کتاب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کتاب
ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
ایک روز مجلس میں کسی نے کہا کہ’’ شاہ جی! آپ نے کوئی کتاب کیوں نہ لکھی؟ اگر آپ اپنے خیالات کو کتابی شکل میں پیش کرتے تو وہ کتاب خاصے کی چیز بلکہ مرقع معانی اور حیرت کدہ حقائق ہوتی۔ ‘‘ شاہ جی نے کہا:’’ میاں ! آج کل کتابیں کون پڑھتا ہے؟ لوگ بمشکل نصاب کی کتابیں ہی پڑھتے ہیں وہ بھی بذریعہ خلاصہ جات۔ اس دور میں لوگ دماغ سے کم اور دیدوں سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ یہ ٹی وی کا زمانہ ہے لوگ رنگین ٹی وی کی آنکھ میں خوبصورت تصویریں اور دلکش مناظر دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، اب صرف رنگوں کی دنیا ہے وہ فنون جو رنگوں سے وابستہ ہیں وہی لوگوں میں مقبول ہیں اور وہی قابل قدر سمجھے جاتے ہیں، نظم ونثر کے فن پاروں کے بجائے نقاشی کے فن پاروں کی قدر ہے کتاب کے بجائے کتابت کی مانگ ہے کہ کتابت یا خطاطی آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں دماغ کو کام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔
یا پھر ناچنے گانے کا فن عوام الناس میں مقبول ہے اور ناچ گانا بھی وہ جو جنگ کے میدان کا نقشہ پیش کرے۔ گانا ایسا پر شورکہ یوں معلوم ہوتاہے کہ جنگ کا بگل بج رہاہے اور ناچ ایسا پرزور کہ ناچنے والا گویاکوئی شمشیر زن ہے جو اچھل کود کر اپنی شمشیر زنی کے جوہر دکھارہاہے۔ میاں ! یہ پیشے اختیار کرو تاکہ شہرت اور دولت دونوں حاصل ہوں، کتاب لکھو گے، محنت کرو گے اور دل جلائو گے تو فائدہ کیاہوگا، کتاب کوئی نہیں پڑھے گا، وہ ردی میں بکے گی، عام لوگ اخبار اس لیے نہیں پڑھتے کہ پڑھنے کے قابل نہیں ہوتی اور ادبی کتابیں اس لیے نہیں پڑھتے کہ وہ خود اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کا مطالعہ کریں۔ ویسے بھی میاں غور تو کرو کہ قلم کی دو زبانیں ہیں کاغذ کے دو چہرے ہیں اور دوات سیاہ دل ہے ان تینوں کے ا متزاج سے جو چیز یعنی تحریربرآمد ہوگی وہ خلق خد اکے لیے کیا خاک بھلائی رکھے گی سو کاغذ کو سیاہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم دل کی سیاہی کو دھونے کی فکر کریں۔ ‘‘
ایک روز مجلس میں ایک صاحب نے اعتراض کیاکہ’’ شاہ جی! آپ بولتے بہت ہیں اور صرف بولتے ہی ہیں کبھی کچھ لکھابھی کریں تاکہ دو سرے لوگ آپ کے خیالات عالیہ سے مستفید بھی ہوں، ان پر تنقید کی جاسکے اور تبصرہ بھی کیاجاسکے۔ ‘‘
کہنے لگے:’’ میاں !کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف سوچتے ہیں، یہ لوگ دیوانگی کے ابتدائی درجہ میں ہوتے ہیں، کچھ صرف بولتے ہیں یہ عام طورپرخطیب ہوتے ہیں یا خواتین ہوتی ہیں یادیوانے یا سیاستدان قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کچھ لوگ بغیر سوچے صرف لکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو بقول کسے اپنے قلب کی سیاہی کے سمندر میں دنیاوالوں کو نہلاتے بلکہ ڈبوتے ہیں، کچھ لوگ سوچتے ہیں اور پھر بولتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے، یہ دیہاتی سیانے ہوتے ہیں اور سب سے کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پڑھتے ہیں سوچتے ہیں، پھر کسی موضوع پر بولتے ہیں یا لکھتے ہیں ان کی تقریر یا تحریر جاندار ہوتی ہے۔ ‘‘میر صاحب نے کہا:’’آپ تو پھر دیہاتی دانشورہوئے بلکہ یوں کہاجائے کہ آپ پینڈوسیانے ہیں۔ ‘‘ شاہ جی نے کہا:’’تم جو چاہے سمجھ لو اور کہہ لو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اچھے لکھنے والے جو سعدی، حافظ شیکسپئر، ملٹن، غالب اور اقبال کے پائے کے ہوتے ہیں وہ تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، میں لکھ سکتاہوں لیکن مجھے یہ زعم نہیں کہ سعدی یا غالب بن سکوں، ہاں ! عام لکھنے والوں سے بہت بہتر لکھ سکتاہوں۔
لیکن یہ دور ہے گروہی سیاست اور تعلقات عامہ کا، آپ کسی گروہ یا گروپ سے وابستہ ہوں تو آپ کی معمولی تحریر بھی آپ کو بام شہرت پر پہنچا سکتی ہے لیکن جو میری طرح بے گھر ہو بے پر ہو، بے زر ہو، وہ لاکھ تحریرمیں معانی کے موتی پروئے، افکار کے ستارے ٹانکے، الفاظ کے پھول سجائے، ادب میں کوئی مقام و مرتبہ تو کیا پائے گا تنقید بلکہ تنقیص کے پتھر کھائے گا۔ میاں !ہمارا ایک دوست تھا جو مطالعہ کا بے انتہاء شوقین تھا سوچ کا اچھوتا انداز اور لکھنے کا ستھرا ذوق بھی رکھتا تھا اور وہ لکھتا کیاتھابلکہ اوراق کے افق پر چاند تارے بکھیر تا تھا اسے شوق چرایا کہ شہر کی ادبی محفل میں اپنا مضمون سنائے اور دانشوروں سے داد وصول کرے، اس نے اس غلطی بلکہ حماقت کا خوب خمیازہ بھگتا، شہر کے سکہ بند دانشوروں نے اس کا خوبصورت مقالہ سن کر اس کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا ایک خاکہ سا اس عزیز نے ’’لیکن ‘‘کے عنوان سے لکھاتھا۔