شرعی پردہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
[قسط دوم]
شرعی پردہ
حضرت قاری محمدطیب رحمہ اللہ
شریعت اسلامی نے پہلا اصول یہ سکھا یا ہے کہ عورت کی ذاتی حیثیت ایک بیش بہا خرانہ کی سی ہے جس کو خائنوں اور بدراہوں کی دسترس سے محفوظ رکھنے کے لیے محجوب اور مخفی رہنے کی ضرورت ہے کہ اسی میں اس کی ذاتی حرمت اور شیطان صفت انسانوں سے بچاؤ کی صورت قائم رہ سکتی ہے۔
عورت کی بنیاد میں ستر وحجاب داخل ہے
ارشاد نبوی ہے:۔
ان المرأۃ عورۃ مستورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان
بلا شبہ عورت اس ایک چھپی ہوئی چیز ہے وہ جب باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتا ہے۔ (کہ اب کسی کو بدنگاہی میں کسی کو بدخیالی میں اور کسی کو بداعمالی میں مبتلا کرونگا۔ ]
ظاہر ہے کہ یہ مخفی حیثیت اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی کہ عورت کا اجنبیوں سے اختلاط قطع کر کے اسے یکسو رہنے کا حکم دیا جائے اس لیے ارشاد نبوی میں اس پہلو کو بھی واشگاف فرما دیا گیا نعم العمل لنساء امتی العزل میری امت کی عورتوں کا بہترین کام یکسوئی (اور مردوں سے) کنارہ کشی ہے۔ پھر یہ یکسوئی مستقل اور پائیدار نہیں رہ سکتی تھی جب تک کہ عورت کی آزادی نقل وحرکت کو محدود نہ کیا جائے اس لئے شریعت نے ان کو اپنے گھروں کی چار دیواری میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا
ارشاد حق ہے:۔
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ
عورتیں اپنے گھروں میں ٹھہری رہیں اور جاہلیت اُولیٰ کی سی آزاد تصریحات میں نہ پڑیں۔
لیکن عورتوں کی عام نقل وحرکت کو گھر کی چاردیواری میں محدود کرنے کے ساتھ ساتھ پابندی نقل وحرکت بھی بیکار ہی رہتی بلکہ ان کی خلوتوں میں میں مردوں کا آزادانہ آنا جلوتوں کی ملاقاتوں سے بھی زیادہ مضر ہوتا اس لئے مردوں پر واجب کیا کہ دوسرے کے گھروں میں بغیر آواز دئیے اور بغیر اجازت لئے داخل نہ ہوں۔ ارشاد حق ہے
حکم استیذان
یا ایھاالذین امنوا لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستأنسوا وتسلموا علی اھلھا
اے ایمان والوں اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔
پھر یہ حکم استیذان صرف نامحرموں کے لیے نہیں بلکہ محرموں کے لئے بھی ہے پس اگر عورتیں گھروں میں ٹھہرا دی گئی تھیں تو مردوں کو بھی ان کے گھروں میں بے محابہ آنے جانے سے روک دیا گیا۔ممکن تھا کہ اس گھر کی چار دیواری کی روک تھام کوعلی اطلاق تمام حالات میں جن میں اجنبی مردوعورت کو کسی جائز لین دین یارد وبدل اور کسی جائز معاشرتی معاملے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ ورنہ درصورتِ معاملہ وطلب وسوال وغیرہ حجاب کو مخل معاملہ سمجھ کر بے حجابی کو جائز اور حکم آیت سے مستثنیٰ سمجھ لیا جاتا اس لئے قرآن کریم نے حکم مذکورکا عموم اطلاق باقی رکھنے اور ان فرضی مستثینات کو قطع کر دینے کے لیے حکم صادر فرمایا کہ ضروری لین دین اور مانگ تاگ بھی حجاب ہی کے واسطے سے کرو۔
گفتگو پس پردہ۔
واذا سالتموھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھرلقلوبکم وقلوبھن
جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ بے ضرورت تو پردے کے پاس بھی مت آؤمثلاً کسی چیز کا سوال کرنا ہے تو پس پردہ ہی مانگ لو نہ یہ کہ جائز معاملات میں آنے کا جواز بے پردگی کے جواز کا موجب ہو جا ئے۔ نیز متاعا اسے بھی بتنوین لا کے ایماء فرمایا گیا ہے کہ عورتوں سے چھوٹی سے چیز بھی مانگوتو پس پردہ مانگو یعنی عمومی لین دین اور کاروبار تو بجائے خود ہے معمولی اور حقیر چیز بھی جوبیشتراثاث البیت سے تعلق رکھتی ہے اگر مانگو تو پردہ قائم رکھ کے مانگو۔
موجودہ تمدن کی بیباکی:۔
یہاں سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو عورت کی چند فرضی اور اختراعی ضرورتوں پر قوی ضروریات کا نام رکھ کر ان کے مختلف شعبوں مثل حق نمائندگی،حق نیابت اور حق خطابت وغیرہ کے لیے آج اس مستور اور محجوب عورت کو بے حجابی اسٹیجوں اور اجماعی پلیٹ فارموں پر دعوت دے رہے ہیں اور خود عورت ہی کی زبان ان اہم سوالات اور طلبوں پر کھلوانا چاہتے ہیں۔ کہا ں وہ قرآنی اختفاء وحجاب اور کہاں یہ پلیٹ فارمی پیشی اورنمائش؟ کہاں عورت سے معمولی متاع خانہ داری کی معمولی مانگ بھی پس پردہ تجویز ہوئی اور خود عورت کا یہ معاملہ اور قومی حقوق کی طلب میں پلیٹ فارموں پر بے حجاب مارے مارے پھرنا۔
ببیں تفاوت راہ ازکجااست تابہ کجا
عورت کے لیے نہ ایسے پلیٹ فارم ہی شرعی ہو سکتے ہیں جن میں منشاء قرآنی کا معارضہ ہو اور نہ ایسی طلب ہی اس کی زبان سے شرعی کہلائی جاسکتی ہے جومقاصد قرآن کے لیے انجام کار مخرب ہے۔
اللہ تعالی حقیقی سمجھ عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین