتیجہ یہ ہے کہ آج نہ مردوں میں غیرت باقی ہے اور نہ عورتوں میں عفت۔ منزلی زندگی تباہ ہے نہ آج کی آزاد عورتوں کو مرد کی پرواہ ہے نہ مرد کو عورت کی دوست احباب کے لیے۔ آج سب سے بڑا تحفہ بیوی ہے اور عورت کے سب سے زیادہ مسرور کن نظارہ مرد کی نگاہ شہوت۔‘‘ (تعلیمات اسلام ص177]
مسٹر جارج ایلن اینڈ الون اپنی کتاب’’ تمدن‘‘ میں لکھتاہے:۔
’’عزت کے الفاظ عصمت کے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں لیکن عملی زندگیاں حرام کاری اور آتشک کے لیے وقف ہیں۔
(تعلیمات اسلام175]
انہیں شہوانی جذبات اختلاط کے ماتحت یورپ میں بین الاقوامی نمائشیں ہوتی ہیں تو کس متاع کی؛ استعمالی سامانوں کی نہیں، انتخاب حسن کی کہ کون لڑکی زیادہ حسین ثابت ہوئی اور کس ملک اور شہر کے نام انتخاب حسن کا قرعہ نکلا پھر فخریہ لہجو ں میں اس ملک اور خطہ کی تعریف کی جاتی ہے اور نہ صرف اعضاء حسن ہی کا انتخاب نمائشوں کے ذریعہ کیاجاتا ہے بلکہ اعضاء شہوت میں بھی یہ انتخاب بات بے محاباعمل میں آتے ہیں ابھی پچھلوں دنوں رانوں کی نمائش ہوئی کہ کس نوجوان لڑکی کی ران زیادہ گوری گداز اور خوش نما ہے اور پھر ایسے امتحانوں پر انعامات جاری کیے جاتے ہیں جس سے آج کی قوموں کے قومی جذبات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ان مشتے نمونہ از خروارے اعداد وشمار سے جو پورے یورپ کے نہیں چند مخصوص گھروں کے ہیں اور وہ بھی چند مخصوص ایام کے ہیں اندازہ کیا جا سکتاہے کہ عورت ومرد کی بے حجابی اور اختلاط نے انسانوں کو بہمیت کے کسی حیاء سوزدرجہ تک پہنچادیاہے اور مذہب کو چھوڑنے والے اپنے اختراعی قوانین یا تہذیب جدید کی رو میں بہہ کر کس طرح اخلاق اور انسانیت سے دورہوتے چلے جا رہے ہیں اور کس طرح خرمن امن وسکون میں آگ لگا کر جہنم کے دروازے بنی نوع انسان پر کھولے جارہے ہیں۔
یہی وہ یورپ کی تہذیب وترقی اور اس کا روشن تمدن ہے جس کی طرف مدعی سست گواہ چست کے مطابق یورپ کے نئے شاگرد ہمارے روشن خیال نوجوان ہم کو بلا رہے ہیں مسئلہ حجاب شرعی کے خلاف اخبارات ورسائل کے کالم سیاہ کیے جا رہے ہیں تاکہ ایشاء اس بے حجابی پر آجائے جس پر یورپ پہنچ کا ہے افسوس کہ آنکھیں اندھی ہوگئیں کان بہر ے ہوگئے زبانیں گنگ ہیں دلوں پر پردے پڑگئے اور دماغ مائوف ہوگئے مذہب اور بالخصوص اسلام کی عالم تاب روشنی دکھائی نہیں دیتی بے حجابی کے انہیں مہلک نتائج کو دیکھ کر اسلام کی حکیم شریعت نے اپنے حلقہ بگوشوں کوحیاء وایمان کاسرمایہ دار بنایاتھا۔
اور اس جاہلیت اولیٰ اور اس جاہلیت اخریٰ کے ان متعفن اور گندے اعمال کی پیروی کرنا تو کیا ان کی ظاہری مشابہت اور صوری تشبیہ سے بھی باز رکھا تھا اس نے اس تبرج جاہلیت کے مقابلہ میں حجاب فطری کا ایک ایسا حیا آموز اور خوش انجام پروگرام پیش کیاہے جس کی پیروی ایک طرف شریفانہ اخلاق اور خواتین اسلام کی آبرو کی کفیل ہے اور دوسری طرف عام مادی فلاح وبہود اور تحفظ انسانیت وقومیت کی ضمانت دارہے جس کے دائرے میں نہ زناقدم رکھتاہے نہ دواعی زنا کی پیش چل سکتی ہے۔