ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

[قسط 15]

ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم، لیہ
حسن یعقوب دل ہی دل میں اپنے مستقبل کے تانے بانے بنتا ہوا آخشی کے قلعہ کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھاجہاں شہزادہ جہانگیر مرزا اس کی آمد کا منتظر تھا۔ حسن یعقوب یہ کوشش کر رہاتھا کہ وہ جلد از جلد آخشی کے قلعہ تک پہنچ جائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ آخشی کے قلعے تک پہنچنے سے پہلے شہزادے جہانگیر مرزاکی بجائے موت اس کا استقبا ل کرے گی۔
قاسم بیگ کو یہ اطلاع مل چکی تھی حسن یعقوب اپنے لاؤ لشکر سمیت سمرقند کی بجائے آخشی کی طرف رواں دواں ہے چنانچہ وہ اسے آخشی تک پہنچنے سے قبل ہی دبو چنا چاہتا تھا۔ اند جان سے تازہ فوجی کمک بھی مل گئی تھی اس لیے وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر حسن یعقوب کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔آہستہ آہستہ قاسم بیگ اور حسن یعقوب کے درمیان فاصلہ کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ شام ڈھلے دونوں دشمنوں نے آرام کرنے کی غرض سے آمنے سامنے پڑاؤڈال دئیے۔ چالاک حسن یعقوب نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر قاسم بیگ پر شب خون مارے کا پروگرام بنا لیا۔ قاسم بیگ اور حسن یعقوب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے اس لیے وہ ایک دوسرے کی چالاکیوں کو خوب سمجھتے تھے۔ قاسم بیگ جانتا تھا کہ حسن یعقوب نچلا بیٹھنے والا نہیں بلکہ وہ ہر طور شب خون مارنے کی حماقت کرے گا اس لئے اس نے پیش بندی کے طور پر پہرے دور کو چوکنا رہنے کی تلقین کر دی۔
قاسم بیگ کی سوچ کے عین مطابق رات کے پچھلے پہر جب کی رات کی تاریکی اور بھی گہری ہو گئی تھی، حسن یعقوب نے شب خون مار ہی دیا۔ مگر قاسم بیگ بھی بے خبر نہیں تھا، گھمسان کا رن پڑا۔ اندھیرے کی وجہ سے دوست دشمن کی تمیز ختم ہو گئی۔ ہر سو تلواروں کی جھنجناہٹ اور تیروں اور نیزوں کی سنسناہٹ سنائی دینے لگی۔اگرچہ قاسم بیگ اور حسن یعقوب ایک دوسرے کے قریب پہنچ چکے تھے مگر تاریکی کے باعث ایک دوسرے کو پہچان نہیں پا رہے تھے۔ حسن یعقوب کے ایک ساتھی نے قاسم بیگ کو دیکھ لیا اورنشانہ باندھ کر تیر چھوڑ دیا لیکن نشانہ خطا ہو ا اورتیر قاسم بیگ کا سینہ چیرنے کے بجائے حسن یعقوب کی پیٹھ میں پیوست ہو گیا۔ حسن یعقوب کے ساتھی نے دیکھا کہ اس کا شکار گھوڑے سے گر چکا ہے وہ آگے بڑھا اوندھے منہ گرے ہوئے حسن یعقوب کا سر تلوار کے ایک ہی وار سے اس کے تن سے جدا کر دیا۔شکاری کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے حسن یعقوب کے دشمن قاسم بیگ کا خاتمہ کر دیا تھا۔
مگر…… بالوں سے مقتول کا سرپکڑ کر جب سیدھا کیا تو وہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کہ اس نے تو اپنے والی نعمت کو قتل کر دیا تھا جب کہ قاسم بیگ ابھی تک زندہ سلامت موجود تھا۔ یہ حسن یعقوب کی بد قسمتی تھی کہ اس کو اس کے وفادار ساتھی ہی نے مار ڈالا تھا۔ بدقسمت آقا کا قاتل اس کی لاش کے سامنے دوزانوں ہو کر محو گریا ہو گیا مگر یہ آنسو اس کے مقتول آقا کو زندہ نہ کر سکے۔
ابھی پو پھٹنے بھی نہ پائی تھی کہ حسن یعقوب کے مقدر کا ستارہ غروب ہو گیا۔ قاسم بیگ نے جنگ جیت لی تھی۔ دشمن کے کچھ آدمی تو جنگ میں کھپ گئے اور جو باقی بچے وہ قیدی بنا لیے گئے۔ اس طرح ایک غدار وطن اپنے انجام کو پہنچ گیا یا یوں کہیں قسمت کے دھنی بابر کی آستین کا ایک زہریلا سانپ اپنی زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔
بابر،حسن یعقوب کے اند جان سے فرار، قاسم بیگ کے تعاقب اور پھر حسن یعقوب کی موت سے متعلق ابھی تک لا علم تھا کیونکہ یہ سارا کھیل تو بابر کی نانی اماں دولت بیگم کا رچایا ہوا تھا۔ حسن یعقوب کے راہی ملک عدم ہو نے کی خبر پا کر دولت بیگم بہت مسرور تھی کیونکہ ایک عمر سے پھانس کی طرح اس کے دل میں کھٹکنے والا فتنہ پرور حسن یعقوب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ اس کی دلی مراد بر آئی تھی بالفاظ دیگر اس نے بابر کے راستے کا وہ کانٹا جو انجانے میں اسے زخمی کئے جا رہا تھا نکال باہر کیا تھا۔ اب وقت آگیا تھاکہ وہ بابر کو تمام حالات سے آگاہ کر دیتی۔ وہ بابر کے پاس جا پہنچی اور شفقت بھرے انداز میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی میرے ننھے سلطان …… ( جاری ہے]