خودپسندی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
خودپسندی
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ
خود پسندی کی مزمت:۔
حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : کہ نفس کو پاک صاف اور اچھا نہ سمجھا کرو، یہ کافروں کی شان ہے کہ اپنے اعمال اور اپنے آپ کو اچھا سمجھیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ خود پسندی تباہ کردیتی ہے کیونکہ آدمی جب اپنے آپ کو نیکو کار سمجھنے لگتا ہے تو مطمئن ہوجاتاہے اور سعادت اخروی سے محروم ہوجاتاہے۔
حضرت بشر بن منصور نے ایک مرتبہ نماز پڑھی اور دیر تک پڑھی اتفاق سے ایک شخص ان کو دیکھ رہا تھا۔ چونکہ خود پسندی کے احتمال کا موقع تھا اس لیے نماز سے فارغ ہوکر فرمانے لگے کہ میاں میری اس حالت سے دھوکہ نہ کھائیو، شیطان نے چار ہزار برس للہ کی عبادت کی مگر انجام اس کا جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔
غرض مسلمان کی شان نہیں ہے کہ اپنی عبادت کو عبادت اور اپنی طاعت کو طاعت سمجھے کیونکہ اول تو قبولیت کاعلم نہیں ہے۔ جس سے معلوم ہوکہ عبادت واقع میں عبادت ہوئی یا یوں ہی بیکار گئی۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ اعتبار خاتم کا ہے اور خاتم کا حال کوئی نہیں جانتا کہ کس حال پر ہوناہے۔
ناز اور خودپسندی اور تکبر کافرق:۔
خود پسندی بھی تکبر کی ایک شاخ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تکبر میں دوسرے لوگوں سے اپنی نفس کو بڑا سمجھا جاتاہے اور خود پسندی دوسرے لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے نفس کو اپنے خیال میں کامل سمجھ لینا اور حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا حق خیال کرنا۔ یعنی ان کو اللہ کا فضل وکرم نہ سمجھنا اور ان کے زوال سے بے خوف ہوجاناخود پسندی اور عجب کہلاتاہے۔
ناز کی علامت:۔
اگر یہاں تک نوبت پہنچ جائے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک اپنے آپ کو ذی مرتبہ اور باوقعت سمجھنے لگے تو یہ ناز کہلاتاہے اور اس کااثر یہ ہوتاہے کہ اپنی دعا کے قبول نہ ہونے سے تعجب اور اپنے موذی دشمن کو سزا وعذاب نہ ملنے پر حیرت ہوتی ہے۔ کہ ہم جیسوں کی دعا قبول نہ ہو اور ہمارے دشمن پامال نہ ہوں۔
تنبیہ:۔
یاد رکھو! کہ اپنی عبادت پر نازاں ہونا اور اپنے آپ کو مقبول خدا اور کسی قابل سمجھنا بڑی حماقت ہے۔ البتہ اگر اللہ کی نعمت پر خوش ہواوراس کے چھن جانے کا بھی خوف دل میں رکھو اور اتنا ہی سمجھو کہ یہ نعمت حق تعالیٰ نے فلاں علم کے سبب مجھ کو مرحمت فرمادی اور وہ مالک ومختار ہے۔ جس وقت چاہے لے لے تو خود پسندی نہیں ہے۔ کیونکہ خود پسند شخص نعمت کا منعم حقیقی کی جانب منسوب کرنا بھول جاتاہے۔ اور جملہ نعمتوں کو اپنا حق سمجھنے لگتاہے۔
غیراختیاری خوبی پر ناز ہونے کا علاج:۔
خود پسندی بڑی جہالت ہے۔ لہذاس کا علاج کرنا چاہے پس اگر غیر اختیار خوبیوں مثلا قوت، وزور حسن وجمال پر عجب ہو، تب تو یوں سوچو کہ ان چیزوں کے حاصل ہونے میں میرا دخل ہی کیا ہے۔ کہ ناز کروں حق تعالیٰ کا محض فضل واحسان ہے کہ اس نے بلا استحقاق یہ خوبیاں مجھ کو عطا فرمادیں۔ علاوہ ازین ظاہر ہے کہ یہ سب خوبیاں معرض زوال میں ہیں۔ کہ ذراسی بیماری اور ضعف لاحق ہواتو سب جاتی رہیں گی۔ پس دوسرے کے ناپائیدارعطیہ پر عجب کیسا؟اوراگر علم وعمل یا زہدوتقویٰ اور عبادت وریاضت یعنی اختیاری افعال پر ناز ہو تو اس میں غور کرو کہ یہ کمالات اور محاسن کیونکر حاصل ہوئے۔؟اگر حق تعالیٰ ذہن رسا اور طاقت وہمت دماغ بینائی، ہاتھ، پائوں ، قصدواردہ مرحمت نہ فرماتاتوکوئی کمال کیونکر حاصل ہوتا۔ اس کا حکم تھا کہ کوئی مانع پیش نہیں آیا ورنہ میں مجبور تھا کہ خود کچھ بھی نہ کرسکتاتھا۔
یہ ضرور مسلم ہے کہ انسان کواختیار وارادہ دیاگیا ہے۔ جس سے وہ اچھے یا برے کام کرتاہے مگر اختیار وارادہ کی عطا بھی تو سی خدا کی یہ اور پھر تمام اسباب کا مہیا کر دینا اور کامیابی دینا غرض ابتداء سے لے کر انتہاء تک سب کچھ خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ پس ایسی حالت میں اور وہ خزانہ کھول کر تمہارے سپرد کردے اور تم اس میں سے جواہرات اپنی خواہش کے مطابق اپنی گود یں بھر لو اور پھر ناز کرنے لگو کہ میں اتنا روپیہ حاصل کیاتوظاہر بات یہ کہ احمق سمجھے جائو گے۔ کیونکہ اگرچہ جوہرات کے سمیٹنے والے تم تھے مگر خزانہ تو شاہی تھا اور کنجی توبادشاہ ہی لے ہاتھ میں تھی۔ اسی نے تم پر احسان کیااسی نے کنجی عطافرمائی اور اسی کی اجازت سے تم خزانہ کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے۔ پھر اتنی بے اختیاری پرتم کو اپنے مفعل پر ناز اور خود پسندی کیونکر درست ہوسکتی ہے۔
عبادات وغیرہ اختیاری خوبیوں پر نازاں ہونے کا علاج:۔
تعجب تو اس بات پر آتاہے کہ عاقل وسمجھدار اور پڑھے لکھے ہوشیار لوگ اس موقع پر جاہل بن جاتے ہیں اور اپنی عقل وعلم پر ناز کرنے لگتے ہیں۔ کہ اگر کسی جاہل وبے وقوف کو تونگر پاتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔؟ ہم تو عالم و عاقل ہوکر مال سے محروم رہیں اور یہ جاہل ونادان ہوکر مالدار ومتمول بن جائے۔؟ بھال کوئی پوچھے علم وعقل تم کو نصیب ہوااور جاہل اس سے محروم رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟کیاایک نعمت کو دوسری نعمت کا سبب سمجھ کر اس پر استحقاق جتاتے ہو؟اگر علم اور مال دونوں چیزیں تم ہی کو دیدی جاتیں اور جاہل فقیروں سے محروم کردیا جاتاتو یہ بات درحقیقت زیادہ تعجب کی تھی کہ مخلوق میں ایک کوتو سب کچھ مل گیا اور دوسرے کو کچھ بھی نہ ملا۔ بھلا کوئی باداشاہ تم کو گھوڑا مرحمت فرمادے اور دوسرے شخص کو غلام دیوے تو کیایوں کہنے کی تم کو ہمت ہے کہ واہ صاحب اس کو غلام کیوں دیا گیا اس کے پاس گھوڑا تو ہے ہی نہیں اور میں چو نکہ گھوڑارکھتاہوں لہذا غلام بھی مجھے ہی کو ملنا چاہیے تھا۔ ایسا خیال کرنا بڑی بیوقوفی اور جہالت کی بات ہے۔ عقل مندی کی بات یہی ہے کہ عطائے خداوندی پر شکر ادا کرو اور سمجھ لو کہ حق تعالیٰ کا کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ابتداء بلا استحقاق مجھ پر کرم فرمایا۔ اور عقل وعلم جیسی نعمت بخشی جس کے مقابلہ پرمال کی کوئی حقیقت ہی نہیں اور پھر شکر گزاری وعبادت کی توفیق مرحمت فرمائی اور دوسرے کو اس سے محروم رکھا حالانکہ یہ محرومی بھی کسی جرم سابق کی سزا یا قصور کا بدلہ نہیں ہے۔
پس جب ایسا خیال کرو گے تو خوف الہی پیدا ہوگا اور سمجھو گے کہ جس نے بلا استقاق انعام فرمایا وہ اگر بلا قصور اس نعمت کو چھین بھی لے تو کوئی چون وچرانہیں کرسکتا اور کیا خبر ہے کہ یہ نعمت مگر اور استدراج ہو اور وبال جان اور عذاب کا سبب بن جائے۔ کیونکہ حق تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوگئے اور پھولے نہ سمائے تو یکایک ان کو پکڑ لیا۔
جب یہ خیالات ذہن نشین ہوں گے تو خشیت اور خوف تم سے کسی وقت بھی دور نہ ہوگا، اور کسی نعمت پر نازاں اور خوش نہ ہوئوگے پس عجب سے باآسانی نجات مل جائے گی۔