وہ بھی کیا لوگ تھے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وہ بھی کیا لوگ تھے !
ام فروہ، جھنگ
’’یہ ہماری والدہ ہیں اور ان کی پچھلے چالیس سال سے یہی کیفیت ہے۔ ‘‘یہ الفاظ تھے اس گم نام عالمہ کے بیٹے کے جو نامور محدث حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو اپنی والدہ محترمہ کا تعارف کروا رہا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے سفر کو جا رہا تھا کہ مجھے ایک بوڑھی خاتون راستے میں ملی جس نے اون کا کرتا پہن رکھا تھا اور اوڑھنی بھی اون کی تھی میں نے اس کے پاس جا کر کہا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تو اس خاتون نے جواب میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی۔
سلام قولا من رب رحیم
(سورۃ یسین
عبد اللہ بن مبارک: اللہ تم پر رحم فرمائے یہاں کیا کر رہی ہو؟
خاتون: من یضلل اللہ فلا ھادی لہ
(سورۃ الاعراف]
جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو رہ بتلانے والا کوئی نہیں۔
حضرت ابن مبارک فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ وہ راستہ بھول گئی ہے یا قافلے سے بچھڑ گئی ہے۔
عبد اللہ بن مبارک: کہا ں جانے کا ارادہ ہے؟
خاتون: سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلامن المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ
(سورۃ بنی اسرائیل]
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام (بیت اللہ مکہ معظمہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گئی۔
ابن مبارک فرماتے ہیں میں اس کی اس بات سے سمجھ گیا کہ وہ حج بیت اللہ سے فارغ ہو چکی ہے اور اب بیت المقدس جانا چاہتی ہے۔
عبد اللہ بن مبارک: کب سے یہاں بیٹھی ہو؟
خاتون: ثلث لیال سویا
(سورۃ مریم)
پوری تین راتیں۔
عبد اللہ بن مبارک: تمہارے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نظر نہیں آتی یہ وقت تم نے کیسے گزارا؟
خاتون: ھو یطعمنی ویسقینی
(سورۃ الشعرائ)
یعنی اللہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
عبد اللہ بن مبارک: وضو کیسے کرتی ہو؟
خاتون: فان لم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا
(سورۃ المائدۃ]
اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔
عبد اللہ بن مبارک: میرے پاس کھانا ہے کھاؤ گی؟
خاتون: اتموا الصیام الی اللیل
(سورۃ البقرۃ)
روزہ کو رات تک پورا کرو۔
مطلب یہ کہ میں روزے سے ہوں۔
عبد اللہ بن مبارک: یہ رمضان المبارک کا مہینہ تو نہیں ؟
خاتون: ومن تطوع خیرا فان اللہ شاکرا علیما
(سورۃ البقرۃ)
جو بطور نفل کے نیک کام کرے تو اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے۔ مطلب یہ کہ میرا نفلی روزہ ہے۔
عبد اللہ بن مبارک: سفر کی حالت میں تو فرض روزہ چھوڑ دینے کی بھی اجازت ہے۔
خاتون: وان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون
(سورۃ البقرۃ]
اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے حق میں بہتر ہو اگر تم جانتے ہو۔
عبد اللہ بن مبارک: جس طرح میں تم سے باتیں کر رہا ہوں تم اس طرح مجھ سے کیوں نہیں کرتی؟
خاتون: مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید
(سورۃ ق)
انسان جو بات بھی منہ سے نکالتا ہے اس پر نگہبان فرشتہ متعین ہے۔ مطلب یہ کہ انسان کوہر بات کا جواب دینا پڑے گا۔
عبد اللہ بن مبارک: تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے؟
خاتون: لا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسئولا
(سورۃ بنی اسرائیل)
جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب سے پوچھا جائیگا۔
عبد اللہ بن مبارک: معاف کرنا مجھ سے غلطی ہو گئی۔
خاتون: لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم
(سورۃ یوسف)
آج تم پر کوئی ملامت نہیں اللہ تم کو معاف کرے۔
عبد اللہ بن مبارک: اگر تم چاہو تو میں تمہیں اپنی اونٹنی پر بیٹھا کر لے چلوں ؟
خاتون: وماتفعلوا من خیر یعلمہ اللہ
(سورۃ البقرۃ)
اور نیکی کا کام جو تم کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔
ابن مبارک کہتے ہیں یہ سنتے ہی میں نے اپنی اونٹنی کو ان کے قریب کیا اس کو بٹھایا اور خاتون سے کہا اس پر سوار ہو جاؤ مگر وہ سوار ہو نے سے پہلے بولی۔
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم
(سورۃ نور)
مؤمنوں سے کہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ مطلب یہ کہ تم اپنی آنکھیں بند کر لو یا منہ پھیر لو تاکہ میں بلا جھجک سوار ہو سکوں۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مبارک نے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں اور کہا اب سوار ہو جاؤ جب وہ خاتون سوار ہو نے لگی تو اچانک اونٹنی اٹھ گئی اور اس کی اوڑھنی کجاوے سے الجھ کر پھٹ گئی۔ میں نے اظہار افسوس کیا تو بولی
ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر
(سورۃ الشوریٰ)
تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور اللہ بہت سی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے۔ یعنی اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں یہ تو میرے اعمال کا نتیجہ ہے۔
عبد اللہ بن مبارک: ذرا ٹھہرو میں اونٹنی کے پاؤں باندھ لوں تاکہ تم اطمینان سے سوار ہو سکو
خاتون: ففھمناھا سلیمان
(سورۃ الانبیائ)
پس ہم نے سمجھا دیا سلیمان کو۔ مطلب یہ کہ ضرور باندھو یہ اسی طرح سمجھے گی۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک: پاؤں باندھنے کے بعد اب اس پر سوار ہو جاؤ۔
خاتون: (سوار ہوتے ہی) سبحان الذی سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون۔
(سورۃ الزخرف]
پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارا مطیع کیا اور ہم اس کی صلاحیت نہ رکھتے تھے اور بے شک ہم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں میں نے اونٹنی کی مہارپکڑی اور اس کو ہنکاتے ہو ئے چل پڑا میری رفتار میں تیزی تھی اور جوش میں میری آوازبھی بلند ہو گئی تو خاتون بولیں
واقصد فی مشیک واغضض من صوتک
(سورۃ لقمان]
اپنے چلنے میں اعتدال سے کام لو اور اپنی آواز کو پست کرو۔
عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں اب میں آہستہ آہستہ چلنے لگا اور اشعار پڑھنے لگاتو …
خاتون: فاقرؤوا ما تیسر من القرآن
(سورۃ المزمل]
جتنا آسانی سے ہوسکے قرآن پڑھو۔
عبد اللہ بن مبارک: اللہ تعالی نے تمہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے سب لوگ تمہاری طرح کس طرح بن جائیں ؟
خاتون: وما یذکرالا اولوا الالباب
(سورۃ آل عمران]
یعنی صرف عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
عبد اللہ بن مبارک: کیا تمہارا شوہر ہے؟
خاتون: یا ایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم
[سورۃ المائدۃ]
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تم پر ناگوار گزریں۔
اب تو میں خاموش ہو گیا اور چلتے چلتے قافلے کے قریب جا پہنچا تو میں نے سوال کیا: ’’کیا قافلہ میں آپ کا کوئی رشتہ دار بھی ہے؟ ‘‘
خاتون: المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا
(سورۃ کہف)
مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔
میں سمجھ گیا کہ قافلے میں اس کے بیٹے موجود ہیں تو میں نے کہا:’’ ان کی کوئی نشانی ہو تو بتائو تاکہ میں ان کو تلاش کروں۔ ‘‘
خاتون: وعلامات وبالنجم ھم یھتدون
(سورۃ النحل]
یعنی علامتیں ہیں اور ستاروں ہی سے وہ راستہ پاتے ہیں۔
میں سمجھ گیا کہ اس کے بیٹے قافلے کے رہبر ہیں چنانچہ میں اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے قافلے میں چکر لگانے لگا اور اس سے کہا کہ اپنے بیٹوں کو ڈھونڈلے۔ وہ بولی
٭واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
(سورۃ النسائ)
٭وکلم اللہ موسی تکلیما
(سورۃ النسائ)
٭ یا یحیی خذ الکتاب بقوۃ
(سورۃ مریم]
٭اور بنایا اللہ نے ابراہیم( علیہ السلام )کو دوست٭ اور بات کی موسی(علیہ السلام) سے اچھی طرح٭ اے یحییٰ (علیہ السلام )پکڑ لو کتاب کو مضبوطی سے۔ مطلب یہ کہ تم ابراہیم، موسیٰ اور یحییٰ کے نام لے کر آواز دو۔
یہ سن کر میں نے زور سے آواز دی، یا ابراہیم یا موسیٰ یا یحییٰ فوراً تین خوبصورت نوجوان ایک خیمے سے نکلے اور بڑی عزت و احترام کے ساتھ اپنی والدہ کو اونٹنی سے اتارا۔ جب ہم سب اطمینان سے بیٹھ گئے تو خاتون نے اپنے بیٹوں سے مخاطب ہو کر یہ آیت پڑھی
فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکی طعاما فلیأتکم برزق منہ
(سورۃ لکھف]
آپ اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ تحقیق کرے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے سو اس میں سے تمہارے لئے کچھ کھانا لے آئے۔ یہ سنتے ہی ان میں سے ایک نوجوان دوڑا گیا اور قریبی شہر سے کچھ کھانا خریدلایا۔ وہ کھانا میرے سامنے رکھا گیا تو خاتون نے کہا
کلوا واشربوا ھنیئا بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ
(سورۃ الحاقۃ]
خوشگواری کے ساتھ کھاؤ پیو بسبب ان اعمال کے جو تم نے گذشتہ دنوں میں کئے ہیں۔
عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے نوجوان سے کہا کہ جب تک تم مجھے اس خاتون کی حقیقت نہیں بتلاؤ گے تو میں اس کھانے کو ہاتھ نہیں لگائوں گا۔ نوجوان نے کہا
یہ ہماری والدہ ہیں اور ان کی پچھلے چالیس سال سے یہ کیفیت ہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے کوئی لفظ آیات کلام پاک کے سوا زبان سے نہیں نکالا یہ پابندی انہوں نے اپنے اوپر اس لئے لگائی کہ کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکل جائے جس کی قیامت کے دن باز پرس ہو۔