علامہ اقبال مرحوم … اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
علامہ اقبال مرحوم … اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی
معظمہ کنول ؔ
’’ارمغان حجاز‘‘ دانائے راز علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کا مجموعہ کلام ہے، جس میں شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف کہے گئے تین اشعار بھی موجود ہیں ، یہ اشعار جنوری 1938ء میں اقبال مرحوم نے ایک غلط اخباری اطلاع کی بنیاد پر کہے تھے۔ بعدازاں جناب طالوت نے علامہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ آپ کے اشعار کی بنیاد جس مفروضے پر ہے، اس کی حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نسبت محض جھوٹی ہے اور حضرت نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی کہ وطن ہی اساس ملت ہے۔
چونکہ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے اشعار کسی ذاتی دشمنی و عداوت اور کسی مخفی جذبے کی بنیاد پر نہیں تھے، اس لیے حقیقت حال واضح ہونے پر انہیں رجوع سے کوئی چیز مانع نہ ہوئی اور 28 مارچ 1938ء کو روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور میں انہوں نے یہ اعلان شائع کرایا کہ مذکورہ اشعار غلط اخباری اطلاع کی بنیاد پر کہے گئے تھے لہٰذا انہیں کالعدم سمجھا جائے۔ علامہ نے تو اعتراف حق کرکے اپنے نامہ اعمال سے یہ سیاہ داغ دھو دیا لیکن جب علامہ کی وفات 21 اپریل 1938ء کے کئی ماہ بعد نومبر 1938ء میں یہ مجموعہ کلام شائع ہوا تو ان کے ناخلف جانشینوں نے ان اشعار کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ علامہ کے رجوع و اعتراف حق سے کلی طور پر صرف نظر کرتے ہوئے کوئی توصیحی نوٹ بھی شائع نہ کیا۔ یہ محض ان لوگوں کا خبث باطن تھا،جس سے علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ مبرا و منزہ تھے۔ اگر یہ مجموعہ کلام ان کی حیات میں شائع ہوتا تو وہ ضرور ان اشعار کو حذف کرا دیتے یا حقیقت حال کو ضرور واضح کر دیتے۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی مسلم لیگ کے چوٹی کے ارکان ہی میں سے نہ تھے بلکہ انجمن حمایت اسلام کے قائم کردہ اشاعت اسلام کالج کے پرنسپل اور علامہ اقبال و محمد علی جناح کے معتمد خاص بھی تھے، کلام اقبال کے شارحین میں پروفیسر موصوف کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مسلم لیگ کی وہ مخصوص ذہنیت کہ جو مسلم لیگی نہیں وہ مسلمانوں کا خیرخواہ بھی نہیں بلکہ وہ ضمیر فروش، غدار قوم اور ہندؤوں کا غلام ہے، ان کے بھی رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی لہٰذا جب ’’ارمغان حجاز‘‘ کی تشریح کے دوران ان کے سامنے علامہ اقبال کے مذکورہ تین اشعار آئے تو انہوں نے روایتی لیگی ذہنیت بلکہ خبث باطن کا پورا پورا ثبوت دیتے ہوئے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف الزام و اتہام کے طومار باندھے اور گستاخی کی تمام حدود و قیود کو پھلانگتے ہوئے انہیں ’’مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے بے خبر‘‘ تک لکھ دیا۔ (نعوذ باللہ)
1956ء تک وہ اسی دھن میں مگن اور اسی رو میں بہتے رہے، مگر خلاق عالم کو جانے ان کی کون سی ادا پسند آ گئی کہ اس قدر گستاخی و دریدہ ذہنی کے باوجود ’’فعال لما یرید‘‘ نے ان کی ہدایت کا فیصلہ فرمایا۔ چشتی صاحب اپنی لیگی ذہنیت میں اس قدر پختہ اور اپنے موقف پر اس قدر سخت تھے کہ اس کے باوجود انہیں اظہار حق و اعتراف توبہ میں 1956ء تا 1972ء تقریباً 16 برس کا عرصہ لگا۔ ہم یہاں بصد اختصار کچھ باتیں اس حوالے سے سپرد قرطاس کر رہے ہیں۔ تفصیل کیلئے ’’چراغ محمد سوانح حضرت مدنی رحمہ اللہ مولفہ حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینی رحمہ اللہ ‘‘ یا ’’ماہنامہ القاسم نوشہرہ بابت جون 2009ئ‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔
جناب پروفیسر یوسف سلیم چشتی کا امام الہدیٰ حضرت مولانا احمد علی لاہوری ? سے تقریباً 25، 26 سال پرانا تعلق تھا اور انہیں حضرت کے اخلاص و تقویٰ اور صدق مقال پر کامل اعتماد تھا۔ یہ اکتوبر 1956ء کی بات ہے، حضرت لاہوری رحمہ اللہ کراچی تشریف لائے ہوئے تھے، انہوں نے پروفیسر صاحب جو بس کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑے تھے، کیلئے کار روکی، انہیں برنس گارڈن لے گئے، تبادلہ خیالات کے دوران حضرت لاہوری رحمہ اللہ نے ان کی توجہ ’’ارمغان حجاز‘‘ کی شرح اور حضرت مدنی کی گستاخی کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا:’’میں تمہاری بدگمانی دور کرنے کیلئے تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں اور میرے علم کی رو سے اس وقت روئے زمین پرکوئی شخص روحانیت، تقویٰ اور تعلق مع اللہ کے اعتبار سے حضرت اقدس شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے۔‘‘ مزید فرمایا:’’حضرت مدنی رحمہ اللہ کی جوتیوں کا تلوا بھی میری داڑھی سے زیادہ محترم ہے،بلاشبہ وہ اس زمانے میں اللہ کی ہستی کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی ہیں۔ ‘‘ساتھ ہی فرمایا کہ تم میرے عزیز ہو، اس لیے میری گزارش ہے کہ اپنی گستاخیوں سے رجوع کرو۔
حضرت لاہوری رحمہ اللہ کے ساتھ ہونے والی اس نشست نے پروفیسر صاحب کے اندر ایک بھونچال سا پیدا کر دیا، نفس کا پہلوان بھی بہرحال اتنا کمزور نہیں تھا کہ فوری چت ہو جاتا، مگر اتنا ضرور ہوا کہ انہیں اپنی اصلاح کی فکر ہوئی۔ 1957ء میں لاہور منتقل ہونے کے بعد انہوں نے حضرت لاہوری رحمہ اللہ کی مجالس ذکر میں شرکت شروع کر دی۔ حضرت نے بھی انہیں نہ صرف یہ کہ خصوصی توجہ سے نوازا بلکہ حضرت مدنی رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کے قلب و ذہن میں بھرے ہوئے ’’لیگی زہر‘‘ کی بھی صفائی شروع فرما دی۔ رفتہ رفتہ ان کے دل سے گستاخی کے جراثیم رخصت ہونے لگے اور ان کی جگہ شیخ العرب والعجم کے عشق صادق نے لے لی۔ اسی سال جب حضرت مدنی رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو انہیں یوں لگا کہ وہ اپنے محبوب سے جدا ہو گئے ہیں۔ پروفیسر صاحب مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے، اسے موقوف کرکے حضرت مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات بیان کرنا شروع کر دیے اور مسلسل چار ماہ یہ شغل عزیز رہا۔ برف پگھلتی جا رہی تھی، لیکن اس تعلق کے باوجود اعتراف حق کیلئے نفس آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت لاہوری رحمہ اللہ بھی داغ مفارقت دے گئے اور اب مولانا روم کی اپنے شیخ شمس تبریز رحمہ اللہ کی وفات کے وقت جو کیفیت تھی، پروفیسر صاحب کی کیفیت بھی اس سے کچھ کم نہ تھی، وہ بھی کسی صلاح الدین کے متلاشی تھے۔ جب انہوں نے اپنی یہ کیفیت حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینی رحمہ اللہ کو لکھی تو انہوں نے پروفیسر صاحب کی رہنمائی حضرت مدنی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز مولانا سید حامد میاں کی طرف کی اور 1965ء میں پروفیسر صاحب ان سے بیعت ہو گئے۔
روحانی منازل تو طے ہو رہی تھیں ، مگر اعتراف حق و اقرار جرم کا مرحلہ ہنوز کافی دور تھا۔ اس جانب مولانا قاضی زاہد الحسینی رحمہ اللہ، اپنے مکتوبات میں پروفیسر صاحب کو بار بار متوجہ کرتے رہے۔ یہ سلسلہ جنوری 1965ء سے جاری تھا، بالآخر 22 مئی 1968ء کے مکتوب میں مرقوم حضرت قاضی صاحب کے الفاظ ’’ازدل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق ثابت ہوئے، قاضی صاحب نے اس خط میں تحریر فرمایا تھا:’’بہرحال آپ کی طرف سے فی الحال اگر چند سطور ’’خدام الدین‘‘ میں آ جائیں تو بہتر ہیں : مثلاً شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ العزیز کی شان گرامی میں میرے قلم اور میری زبان سے جو کلمات ناشائستہ صادر ہو چکے ہیں ، میں ان سے صدق دل سے نادم ہو کر رجوع کرتا ہوں۔ میں آپ سے بار بار اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ سالک کے اکثر مقامات شیخ کی شان میں بے ادبی سے نہ صرف رک جاتے ہیں بلکہ لطائف بجھ جاتے ہیں۔ ‘‘
یہ آخری جلہ پڑھتے ہی نفس و شیطان کے ایوان میں زلزلہ برپا ہوا۔ نفس اور روح کی شدید کشمکش ہوئی اور بالآخر روح نے نفس امارہ کو چاروں شانے چت گرا دیا۔ پروفیسر صاحب نے نفس کی غلامی پر چار حرف بھیج دیے، کہ لطائف بجھ جائیں اور روح مر جائے تو انسان اور گدھے میں بھلا کیا فرق رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور بزرگوں کی خصوصی توجہ سے پروفیسر یوسف سلیم چشتی رحمہ اللہ نے وہ توبہ کی کہ تواب الرحیم سے قوی امید بلکہ یقین ہے کہ ان کی سابقہ تمام گستاخیوں کا کفارہ ہو گیا ہوگا۔ انہوں نے سب سے پہلے فروری 1972ء کے ماہنامہ ’’میثاق‘‘ میں یہ توبہ نامہ شائع کرایا، اب یہ ’’چراغ محمد‘‘ کا بھی حصہ ہے۔
پروفیسر صاحب مخلص تھے اور اللہ والوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے انہیں بھی اپنے ممدوح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ کی طرح اعتراف حقیقت و اظہار توبہ میں کوئی دقت پیش نہ آئی، کہ قلب میں اخلاص ہو تو قدرت بھی یاوری کرتی ہے، رہے دور حاضر کے قلم فروش، تو انہیں یہ نعمت شاید اس لیے میسر نہیں آتی کہ ان کی تحریروں کے پیچھے جذبہ صادق نہیں بلکہ مخصوص مفادات کا حصول ہوتا ہے، اس لیے عناد کی بیماری میں مبتلا یہ قلم فروش ’’میں نہ مانوں ‘‘ اور ’’مرغی کی ایک ہی ٹانگ‘‘ کی رٹ ہی لگائے رہتے ہیں ، ان سے کسی کو کیا امید اور کیا گلہ؟
آئیے پروفیسر یوسف سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کاایمان افروز رح پرور ’’توبہ نامہ‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اے ستار العیوب! میں بصمیم قلب اقرار کرتا ہوں کہ میں نے تیرے مقبول بارگاہ اور برگزیدہ بندے شیخ اسلام، مجاہد اعظم، قدوۃ العارفین، زیدۃ الکاملین، سیدی و شیخی و سندی وو سیلتی فی الدارین مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز کی شان اقدس میں اپنے قلم اور اپنی زبان سے بڑی گستاخیاں کیں ، میں اپنی اس نالائقی اور حماقت کو کسی پردے میں نہیں چھپانا چاہتا، اعلانیہ صاف لفظوں میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں اندھا و جاہل اور احمق اور عقل و خرد سے بیگانہ ہو گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھ کر چودہ سال تک دین کی تعلیم و تبلیغ کی اور ساری عمر اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بسر کر دی تھی، اسے مقام رسول سے بے خبر قرار دیتا رہا بلکہ اس کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان گستاخیوں پر فخر کرتا رہا۔ اے اللہ! یہاں کی ذلت اور رسوائی مجھے منظور ہے، میں تو یوں بھی سراپا خطا و مجسم گناہ ہوں ، مجھ میں اور کون سی خوبی ہے جس پر ناز کر سکتا ہوں ، مجھے قیامت میں اپنی خفگی اور اپنے محبوب کی ناراضی سے محفوظ رکھیو۔
اے اللہ! میں ڈرتا ہوں اور سخت لرزہ براندام ہوں اس بات سے کہ قیامت میں جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مجھ پر پڑے گی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں مجھ سے اس انداز میں خطاب نہ فرمائیں :’’اچھا تو تم ہو وہ گستاخ اور دریدہ دہن! جس نے میرے اس عاشق صادق کی شان میں بے ادبی کی تھی، جس نے میرے دین کی سربلندی کی خاطر اور میری محبت میں ساری عمرقید و بند کو دعوت دی اور طوق سلاسل کو لبیک کہا،جس نے میری محبت میں میرے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور تادم آخر کلمہ حق کہا، جس نے میری خاطر مالٹا میں مصائب جھیلے، جس نے میری محبت میں کراچی کی جیل کاٹی، جس نے اعلاء کلمۃ الحق کیلئے انگریز (علیہ ما علیہ) سے ٹکر لی، جس نے میری امت کی بہبود کیلئے دن میں قرآن و حدیث کا درس دیا اور رات میں دشمنان اسلام کے خلاف لسانی جہاد کیا۔ جس نے اسلام کی خاطر غیروں کے طعنے سنے اور اپنوں سے گالیاں کھائیں اور گالیاں کھا کر بے مزہ ہونا تو درکنار ان گالیاں دینے والوں کے حق میں دعائیں کیں ، جس نے اپنی تمام متاع حیات مجھ پر نثار کر دی‘‘۔
تو اس وقت میرا کیا حال ہوگا؟ کون سا آسمان مجھے پناہ دے گا اور کون سی زمین مجھے ٹھکانا دے گی؟ اے اللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نگاہ عتاب سے بچنے کیلئے میں اس دنیا میں ہر قسم کی ذلت اور رسوائی برداشت کرنے کو تیار ہوں۔ اے اللہ! میں صدق دل سے توبہ کرتا ہوں ،میری لعزشوں ، خطاؤں اور گستاخیوں کو معاف کر دے جو میں نے اپنے شیخ طریقت، مخدوم ملت، محرم راز نبوت، واقف اسرار رسالت اور آشنائے مقام محمدی (علیہ افضل التحیۃ والثنائ) کی شان میں روا رکھی تھی۔‘‘
پروفیسر صاحب کا 3 فروری 1984ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور دور حاضر کے نام نہاد دانشوروں اور قلم کاروں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اکابر کی گستاخی سے بچنے اور سچی توبہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین