جو چلے تو جاں سے گزرگئے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جو چلے تو جاں سے گزرگئے
اہلیہ مولاناعابد جمشید
کون ہے جو آج میرے ساتھ موت پر بیعت کرتا ہے یہ جوان رعنا کون ہے اس کی آنکھیں جوش جذبات میں انگارہ کیوں ہو رہی ہیں اس بھری جوانی میں تو ایسے نوجوان خوبصورت شریک حیات کی تلاش میں بنے سنورے رہتے ہیں لیکن اسے کیا ہوا!اس نے ہاتھ میں ننگی تلوار کیوں سونت رکھی ہے؟ چہرے مہرے سے بھی کسی اعلی خاندان کا لگتاہے سرداری کی نشانیاں اس کی کشادہ پیشانی پر واضح ہیں۔۔پھر یہ نعرہ کیساہے؟اسے موت سے عشق کیونکر ہوگیا؟شور اتنا تھاکہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
انسانی اجزاء ہوامیں اڑ رہے تھے کئی دن سے جاری جنگ آج اپنے عروج پر تھی وفادار گھوڑے پتھریلی زمین پر ٹاپوں سے چنگاریاں آڑاتے اپنے شاھواروں کولیے دشمن کی صفوں میں گھسے پڑے تھے عرب کے ریگستانوں میں پلے اس دھرتی کے نادرونایاب گھوڑوں کی ہنہناہٹ پرنعروں کا گمان ہوتاتھا۔
عرب کے مردان صحرائی شجاعت وبہادری کی لوریاں دی گئی تھی جنگی رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں پر جھپٹ رہے تھے سیاہ عماموں کی شلوں کو چہروں پرلپٹے ان شیروں کی آنکھیں یوں چمکتی تھیں کہ ان کے سامنے تلواروں کی چمک بھی ماند پڑجاتی تھی، عرب کے صحرائی شیروں کے تن پر کپڑے تو بوسیدہ تھے لیکن ان کے بازوئوں میں بجلیاں بھری تھیں توحید پر کامل یقین نے ان کو موت کے خوف یرموک کاوسیع میدان آج اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتے محسوس ہوتاتھا۔
ملک شام کی اس ذرخیز کو دریائے یرموک سیراب کرتا تھا اور میدان یرموک کے تین اطراف میں کافی فاصلے پر موجود پہاڑی سلسلے سے جوندی نالے بہتے تھے وہ بھی پہاڑوں کی زرخیز مٹی کو لاکر اس میدان کی بھینٹ چڑھادیاکرتے تھے۔
دریائے یرموک نے ایسا نظام کبھی نہ دیکھا تحا اس کی لہریں بارباراٹھ کر فاقہ کشی عربوں کا دیدارکررہی تھیں، چشم فلک حیرت سے ان پچیس ہزارجانبازوں کو تک رہی تھی جو لاکھ کے لشکر جرارکے مقابلے میں یوں کھڑے تھے کہ پہاڑوں کوبھی اپنی ثابت قدمی پر شرمندگی محسوس رہی تھی۔
باز نطینی سلطنت کے حکمران قیصر نے دوماہ سے زیادہ عرصہ سے یرموک کو اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر دے رکھا تھا اورہر طرح کا سامان حرب اور نامور جنگجو یہاں اکٹھے کررہا تھا۔
سیدنا عمر فاروق کو روائے خلافت پہنے ابھی صرف دس روز ہوئے تھے آپ اس جنگ کے انجام کی خبر سننے کے انتظار میں کئی دن سے سو نہیں سکے تھے۔
عکرمہ پرزمین تنگ ہوگئی تھی۔ مدینہ کی نوزائیدہ اسلامی سلطنت کی فوج نے مکہ فتح کرلیاتھا اور عکرمہ کے بارے میں حکم تھاکہ جہاں ملے اسے قتل کردیاجائے عکرمہ جان بچا کر بھاگا لیکن مجاز کی زمین اسے پناہ دینے کو تیار نہ تھی چاروناچاریمن جانے کا ارادہ کیاساحل پر پہنچا ہی تھاکہ اس کی بیوی ام حکیم اسے تلاش کرتی ہوئی آپہنچیں عکرمہ !عکرمہ!رکو…رکو …… چلو میرے ساتھ میں تمہاری جان بخشی کا پروانہ لائی ہوں۔
عکرمہ کو اپنی سماعت پر دھوکے کا گمان ہواابوجہل کا بیٹا اور جان بخشی کا پروانہ……!
لیکن……پھر فوراخیالات کا رخ بدل گیا……جس ہستی نے جان بخشی کی ہے وہ تو سراپا رحمت ہے تمام جہانوں کے لیے رحمت۔۔ اس بحر کرم کے سامنے عکرمہ کے جرائم کی کیاحیثیت؟
میں سرکاردوعالم کے خلاف لڑتارہاہوں……؟کیاآج ان رومیوں سے ڈرکربھاگ جائوں گا؟
بولوکون ہے؟ جوآج میرے ساتھ موت پر بیعت کرتا ہے؟عکرمہ کی آواز جوش سے کانپ رہی تھی عرب کا ایک سجیلا جوان تلوار لہرا کر چلایا۔میں آسمان اس بہادر کو دیکھنے کے لیے جھک آیا۔یرموک کی شوریدہ سر لہروں نے اس کو زیارت کو سراٹھایا۔دور بہت دور پہاڑوں چوٹیوں نے آنکھیں مل مل کر اس جوان کو پہنچاننے کی کوشش کی یہ تو ابو العاص کا بانکا صاحبزادہ ہے ہشام……!
میں بھی موت پر بیعت کرتاہوں……
ایک اور شیر گرجا۔
یرموک کی دادی اس دھاڑسے ہل کر رہ گئی الہی یہ کن مائوں کے جنے ہیں ؟ان کو کن شیرنیوں کی گود میں پلنا نصیب ہواہے؟ موت کا خوف کیوں نہیں ان کے دل میں؟ کس دربار عشق سے فیض یافتہ ہیں یہ؟ چشم دھرنے ایسے نظارے اس سے پہلے کہاں دیکھے ہیں…… یہ کون سجیلا جوان ہے؟
کہیں پہ سہیل تو نہیں۔۔ہاں وہی بہادر ہے سہیل یہ عجیب جنگ تھی ایک طرف دو لاکھ کا لشکر جرار۔۔ تمام کے تمام کیل کانٹے سے لیس…… دنیا کی سپر پاور ہونے کے دعویدار۔۔عظیم سلطنت روما کی خاص الخاص شاہی فوج۔
دوسری طرف…… پچیس ہزار……صرف پچیس ہزار……اکثر کے تن پر کپڑے بھی پورے نہیں……جوپورے لباس میں ملبوس ہیں ان میں سے اکثر پیوندزدہ……گھوڑے بھی سب کے پاس نہیں……کچھ کے پاس تو تلواریں بھی نہیں……گاڑنے کی چوبیں اٹھائے کھڑے ہیں……لیکن دل میں صرف ایک ذات کاخوف……پیشانی جھکتی ہے تو اس کے آگے … دربارنبوت سے براہ راست فیض یافتہ ایثاروقربانی کے زندہ جاوید مثالیں……دن کو شہسوار اور راتوں کو نماز میں کھڑے ہوکر رونے والے……!
زخموں سے چور آخری سانسیں لیتے عکرمہ نے ادھ کھلی آنکھوں سے اپنے چچازاد کو دیکھا جوپانی کی چھاگل اٹھائے ان پر جھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے فورا چھاگل کے منہ پر بندھی چمڑے کی باریک رسی کھولی۔عکرمہ کے ہونٹوں کو چھاگل کے منہ نے چھوا……پانی……
ہشام کی آواز عکرمہ کے کان میں پڑی اسی شیرنے کچھ دیر پہلے عکرمہ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی تھی…… عکرمہ کے ہونٹ پانی کو چھونے سے پہلے ہی بندہوگئے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں چچازاد کو اشارہ کیا کہ پہلے ہشام کو پلائو۔
ایثار پیشہ بھائی کو دیکھنے ہوئے ابوجہم محبت سے تیزی سے ہشام کی طرف بڑھے۔چھاگل کے منہ نے ابھی ہشام کے زخمی ہونٹوں کا بوسہ لیاہی تھا سہیل کی آواز کو کیسے بھول سکتے تھے یہ وہی سہیل تھے جنہوں نے ہشام کے فورا بعد عکرمہ کی جانب سے لگائی جانے والی موت کی صداپر لبیک کہا تھا۔
پہلے سہیل کو پانی پلائو……
زخموں سے چورہشام نے کہنا چاہا لیکن ان کی زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ ہشام نے سرکی حرکت سے اشارہ کیاکہ پہلے سہیل کو پانی پلائو ابوجہم تیزی سے سہیل کی طرف لپکے……لیکن……وہ حور ان بہشتی کے ہاتھ سے سلسبیل کے جام پینے ملاء اعلی کی طرف پرواز کرچکے تھے۔ابوجہم نے آہستگی سے ان کا سر واپس زمین پر رکھا اور ہشام کی طرف بڑھے کہ ان کو پانی پلائیں۔لیکن……ہشام وہ پانی کیسے پی لیتے جو سہیل کے زخمی گلے کو ترنہ کرسکا تھا……سہیل اور ہشام وہ دونوں بھائی……وہ دونوں صحرائی شیر……جنہوں نے یکے بعد دیگرے عکرمہ کی آواز پر لبیک کہاتھا……اسی طرح……وفا کی ایک نئی……انمٹ داستان یرموک کی سرخ مٹی پر رقم کرتے ہوئے اپنے رحیم وکریم خالق سے جاملے تھے……
ابوجہم نے نم آنکھوں سے اس ایثار پیشہ انسان کو دیکھا سہیل کی پیاس بجھانے کی خاطر خود اس دنیا سے پیاسا رخصت ہوگیا تھا اور پھر چھاگل تھامے اپنے چچازاد عکرمہ کی طرف بڑھے……اللہ اکبر الہی یہ دیوانے کس بستی کے رہنے والے ہیں؟انوکھی وضع…… سارے زمانے سے نرالے……!چشم فلک ایسے نظارے کہاں دیکھے تھے؟ یرموک کے وسیع میدان کو اپنی وسعت ان شیروں کی وسعت ظرفی کے سامنے تنگ پڑتی دکھائی دے رہی تھی……دریائے یرموک کی لہروں نے آخری مرتبہ اٹھ کر یہ نظارہ دیکھا اور پھر ان میں بھی ہمت نہ رہی……دور……بہت دور……فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ایثار کی یہ لازوال مثال دیکھی……آسمان رو پڑا……زمین کا کلیجہ پھٹنے لگا……عکرمہ کی روح بھی اپنے وفادار ساتھیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے……ابوجہم کی چھاگل سے اپنے لبوں کو ترکیے بغیر……اپنے آقا سے ملاقات کے شوق میں……اس دارفانی میں ایک لازوال داستان وفا رقم کر کے……عرش الہی کے نیچے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بیٹھے ایک سبز پرندے کے پیٹ میں سما گئی ……یہ سبزپرندہ اب قیامت تک عرش الہی کے سائے میں رہے گا……لیکن میں نے جب بھی چشم تصور میں یرموک کے میدان کو دیکھا تو اسے یہ یہی سوچنے ہوئے پایاکہ میں اپنے سینے پر لڑی جانے والی اس وحشت ناک جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار رومیوں کے قتل اور عبرت ناک شکست پر جشن منائوں……لیکن ہزار مسلم شہداء کا سوگ منائوں……وہ شہداء جن کے سردار عکرمہ……ہشام اور سہیل تھے…