دس حماقتیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دس حماقتیں
پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
بزرگوں نے کتابوں میں لکھا ہے کہ دس حماقتیں ہیں بندے کو ان سے بچنا چاہیے۔ یہ دس باتیں بے وقوفی کی نشانیاں ہیں ان بے وقوفیوں سے بچنا چاہیے اگر گھر اچھا اور آباد کرنا ہے۔
(1) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک بندہ نیکی تو نہ کرے مگر جنت کی امید رکھے۔ توجہ فرمائیے کیا فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نیکی تو کرے نہیں اور جنت کی امید رکھے یہ بے وقوفی کی علامت ہے۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ ایک آدمی خود بے وفاہو اور دوسروں سے وفاکی امید رکھے۔ فرماتے ہیں یہ بے وقوفی کی نشانی ہے۔
(3) تیسری بات یہ ہے ایک آدمی کی طبعیت میں سستی ہو اور وہ چاہے کہ میری خواہشیں پوری ہو جائیں۔ فرماتے ہیں یہ بے وقوفی کی علامت ہے سست آدمی کی خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے فرماتے تھے کہ بندے کی طبعیت میں سستی ہو اور دل میں امید رکھے کہ میری خواہشات اور میرےobjectiveپورے ہو جائیں گئے یہ بے وقوفی کی علامت ہے۔
(4) چوتھی بات یہ فرمایا کرتے تھے کہ آدمی اپنے بڑوں کی نافرمانی کرے اور امید رکھے کہ چھوٹے میری فرمانبرداری کریں گے۔ فرماتے تھے کہ یہ بے وقوفوں کی علا مت ہے، ایساکیسے ہو سکتا ہے جب ہم نے اپنے بڑوں کی فرمانبرداری نہ کی توجھوٹے ہماری فرمانبرداری کیسے کریں گے؟
(5) پھر پانچویں بات فرمایا کرتے تھے کہ بیماری کے اندر بد پرہیزی کرے اور پھر شفا کی امید رکھے یہ بے وقوفوں کی علامت ہے۔ شوگر کے مریض ہیں میٹھا کھانے سے بچتے نہیں ، پھر کہتے ہیں کہ جی Complications(پیچیدگیاں )بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہ تو ہوں گی۔اس لیے بد پرہیزیاں نہیں کرنی چاہییں۔ توآدمی بیماری میں بد پرہیزی کرے اور شفا کی امید رکھے فرماتے تھے کہ یہ بے وقوفی کی علامت ہے۔
(6) چھٹی بات فرماتے تھے کہ جو آدمی اپنی آمدن سے زیا دہ خرچ کرے اور خوشحالی کی امید رکھے یہ بے وقوفی کی علامت ہے۔ اور کئی مرتبہ عورتیں ایسی غلطی کر گزرتی ہیں جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلانے چاہییں۔ اگر خاوند کی ایک حد تک آمدنی ہے تو پھر اپنے خرچے کو بھی اتنا رکھیں اگر خرچہ زیا دہ کر لیں گی تو پھر جھگڑے ہو ں گے۔
(7) ساتویں بات فرماتے ہیں کہ مشکل وقت میں بندہ لوگوں کی مددنہ کرے اورامید رکھے میرے مشکل وقت میں لوگ میری مدد کریں گے یہ بھی بے وقوفوں کی علامت ہے۔
(8) آٹھویں بات یہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی دوسرے کو راز بتا کر یہ کہ دینا کہ آگے نہ بتانا۔ آگے ناں بتانے کی امید رکھنا یہ بے وقوفوں کی علامت ہے اور عام طور پر یہ بات زیادہ دیکھی گئی کہ عورتیں ایسی باتیں جو دوسروں کو نہیں بتانا چاہتیں وہ کسی کو بتاتی ہیں اور پھر اس کو کہتی ہیں کہ اچھا میں نے تو تمہیں بتا دیا آگے کسی کو نہ بتا نا۔وہ کہتی ہے بہت اچھا، پھر وہ آگے کسی کو بتا تی ہے اور کہتی ہے میں نے تو تمہیں بتا دیا آگے کسی کو نہ بتا نا۔ آگے نہ بتانے کی امید پر یہ راز اوپن سیکرٹ (کھلا ہوا راز) بن جاتا ہے Top of the town بنا ہوا ہوتا ہے اور عورتیں اس عادت میں اکثر ملوث دیکھی گئیں۔ دل میں بات رکھ نہیں سکتیں ، ذرا سی بات پھر اپنا سب کچھ بتا دیں گی۔جو پیٹ میں لیے پھریں گی وہ بھی بتا دیں گی۔لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ راز راز ہو تا ہے ’’المجالس بالامانۃ‘‘ مجالس کے اند جو باتیں ہوتی ہیں وہ امانت ہو تی ہیں اگر دوسرے بندے نے اس کو پسند نہیں کیا تو یہ باتیں دوسروں کے سامنے نہیں کرنی چاہییں ، مگر وہ باتیں جو شریعت کی حدود کے اندر ہو ں باہر کی بات کبھی سوچے بھی نہیں۔ لہذا ایک بندہ دوسرے کو راز بتا دے اور امید رکھے کہ یہ آگے راز نہیں بتائے گا یہ بے وقوفی کی علامت ہے۔
(9) نویں بات فرمایا کرتے تھے کہ دو چار دفعہ گناہ کرکے پھر اسے چھوڑنے کی امید رکھنا بے وقوفوں کی علامت ہے۔ اور نوجوان ایسا ہی کرتے ہیں دل کہتا ہے اچھا یہ گناہ ایک دفعہ کر لیتا ہوں پھر چھوڑدوں گا، تو جب یہ امید بن گئی کہ ایک دو دفعہ گناہ کر کے چھوڑ دیں گے یہ بہت وقوفی کی علامت ہے۔ گناہ جب کر لیا جائے تو عادت پڑجاتی ہے پھر انسان گناہ سے بچ نہیں سکتا اس لیے دو چار دفعہ بھی نہیں کرنا چاہیے تو یہ نو باتیں بے وقوفی کی علامت ہیں۔
(10) آپ سوچ سکتے ہیں کہ دسویں بات جس کو ہمارے بزرگوں نے بے وقوفی کی علامت بتایا وہ کیا ہو سکتی ہے؟ ذرا اپنے ذہن میں سوچیں تو سہی… مگر بتا دیتا ہوں۔ ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ جو خاوند بیوی سے روزانہ جھگڑا کرے اور پھر سکون سے رہنے کی امید رکھے، فرماتے تھے یہ بے وقوفی کی علامت ہوتی ہے۔
روز کے لڑائی جھگڑے سے بچیں :۔
صرف دسویں بات کے لیے نو باتیں آپ کو بتانا پڑیں ، اللہ کرے کہ دسویں بات خانے میں بیٹھ جائے۔ لہذا جو خاوند روز گھر کے اندر بیوی سے لڑتا ہے ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے پھر وہی امید رکھے کہ میرے گھر کے اندر خوشیوں بھری زندگی ہو گی یہ بے وقوفی کی علامت ہے، کبھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھیں کہ بیوی کوئی بکری نہیں ہوتی کہ جو جنگل سے آئی اور ہم نے پکڑ کے اس کے گلے میں رسی ڈال دی وہ کسی کی بیٹی ہو تی ہے اس کی ماں نے اسے آزاد جنا تھا ہم نے خود جا کے اس کو مانگا، اس کو عزتوں سے گھر لا کے بیٹھا یا، اس کی ایک عزت نفس ہے اس کے حقوق ہیں لہذا اس کے حقوق کو پورا کرنا چاہیے۔ جب کلمہ پڑھا تو پوری شریعت پر عمل کرنا انسان کو لازم ہو گیا اس طرح نکاح میں جب ’’قبلت ‘‘(میں نے قبول کیا)کا لفظ بولا تو بیوی کی سب ذمہ داریاں مرد کے سر پر آپڑیں ان کو نبھانا چاہیے اور مرد بن کر نبھا نا چاہیے۔
بنیادی مقصد یہ ہے کہ خاوند گھروں کے اندر محبت اور پیار بھری زندگی گزاریں تاکہ گھروں کے اندر الفتیں اور محبتیں ہوں ،بچوں کی تربیت اچھی ہو، میاں بیوی خوشیوں بھری زندگی گزاریں۔ یہ گھر جنت کے گھر کا نمونہ سا بن جائے گا، چھوٹا سا گلشن بن جائے گا، پھول ہی پھول ہوں۔ جب میاں بیوی پر سکوں ہونگے تبھی تو اولاد کی تربیت کر سکیں گے اگر آپس کے جھگڑوں سے فرصت نہیں تو اولاد کی تربیت کون کرے گا؟