وہ گھڑی کچھ اورتھی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وہ گھڑی کچھ اورتھی
اہلیہ مفتی شبیر احمد
” آج پھر دیر کر رہے ہو ؟“ وہ انتہا ئی غصے میں بو لیں اور زور سے ایک تھپڑ دے مارا ”آ ئے دن پریشان کرتے ہو۔“ وہ بے تکا ن بولے جا رہی تھیں اور رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھیں۔
”امی! آپ منے کو اتنا کیو ں مار رہی ہیں؟ “رضیہ نے افسردہ لہجہ میں آواز دی۔ لیکن وہ تو بس سنی کو ان سنی کر رہی تھیں۔ ”روزانہ تمہارے نخرے اٹھا نے پڑ تے ہیں ،کبھی ہنسی خو شی بھی گئے ہوسکول؟“
آج پھر ننھے نعما ن کو مسز شوکت ما ر پیٹ کے سکول بھیج رہی تھیں۔ رو دھو کر سکول جا نا اس کا معمول بن چکا تھا ،لیکن نہ جا نے کیو ں آج مسز شو کت اسے حد سے زیا دہ ما ر پیٹ کا نشا نہ بنا رہی تھیں ، روزانہ کی ملا مت تو جوہو ئی سو ہو ئی لیکن آج اسے یہ تک کہہ ڈا لا کہ
” خدا کر ے تےرا ستیا ناس ہو“
شا ید یہ گھڑی کچھ اورتھی۔
ننھا نعمان بیگ اٹھا ئے آنسووں سے بھیگے چہرے کے ساتھ سکول جا رہا تھا۔ کلاس رو م میں پہنچ کر بھی اس پر رو نے کے آثا ر باقی تھے۔ تمام پیریڈز میں اس نے نہ کسی سے با ت کی، نہ ہی ہنسا۔ گم سم بےٹھا اپنی قسمت پہ کڑھتا ہی رہا کہ”کا ش! میں پیدا ہی نہ ہو تا، میری امی مجھے روزانہ ما رپیٹ کر سکول بھیجتی ہے۔ دوسرے بچو ں کو ان کے امی ابو چھوڑنے آ تے ہیں اور میں تنِ تنہا آ تا ہو ں اور وہ بھی ........“
احساس کمتری اور محرو می کے یہ جذبات اس کے دل میں تیزی سے بڑ ھتے ہی جا رہے تھے اور ایسے لگ رہا تھا کہ شاید اب وہ اپنی زند گی سے ما یوس ہو چکا ہے۔ جو ں ہی چھٹی کی گھنٹی بجی با قی سب بچے شور مچا تے، اٹکھیلیاں کرتے، دوڑتے بھا گتے گیٹ کی طرف جا رہے تھے مگر اس نے نہ کسی خوشی کا اظہا ر کیا اور نہ ہی اس کے چہرے پہ سکو ن ومسرت کی لہر دوڑی اپنی بد نصیبی پر آ ہیں بھرتا بو جھل قدمو ں کے ساتھ گیٹ سے با ہر نکلا اور گم سم انہی خیالا ت میں مگن بیگ تھا مے سڑک کے کنارے چلتا رہا۔
ادھر مسز شوکت گھر کی صفا ئی میں مشغول تھیں۔ کچن کی صفا ئی ،ڈرائنگ رو م کی سیٹنگ اور لنچ کے لیے مختلف ڈشیں تیا رکر تے کرتے ان کی ظہر کی نماز بھی قضا ءہو گئی لیکن وہ برابر اپنے کام میں مصروف رہیں۔
آج انہیں ننھے نعمان کا رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کہ صبح تو میں نے اس پر حد سے زیا دہ ہی ہا تھ اٹھالیا تھا۔ اچا نک وال کلاک نے دو بجنے کی اطلاع دی تو انہوں نے سو چا:” رو زانہ تو میرا ننھا اس وقت سکول ڈریس چینج کر کے کھانا کھا چکا ہو تا ہے لیکن آج تو .... “
”میرے نعمان کو پتہ نہیں کیا ہوا ؟ آج تو وہ بہت دیر کر رہا ہے۔ کہیں میرے لخت جگر کے ساتھ کو ئی نا خوش گوار واقعہ تو پیش نہیں آیا ؟“ اس تصور کے ساتھ ہی ان کے جسم میں خو ف کی سرد لہر دوڑ گئی۔
”رضیہ ! بیٹا ابو کو فو ن کر نا کہ آفس سے واپسی پر نعما ن کو لیتے آئیں۔ “ وقت نہایت تیزی سے گز ر رہا تھا لیکن نعمان ابھی تک آ نے کا نا م ہی نہ لے رہا تھا۔ اب تو مسز شوکت پر عجیب سی کیفیت طا ری ہو گئی۔ انہیں کھڑے سکو ن تھا نہ بیٹھے ، نگا ہ کبھی گھڑی پر ہوتی تو کبھی دروازے پر۔
”اللہ ! میرے نعمان کو اپنی امان میں رکھنا۔ آئندہ میں اس پہ کبھی ہا تھ نہ اٹھا ئوں گی۔ نہ جا نے کیو ں میرے جگر کا ٹکڑا دیر کرر ہا ہے؟“ ہر گذرتے لمحہ اس کی بے قرار ی میں اضا فہ ہو رہا تھا
”امی ! ابو کا فو ن ہے، نعمان سکو ل میں بھی نہیں ہے “۔رضیہ گھبرا ئی ہو ئی آوازسے بو لی۔ بےساختہ ان کی زبان سے نکلا:
”اے خدا یا ! میری آ نکھو ں کی ٹھنڈ ک کو۔۔۔۔ “
اب تو واقعی وہ افسردہ ہو گئیں اور اپنے ننھے کو حد سے زیا دہ ڈا نٹنے پر اپنے آپ کو ملامت کر نےلگیں۔ دفعتاً وال کلاک نے گرج دار آواز میں پا نچ بجنے کی خبر دی۔ تین گھنٹے اوپر ہو چکے تھے ، لیکن نعمان کا ابھی تک کو ئی پتا نہیں تھا۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہو ئی۔ مسٹر شو کت نہا یت تیزی سے اندر دا خل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں کو ئی چیز تھی، جو سفید کپڑو ں میں ملبوس تھی۔ آکر بیڈ پر رکھ دی اور مسز شوکت کے کند ھے پر ہا تھ رکھتے ہو ئے دھیمے لہجے میں بو لے:
” اپنے چا ند کو دیکھ لو“
مسز شوکت پر جیسے بجلی گر گئی ہو۔ فورا ً اسے ٹٹولا تو اسے ایک چمکتا دمکتا ، ہنستا مسکراتا ، معصو م سا چہرہ نظر آ یا۔ یہ نعمان کی لا ش تھی ....