سُعاد!… تم کہاں ہو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سُعاد!… تم کہاں ہو؟
اہلیہ مولانا عابد جمشید
’’اس سورج کو ساری دھوپ میرے بابا جان پر ہی ڈالنے میں پتہ نہیں کیا مزا آتا ہے اف میرے اللہ! کتنی گرمی ہے۔ ‘‘
تاحد نظر صحرا ہی صحرا تھا …ظالم … خشک … بے رحم … اندھا صحرا… اتنا بھیانک کہ سخت جان صحرائی درخت بھی وہ ہاں جنم لینے سے ڈرتے تھے… شاید اس لیے کہ سینے میں جو ناقابل بیاں کہانیاں چھپی ہوئی تھیں ، انہوں نے اسے اتنا وحشت ناک بنا دیا تھا …یا پھروہاں گونجنے والی معصوم اور مظلوم چیخوں کی بازگشت نے اس صحرا کو اتنا بے حس بنا دیا تھا … وہ چیخیں جو ظالم درندے نما انسانوں کے کانوں سے ٹکرا کے پلٹ آتی تھیں … وہ چیخیں جنہیں صرف اس ذات نے سنا جو سمیع وبصیر ہے …اور جوآنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتی ہے… عرب کے اس بے آب وگیاہ صحرا میں … آگ برساتے سورج کے نیچے کھڑی …وہ ننھی معصوم سی کلی… سرخ آنکھوں سے اس قیامت خیز گرمی کا شکوہ کر رہی تھی…
’’سن ! سُعاد کو تیار کر دے۔ قبیلے میں ایک شادی ہے سعاد بھی میرے ساتھ جائے گی، سب بچے کہیں نہ کہیں جایا کرتے ہیں لیکن میری سعاد کبھی کہیں نہیں گئی، آج یہ بھی میرے ساتھ چلے گی۔‘‘ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ’’آہا ! آج میں اپنے بابا جان کے ساتھ جاؤں گی…کتنا مزا آئے گا… ‘‘ خوشی سے سعاد کے دل کی دھڑکنیں بے ربط ہونے لگیں۔
آسمان ٹوٹ کر گرنے کو تھا … زمین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ صدمے سے پھٹ جائے… نظام کائنات درہم برہم ہو ا چاہتا تھا … عرب کے وہ بادیہ نشین جن سے قیصر وکسریٰ بھی لرزتے تھے… ان کے سینوں میں دل گویا موم کے ہو گئے تھے …وفا شعار اور جاں نثار ساتھی جو اپنے آقا کی آنکھوں میں … ہلکی سی نمی بھی نہیں دیکھ سکتے تھے… آنسوؤں کی لڑیاں نظر آرہی تھیں … وہ ذات جس کے اشارہ ابرو پہ… گردش افلاک کو تھم جانے کا امر ہو سکتا تھا… وہ ذات ہچکیوں سے رو رہی تھی …
خدا یا! دُھائی ہے …
’’بابا جان! اب بس کر دیں ناں دیکھیں آپ کے کپڑے کتنے گندے ہو گئے ہیں۔ ‘‘
ننھی سعاد کا تھکن سے برا حال تھا پچھلے دو گھنٹے سے اس کے باباکھدائی کر رہے تھے، مٹی اور ریت ان کے کپڑوں پر گرتی تو سعاد فوراً اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے جھاڑ دیتی۔ سورج سوا نیزے پر تھا اور صحرا لوہار کی بھٹی بنا ہوا تھا۔
’’پتہ نہیں بابا جان یہاں سے کیا تلاش کر رہے ہیں … اور مجھے بتاتے بھی نہیں …‘‘
اس نے دو تین مرتبہ پوچھا بھی تھا لیکن بابا جان خاموش رہے تھے… سعاد بھی چپ ہو گئی… سورج نکلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ گھر سے نکل پڑے تھے، سعاد پھولے نہ سما رہی تھی۔ وہ اپنے بابا کے ساتھ ساتھ چلنے کی بجائے اچھلتے کودتے ان کے گرد چکر لگاتی اور پھر بھاگ کر ان سے آگے نکل جاتی۔لیکن اب تھکن اور پیاس نے اس کی ساری شوخیاں بھلا دی تھیں۔ چمڑے کی چھوٹی سی چھاگل میں پانی کب سے ختم ہو چکا تھا …اگر کوئی چیز ختم ہو نے کا نام نہ لے رہی تھی تو وہ تھی قیامت خیز گرمی اور سعاد کے بابا کی کھدائی …!
’’بابا جانی چلیں ناں ، شادی کی تقریب سے دیر ہو جائے گی‘‘ سعاد رو دینے کو تھی۔
’’بس تھوڑی سی دیر… اور… پھر ہم چلیں گے۔‘‘
پھولی ہوئی سانس کے ساتھ جواب ملا۔ اس لمے سعاد کو اپنی ساری تھکن اور پیاس بھول گئی۔ ’’اخاہ ! کتنا مزہ آئے گا … واپس جا کر امی کو بتاؤں گی کہ میں شادی میں جا کر کتنی خوش ہو رہی تھی…‘‘
گڑھا اب کافی گہرا ہو چکا تھا۔ سعاد کے بابا کو مٹی باہر پھنکنے میں کافی مشقت کرنا پڑ رہی تھی آدھی سے زیادہ مٹی دوبارہ اندر گر جا تی اور اسے پھر باہر پھینکنا پڑتا۔ اپنے بابا کے کپڑوں سے گرد جھاڑتی سعاد کی آنکھوں میں ریت کے ذرے چبھنے لگے تھے۔ ’’اے سیاہ پتھروں سے بنے کعبہ کے رب! میرے بابا جان کا کام جلدی ختم ہو جائے۔‘‘ سعاد نے دل ہی دل میں دعا مانگنا شروع کر دی۔
چوڑے سینے والے اس عرب نے… کدال ہاتھ سے رکھ دی… ایک نظر سعاد کی طرف دیکھا… جس کے چہرے پر تھکن کے باوجود خوشی کھِلی پڑی تھی… پھر گھوم کر گڑھے کے چاروں طرف نظر ڈالی … ’’ گہرائی کافی ہے… سعاد کے قد سے ڈیڑھ گنا تو ہوگئی ہو گی…‘‘ گوشت پوست کے سینے میں پڑے پتھر نے سوچا … خدایا ! دھائی ہے… پتھر بھی دھڑکتے ہیں …؟
سعاد کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیا … ’’باباجانی ! آپ اکیلے کیوں باہر نکل گئے …؟ پہلے مجھے نکالیں ناں …‘‘
’’بابا ……بابا……باباجانی……‘‘
لیکن پتھر کہاں سنتے ہیں !
’’امی ……امی…… امی جانی……‘‘
سورج کی آنکھیں تپنے لگیں …بے رحم صحرا میں پڑے پتھروں کا سینہ چاک ہونے لگا… زمین نے اپنے خالق سے شق ہونے کی اجازت مانگی ہو گی… جھلسا دینے والی لو کوبھی… جھر جھری سی آگئی… اس نے دہکتی ریت کے کچھ انگارے اٹھائے… اور گڑھے کے کنارے پر کھڑے عرب بدو کے منہ پر دے مارے …
’’بابا……بابا… امی… دیکھیں بابا کو…بابا……‘‘
عجیب ! عجیب ! نہایت عجیب ! پتھروں کا سینہ چاک ہو رہا تھا … صحرا رو دینے کو تھا … ریت سسکیاں لے رہی تھی … لیکن …لیکن انسان خاموش اور بے حس وحرکت کھڑ ا تھا… عجیب…! تھوڑی سی گرم ریت سعاد کے سر پر آ کے گری … پھر کچھ اور …پھر……
’’ بابا……بابا… باباجانی…بابا…ام م م …می ی ی…‘‘
سعاد کی آواز رندھ گئی …ریت اس کے بالوں میں … آنکھوں میں گر رہی تھی … سعاد نے دنوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے … اب ریت نے اس کے پاؤں پکڑ لیے تھے … ٹخنوں تک…
’’ام می ی ی … بابا… شادی… بابا جانی … کپڑے……‘‘
گھٹنوں تک … سورج آنکھیں جھپکنا بھول گیا … ریت اب ٹانگوں کو ڈھانپ چکی تھی…معصوم پھول کی صرف سسکیاں رہ گئی تھیں … کندھوں تک… سعاد کے ہاتھ جکڑے گئے… ریت اب سیدھی چہرے پر گر رہی تھی … معصوم پھول نے آنکھیں اٹھا کر… آسمان کی طرف دیکھا … ریت کے گرنے کی رفتار تیز ہو گئی…
سعاد …کہاں گئی سعاد… اب تو اس کے بال بھی دکھائی نہ دے رہے تھے …
’’سعاد! شادی میں نہیں جانا کیا…؟ سعاد!… تم کہاں ہو…؟‘‘