شہید راہ وفا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شہید راہ وفا
ابوالکلام آزاد
دشمن جب محلہ چھوڑدےیاشہرسےنکل جائےتوسکون مل جائےلیکن مسلمانوں نے جب شہر چھوڑا اورتمام جائیدادیں کفارکےحوالےکرکےمکہ سے300 میل دورمدینہ میں جا آباد ہوئے تو کفار پہلے سےبھی زیادہ بےقرارہوگئے۔
اصل واقعہ یہ ہےکہ ہجرت مدینہ سےانہیں یقین ہوگیاتھاکہ مسلمان الگ رہ کرتیاری کریں گے۔اہل عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت کوقبول کر لیں گا اورجب یہ قطرہ دریابن گیاتوہماری سرداری کاجاہ وجلال،اسلام کے سیلاب حق کے سامنے خس وخاشاک کی طرح بہہ جائےگا۔
مدینہ پہنچ کرمسلمانوں کوپہل کرنےکی ضرورت پیش نہیں آئی۔قریش مکہ نےاپنی دماغی پریشانیوں کےماتحت خودہی آبیل مجھےمار کی روش اختیارکرلی تھی جب بدر اور احد کے میدانوں میں ان کےتیغ آزماؤں کازعم باطل بھی ختم ہوگیاتووہ سازش کےجال بھی بچھانے لگے۔ انہوں نےعضل اورفارہ کےساتھ آدمیوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےپاس بھیجا اور کہلوایا: "اگرآپ ہمیں چند مبلغ عنایت فرمادیں توہمارےتمام قبیلے مسلمان ہوجائیں گے۔"
حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عاصم رضی اللہ تعالی عنہ بن ثابت کی ماتحتی میں کل دس بزرگ صحابہ رضوان اللہ علیہم کووفدان کے ساتھ بھیج دیا۔ ایک گھاٹی میں کفار کےدوسومسلح جوان مسلمانوں کےاس تبلیغی وفدکاانتظارکررہےتھےجب مبلغین اسلام یہاں پہنچےتوبےنیام تلواروں نےبجلی بن کران کااستقبال کیا۔مسلمان اگرچہ اشاعت قرآن کےلئےگھروں سےنکلے تھےمگرتلوارسےخالی نہ تھے۔اس خطرہ کےساتھ ہی دوسو کے مقابلے میں دس تلواریں نیاموں سےباہرنکل آئیں اورمقابلہ شروع ہوگیا۔آٹھ صحابی مردانہ وار مقابلہ کرتےہوئےشہیدہوئے اورخبیب رضی اللہ تعالی عنہ اورزیدبن رضی اللہ تعالی عنہ دو شیروں کوکفارنےمحاصرہ کرکےگرفتارکرلیا۔سفیان ہزلی انہیں مکہ لےگیااوریہ دونوں صالح مسلمان نقدقیمت پرمکہ کےدرندوں کےہاتھ فروخت کر دیے گئے۔
حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت زیدرضی اللہ تعالی عنہ کوحارث بن عامر کے گھر ٹھہرایا اورپہلاحکم یہ دیاگیاکہ انہیں روٹی دی جائےاورنہ پانی۔حارث بن عامر نےحکم کی تعمیل کی اورکھانابندکردیاگیا۔ایک دن حارث کانوعمربچہ چھری سےکھیلتا ہوا حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کےپاس پہنچ گیا۔اس مردصالح نےجوکئی روزسے بھوکا اور پیاساتھا۔حار ث کےبچہ کوگودمیں بٹھالیااورچھری اس کے ہاتھ سےپکڑکرزمین پررکھ دی جب ماں نےپلٹ کردیکھاتوحضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ چھری اور بچہ لئے بیٹھے تھے۔عورت چونکہ مسلمانوں کےکردارسےناواقف تھی۔یہ حال دیکھ کر لڑکھڑا گئی اور بےتابانہ چیخنےلگی۔حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نےعورت کی تکلیف محسوس کی تو فرمایا بی بی!تم مطمئن رہو،میں بچےکوذبح نہیں کروں گا۔ مسلمان ظلم نہیں کیاکرتے۔ان الفاظ کےساتھ ہی خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نےگودکھول دی۔معصوم بچہ اٹھااوردوڑکرماں سےلپٹ گیا۔
قریش نےچندروزانتظارکیاجب فاقہ کشی کےاحکام اپنےمقصدمیں کامیاب نہ ہو سکے تو قتل کی تاریخ کااعلان کردیاگیا،کھلےمیدان میں ایک ستون نصب تھااوریہ اپنی بےبسی پر رو رہا تھا ، اس کے چاروں طرف بےشمارآدمی ہتھیار سنبھالے کھڑے تھے۔ بعض تلواریں چمکا رہے تھے،بعض نیزےتان رہے تھے،بعض کمان میں تیرجوڑکرنشانہ ٹھیک کررہےتھےکہ آواز آئی: "خبیب آرہاہے۔"مجمع میں ایک شورمحشربپاہوگیا۔لوگ ادھرادھردوڑنےلگے۔بعض لوگوں نے مستعدی سے ہتھیار سنبھالے اورحملہ کرنے اورخون بہانے کے لئے تیار ہو گئے۔ مردصالح خبیب رضی اللہ تعالی عنہ قدم بہ قدم تشریف لائےاورانہیں صلیب کےنیچے کھڑا کر دیا گیا۔ایک شخص نےانہیں مخاطب کیا اور کہا:"خبیب رضی اللہ تعالی عنہ ! ہم تمہاری مصیبت سے درد مند ہیں اگراب بھی اسلام چھوڑدوتوتمہاری جاں بخشی ہوسکتی ہے۔"
حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ خطاب کرنےوالےکی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:
"جب اسلام ہی باقی نہ رہاتوپھرجان بچانابیکارہے۔"اس جواب کی ثابت قدمی بجلی کی طرح پرشوربھیڑپرگری۔مجمع ساکت ہوگیااورلوگ دم بخودرہ گئے۔
"خبیب!کوئی آخری آرزوہےتوبیان کرو۔"ایک شخص نےکہا۔
کوئی آرزونہیں،بس دورکعت نماز اداکرلوں گا۔"حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نےفرمایا۔
"بہت اچھا،فارغ ہوجاؤ۔"ہجوم سےآوازیں آئیں۔
پھانسی گڑی ہوئی ہے،حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ اس کےنیچےکھڑےہیں تاکہ اللہ کی بندگی کا حق اداکریں۔خلوص ونیازکااصرارہےکہ زبان شاکرجوحمدحق میں کھل چکی ہے،اب کبھی بند نہ ہو۔دست نیازجوبارگاہ کبریامیں بندھ چکےہیں،اب کبھی نہ کھلیں۔ رکوع میں جھکی کمر کبھی سیدھی نہ ہو، سجدےمیں گراہواسرکبھی خاک نیاز سےنہ اٹھے۔ ہر بن موسےاس قدر آنسو بہیں کہ عبادت گزار کاجسم تو خون سےخالی ہوجائےمگراس کے عشق ومحبت کاچمن اس انوکھی آبیاری سےرشک فردوس بن جائے۔
حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کادل محبت نوازعشق ونیازکی لذتوں میں ڈوب چکاتھا کہ عقل مصلحت کیش نےانہیں روکااورایک ایسی آوازمیں جسےصرف شہیدوں کی روح ہی سن سکتی ہے، انہیں روح اسلام کی طرف سےیہ پیغام دیاکہ اگرنماززیادہ لمبی کرو گے تو کافر یہ سمجھےگاکہ مسلمان موت سے ڈرگیاہے۔اس پیغام حق کےساتھ ہی حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ نے دائیں طرف گردن موڑدی اورکہا: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کفار نہیں بولے،مگران کی کھینچی ہوئی تلواروں نے جواب دیا۔"وعلیکم السلام رحمۃ اللہ"اب آپ نےبائیں طرف گردن موڑی اور کہا: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔"کفاراب بھی خاموش رہے،مگرنیزوں کی انیاں اورتیروں کی زبانیں رو روکرپکاریں:
"اے مجاہداسلام!وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!"
مردمجاہدخبیب رضی اللہ تعالی عنہ سلام پھیرکےصلیب کےنیچے کھڑے ہو گئے کفار نے انہیں پھانسی کےستون کےساتھ جکڑدیااورپھرنیزوں اورتیروں کودعوت دی کہ وہ آگے بڑھیں اوران کے صدق ومظلومیت کاامتحان لیں۔ایک شخص آگے آیااوراس نےخبیب رضی اللہ تعالی عنہ مظلوم کےجسم پاک کےمختلف حصوں پر نیزے سے ہلکے ہلکے چرکےلگائے اوروہی خون اطہر جو چند لمحےپیشرحالت نمازمیں شکروسپاس کےآنسو بن کر آنکھوں سے بہا تھا، اب زخموں کی آنکھ سےشہادت کےمشک بوقطرےبن کر ٹپکنے لگا۔ پیکر صبر خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کےدردناک مصائب کاتصورکیجئے۔ آپ ستون کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں۔کبھی تیر آتا ہے اوردل کےپارہوجاتاہے،کبھی نیزہ لگتا ہے اور سینے کو چیر دیتا ہے، ان کی آنکھیں آتے ہوئے تیروں کو دیکھ رہی ہیں۔ان کے عضوعضوسےخون بہہ رہا ہے، درد و تکلیف کی اس قیامت میں بھی ان کادل اسلام سےنہیں ٹلتا۔"
ایک اورشخص آگےآیااوراس نےحضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے جگر پر نیزےکی انی رکھ دی۔ پھراس قدردبایا کہ کمرکےپارہوگئی۔یہ جوکچھ ہواحضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔حملہ آورنےکہا:"اب توتم پسندکرو گےمحمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہاں لگ جائیں اورتم اس مصیبت سےچھوٹ جاؤ۔"پیکرصبرخبیب رضی اللہ تعالی عنہ نے جگر کے چرکے کو حوصلہ مندی سےبرداشت کرلیامگریہ زبان کا گھاؤ برداشت نہ ہو۔اگرچہ زبان کا خون نچڑ چکا تھا مگر جوش ایمان نےاس خشک ہڈی میں بھی تاب گویائی پیداکردی اورآپ نے جواب دیا:
"اے ظالم! خداجانتاہےکہ مجھےجان دےدیناپسندہےمگریہ پسندنہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےقدموں میں ایک کانٹابھی چھبے۔"
نمازکےبعدحضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ پرجوحالتیں گزریں،آپ بے ساختہ شعروں میں انہیں ادافرماتےرہے،ان اشعارکاترجمہ درج ذیل ہے۔
لوگ انبوہ درانبوہ میرےگردکھڑےہیں،قبیلے،جماعتیں اور جتھے، یہاں سب کی حاضری لازم ہو گئی ہے۔

1.

یہ تمام اجتماع اظہارعداوت کےلئےہے۔یہ سب لوگ میرےخلاف جوش وانتقام کی نمائش کررہےہیں اورمجھےیہاں موت کی کھونٹی سےباندھ دیاگیاہے۔

2.

ان لوگوں نےیہاں اپنی عورتیں بھی بلارکھی ہیں اوربچےبھی اورایک مضبوط اور اونچےستون کے پاس کھڑاکردیاگیاہے۔

3.

یہ لوگ کہتےہیں کہ میں اسلام سےانکارکردوں تویہ مجھےآزادکردیں گے مگر میرے لئے ترک اسلام سےقبول موت بہت زیادہ آسان ہے،اگرچہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں مگرمیرادل بالکل پرسکون ہے۔

4.

میں دشمن کےسامنےگردن نہیں جھکاؤں گا،میں فریادنہیں کروں گا،میں خوفزدہ نہیں ہوں گا،اس لئےکہ میں جانتاہوں کہ اب اللہ کی طرف جارہاہوں۔

5.

میں موت سےنہیں ڈرسکتا،اس لئےکہ موت بہرحال آنےوالی ہے۔ مجھےصرف ایک ہی ڈر ہے اور وہ دوزخ کی آگ کاڈرہے۔

6.

مالک عرش نےمجھ سےخدمت لی ہےاورمجھےصبروثبات کاحکم دیاہے۔اب کفار نے زد وکوب سےمیرےجسم کوٹکڑےٹکڑےکرڈالاہےاورمیری تمام امیدیں ختم ہوگئی ہیں۔

7.

میں اپنی عاجزی،بےوطنی اوربےبسی کی اللہ سےفریادکرتاہوں،نہیں معلوم، میری موت کے بعدان کےکیاارادےہیں۔ کچھ بھی ہوجب میں راہ خدامیں جان دے رہا ہوں تویہ جوکچھ بھی کریں گے،مجھےاس کی پروانہیں ہے۔

8.

مجھے اللہ تعالی کی ذات سےامیدہےکہ وہ میرےگوشت کےایک ایک ٹکڑے کو برکت عطا فرمائے گا۔اے اللہ! جو کچھ آج میرےساتھ ہورہا ہے، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس کی اطلاع پہنچا دے۔
حضرت سعیدبن عامررضی اللہ تعالی عنہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عامل تھے۔ بعض اوقات آپ کو بیٹھے بیٹھے دورہ پڑتاتھااورآپ وہیں بے ہوش ہوکرگرپڑتے۔ایک دن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا:
"آپ کویہ کیامرض ہے؟"جواب دیا:"میں بالکل تندرست ہوں اورمجھےکوئی مرض نہیں ہے۔ جب حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ کوپھانسی دی گئی تومیں اس مجمع میں موجودتھاجب وہ ہوشرباواقعات یادآجاتےہیں تومجھ سےسنبھلانہیں جاتا اور میں کانپ کربے ہوش ہو جاتا ہوں۔"
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

الہی رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را