جناب !حاجی صاحب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جناب !حاجی صاحب
رانا رضوان ،فاروق آباد
سیٹھ عبدالرزاق آج بُہت خُوش تھا اور خُوش کیوں نہ ہُوتا کہ آج اُس کی برسوں پرانی مُراد بَر آنے والی تھی۔ وہ ایک ایسے قافلے میں شریک ہُونے جارہا تھا کہ جِس قافلے کی منزل حَرمِ پاک تھی۔ وہ کئی دِنوں سے اپنے رشتہ داروں سے مُلاقات کر رہا تھا اور ہر ایک آنے والے کو بتا رہا تھا کہ آخر اس کا بُلاوا بھی دیارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگیا ہے ، وہ اپنے شہر کا جانا مانا رَئیس تھا ایک مُدت سے دِیارِ حَرم کی زمین کو بوسہ دینے کی خُواہش اُس کے دِل میں مچل رہی تھی اور بِلآخر آج وہ دِن آپُہنچا تھا کہ اُسے اِس مُبارک سفر کی سعادت حاصل ہُونے جارہی تھی۔ اور پھر وہ گھڑی بھی آپُہنچی کہ وہ اپنے بیوی، بَچوں سے الوداع ہو کر عازم سفر ہُوگیا دیار حَبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کے تصور کی خُوشی اس قدر تھی کہ اس احساس نے اِسے اپنوں کی جُدائی کا کوئی خاص مَلال نہ ہُونے دِیا۔
الوداع کرتے ہُوئے مُحلہ داروں ، دوست احباب اور گھر والوں نے سو امن پھول کی پتیاں بھی اُس پر نچھاور کر ڈالیں تھیں اُس نے برقی قمقموں سے جگمگاتے ہوئے اپنے گھر پر الوداعی نِگاہ ڈالی اور اپنے مُلازم عبداللہ کےساتھ قافلے والوں کے ساتھ عازم سفر ہُوگیا۔ عبداللہ اُس کا خاص مُلازم تھا جِسے گھر والوں نے اِصرار کر کے سیٹھ عبدالرزاق کےساتھ کردِیا تھا تاکہ عبداللہ سفر میں آنے والی تکلیفوں کو خُود پر بَرداشت کرتے ہوئے سیٹھ عبدالرزاق کیلئے آسائش پیدا کر سکے اور عبداللہ کی خِدمت نے ثابت کر دِیا تھا کہ سیٹھ عبدالرزاق کے گھر والوں کا فیصلہ بالکل صائب تھا۔ واقعی عبداللہ کی موجودگی میں کبھی سیٹھ عبدالرزاق کو شکایت کا کوئی موقع ہاتھ نہیں آیا تھا۔
عبداللہ جہاں ایک بہترین خِدمتگار ثابت ہُوا تھا وہیں وہ ایک بِہترین باورچی بھی ثابت ہُوا تھا تمام سفر میں اپنے مالک کی ہر ایک ضرورت کا اُس نے دھیان رکھا تھا بلکہ جب کبھی سیٹھ عبدالرزاق آرام کی زیادتی کے سبب اپنی تھکن کا اِظہار کرتا تُو فوراً عبداللہ اپنے مالک کے ہاتھ پاؤں دَبانا شروع کردیتا جِس کی وجہ سے سیٹھ عبدالزاق کا کاہل جسم پھر سے توانا ہُوجاتا اور آخر وہ دِن بھی آپُہنچا کہ مِیر کارواں نے منزل کے آنے کا مُژدہ جاں فِزا سب کو سُنایا۔ تب ہر چہرہ خُوشی سے تمتمانے لَگا تھا۔
کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پَڑتے ہی ہر آنکھ اشکبار نظر آرہی تھی اور ہَر چہرے کو دیکھ کر یُوں مِحسوس ہُورہا تھا کہ جیسے صدیوں سے مِحبوس غلاموں کو آزادی کا پروانہ مِل گیا ہُو۔ طواف و سعی کے بعد سب ایک قطار میں اپنے سر مُنڈوا رہے تھے کِسی نے بَڑھ کر آب زَم زَم پیش کیا۔ تُو کوئی عمرہ کی مُبارکباد دے رَہا تھا رِہائش چُونکہ حَرم سے نزدیک تر تھی اِس لئے جس کا جب جی چاہتا حَرم میں چَلا آتا اور گھنٹوں گُزر جاتے لیکن وقت کا احساس نہیں ہُوتا۔
وقت مگر کسی کیلئے کب ٹِھہرتا ہے سو گُزرتا رَہا۔۔ گُزرتا رَہا۔۔۔ اور ایک دِن چاروں جانب سے مِنٰی چلو۔مِنٰی چلو کی صدائیں آنے لگیں اور عبداللہ تمام سامان ِضرورت اپنے توانا کاندھوں پر سنبھالے سیٹھ عبدالرزاق کے پیچھے پیچھے چَلا جارہا تھا 2 دِن بعد وہ عرفات کے میدان میں موجود تھے اور رُو رُو کر خُدائے رَحمٰن سے اپنے گُناہوں کی معافی مانگ رہے تھے مغرب کی آذان سُنتے ہی وہ مُزدلفہ کے میدان کی جانب چل دیے تھے اگلے دِن شیطان کو کنکریاں مارنے اور قربانی سے فارغ ہُونے کے بعد جب وہ اپنے خیموں میں داخِل ہوئے تُو عبداللہ اپنے مالک کو نمکین گوشت کھلانے کیلئے تیاری کر رہا تھا۔
آج سب طوافِ زیارت سے فارغ ہُوچُکنے کے بعد اپنے خیموں میں موجود تھے اور امیر قافِلہ کے حُکم کے منتظر تھے آج پھر سب کو اِک مبارک سفر درپیش تھا کوئی خُوبصورت لہن میں،، حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دِیکھو۔ کعبہ تُو دیکھ چُکے اب رسول اللہ کا روضہ دیکھو۔۔ پڑھ کر حاجیوں کے عشق کو مزید بیدار کر رہا تھا اور آخر وہ مُبارک ساعت بھی آپُہنچی جب اَمیرِ قافِلہ نے کُوچ کا حُکم سُنا ڈالا اور تمام حاجی مُجرموں کی طرح سَروں کو جھکائے ادب سے قافلہ میں شریکِ سفر تھے۔
سفر جاری تھا کہ کِسی دیوانے نے صدا لگائی وہ دِیکھو سبز گُنبد نظر آرہا ہے اور ساتھ ہی مسجد نبوی کے نُور بار مینار بھی نظر آرہے ہیں ہر آنکھ دیوانے کے ہاتھوں کا اِشارہ پاتے ہی شوقِ دیدار کی خاطر دیوانہ وار طوافِ مینار و گُنبد میں مصروف تھی مگر ایک دیوانہ تھا جو اپنی نِگاہوں کو باوجود ہزار خُواہش نہیں اُٹھا پا رہا تھا۔
مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) پُہنچ کر اَمیر قافلہ نے اعلان کیا سب بقیع کی جانب چلو ہم باب جبرائیل سے باادب طریقے سے قدموں کی طرف سے داخل ہونگے ہر ایک پروانہ وار وجد کی کیفیت طاری کئے حاضر ہُونے کیلئے بیقرار تھا لیکن وہ دیوانہ اپنی نظریں جُھکائے دروازے کے باہر ہی ٹھہر گیا تھا عبدالرزاق نے اُس دیوانہ کی اِس حَرکت کو مُلاحِظہ کیا تُو دیوانے کے قریب چَلا آیا اور کہنے لگا عبداللہ ہر مسلمان کی خُواہش ہوتی ہے کہ اپنے کریم آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے روضے پر حاضر ہُو کر شفاعت کی سند حاصل کرے لیکن عبداللہ میں دیکھ رَہا ہُوں کہ تُم اندر داخل ہونے کے بجائے باہر ٹھہر گئے ہو کیا تُمہیں یہ اندیشہ ہے کہ کوئی ہمارا سامان یہاں سے اُٹھا کر لے جائے گا۔ سُنو اگر ایسا کوئی وہم تمہارے دِل میں موجود ہے تُو اِسے باہر نِکال پھینکو اور یہ سعادت حَاصل کر لُو یہ موقع ہر ایک کو نہیں مِلتا تُم خُوش نصیب ہُو جو یہاں تک پُہنچنے میں کامیاب ہُوگئے ہُو۔
عبداللہ کے قدم سیٹھ عبدالرزاق کی بات سُن کر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے سیٹھ عبدالرزاق کو عبداللہ کی اِس نافرمانی سے تشویش لاحق ہُونے لگی تھی ایکبار پھر سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کے کاندھوں کو جھنجوڑتے ہُوئے دھیمے لہجے میں کہا عبداللہ کیا میری بات سمجھ میں نہیں آرہی تُمہیں؟
عبداللہ نے نہایت غمگین لہجے میں مالک کو جواب دِیا میرے آقا میں جانتا ہُوں کہ ہر مسلمان کے دِل کی خُواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار ضرور اِس دربار میں حاضر ہُو اور مجھے قُرآن مجید کا وہ فرمان بھی معلوم ہے کہ جس میں گُناہگاروں کو بخشش کیلئے اپنے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں حاضر ہوکر معافی چاہنے کا حُکم دِیا گیا ہے لیکن میرے آقا میں کروں کہ مجھ میں اِتنی ہمت نہیں کہ اپنی زندگی بھر کی گُناہوں کی پُوٹلی لیکر اپنے کریم آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے رُوبرو حاضر ہُوسکوں اِس لئے مجھے اپنے حُکم کی تعمیل سے قاصر سمجھتے ہوئے مُعاف فرما دیجئے وہ جانتے ہیں کہ اُن کا ایک غلام شرمندگی کے سبب اُن کے سامنے حاضر ہونے سے شرما رہا ہے اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ میرے اِس عُذر کو قبول فرماتے ہُوئے میری شفاعت کا ذِمہ بھی اپنے مقدس ہاتھوں میں ضُرور لیں گے اور میں بھی اُن کے دربار سے خالی ہاتھ ن ہیں جاؤںگا۔
دِیارِ حَبیب (صلی اللہُ علیہ وسلم) سے حاجیوں کا قافِلہ رحمتیں برکتیں اور مغفرتیں سمیٹ کر وا پِس اپنے وطن کیلئے رَواں دواں تھا مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے جو قافلہ جُدائی کے سبب مغموم اور بیقرار تھا اب معمول کے مُطابق آپس میں ہَنسی مذاق کرتا ہُوا آگے بڑھ رَہا تھا مگر عبداللہ کو جیسے چُپ سی لگ گئی تھی عبداللہ کی خِدمت گُزاری میں حالانکہ کوئی کَمی نہیں آئی تھی مگر اب عبداللہ کی شوخیاں نہ جانے کہاں گُم ہو کر رِہ گئی تھی۔
تمام قافلہ والوں کو اگرچہ اَمیر قافلہ نے تاکید کی تھی کہ واپسی سے قبل سفر کی ضرورتوں کا مکمل سامان ساتھ رَکھا جائے مگر بُہت کَم لوگ تھے جِنہوں نے اَمیرِ قافلہ کی بات پر کان دَھرا تھا۔ البتہ ایسا کوئی حاجی نہ تھا جِس نے تَحائف خَریدنے میں کوئی کَمی چُھوڑی ہُو۔
شائد یہی وجہ تھی کہ اکثر حَاجیوں کا زاد راہ نصف راستے میں ہی خَتم ہُونے لگا تھا۔ ایک دِن عبداللہ نے اپنے مالک کو خبر دِی کے کھانا پکانے کیلئے گھی موجود نہیں ہے اور قافِلہ میں بھی ایسا کوئی شخص موجود نہیں جو وافر مِقدار میں گھی رکھتا ہُو اگر آپ حُکم دیں تُو سادہ پانی سے ہی شوربہ تیار کرلوں۔ سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو سمجھایا کہ جب تک قافِلہ ٹھہرا ہُوا ہے تُم نزدیک کی بستی میں چلے جاؤ اور اُنہیں بتانا کہ ہم حاجی لوگ ہیں اور واپسی کے سفر میں ہیں وہ ضرور حاجیوں کا سُن کر تُمہیں گھی دے دیں گے۔ اَگلے پڑاؤ پر عبداللہ نے اپنے مالک کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس اب نمک بھی خَتم ہُوچُکا ہے۔ مالک نے پھر وہی جُملہ دُھرایا کہ اس بستی کے مکینوں کو جاکر بتاؤ کہ ہم حاجی ہیں کوئی تُمہیں نمک دینے میں تامل نہیں کرے گااور ایک دِن یہ قافِلہ واپس شہر کی حُدود میں داخل ہورہا تھا تمام حاجیوں کا اُن کے گھر والوں نے پر تپاک استقبال کیا اور جب سیٹھ عبدالرزاق اپنے گھر میں داستانِ حرم سُنا رھا تھا تو تمام گھر کے افراد عقیدت و اِشتیاق سے یہ داستان سُن رہے تھے کبھی سُننے والوں کے چہرے وفود خُوشی سے چَمک چَمک جاتے کبھی حیران رِہ جاتے اور کبھی کسی موڑ پر سامعین کی آنکھیں ڈُبڈبا جاتی تھی لیکن کسی کی بھی نظر کونے میں اُداس بیٹھے عبداللہ کی جانب نہیں گئی۔
وقت گُزرتا رہا لیکن عبداللہ کے چہرے کا تبسم جیسے کہیں کُھو کر رِہ گیا تھا کُچھ عرصہ کے بعد کسی دوسرے شہر کے کُچھ تاجر سیٹھ عبدالرزاق کے گھر مہمان ٹھہرے وہ لوگ اِس بات سے نابَلد تھے کہ سیٹھ عبدالرزاق ابھی چند ماہ پہلے حج کی سعادت حاصل کرچُکا ہے۔ کافی دیر گُزرنے کے بعد بھی باتوں کا کوئی ایسا سلسلہ نہیں چَل سکا جِس کے ذریعے سیٹھ عبدالرزاق اپنے حج کی داستان اپنے کاروباری مہمانوں کے گوش گُزار کر سکتا یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہوگیا جب دستر خُوان بچھایا جانے لگا تُو اچانک سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا عبداللہ وہ دَستر خُوان کیوں نہیں بِچھاتے جِس پر ہم دورانِ حج کھانا کھایا کرتے تھے۔ اچانک کسی مہمان کی آواز بُلند ہوئی عبدالرزاق بھائی کیا آپ اِمسال حج پر گئے تھے؟ سیٹھ عبدالرزاق جیسے اِس موقع کی تلاش میں تھا فوراً تمام مہمانوں کو اپنے سفر کی روئیداد سُنانے لگا اور سلسلہ کھانے کے بعد تک جاری رَہا ہر ایک مِہمان اُسکے مقدر پر رَشک کر رہا تھا اور اُسے مبارکباد پیش کر رَہا تھا۔
شام کو مِہمانوں کے جانے کے بعد سیٹھ عبدالزاق نے عبداللہ کو تنہائی میں بُلا بھیجا جب عبداللہ خِدمت میں حاضر ہوگیا تو سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اِشارہ کیا عبداللہ کے فرش نَشین ہوتے ہی سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا" کیا بات ہے عبداللہ میں دِیکھ رَہا ہُوں کہ جب سے تُم نے حج کی سعادت حاصِل کی ہے تُم یکسر خَاموش ہُوگئے ہُو وہ خُوشی جو ایک حاجی کے چہرے پر اِس سعادت کے حاصِل ہُوجانے کے باعِث ہونی چاہیئے وہ مجھے کبھی تُمہارے چہرے پہ نظر نہیں آئی؟
عبداللہ چند لمحے خاموش بیٹھا دیواروں کو گُھورتا رہَا۔ لیکن جب سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو حاجی عبداللہ خاموش کیوں ہُو۔ کہہ کر مُخاطِب کیا تُو عبداللہ کی خَاموشی بھی ٹُوٹ ہی گئی۔مالک مجھے حاجی کہہ کر مُخاطِب نہ کریں عبداللہ کی آواز میں التجا سے ذیادہ احتجاج کی جھلک نظر آرہی تھی۔کیوں حاجی نہ کَہوں تُمہیں۔ کیا تُم نے میرے ساتھ حج کی سعادت حاصل نہیں کی؟ سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو حیرت سے دیکھتے ہُوئے سُوال کیا۔
مالک ہم اپنا حج تُو بُہت پہلے گھی اور نمک کے عِوض فروخت کر چُکے ہیں۔ عبداللہ جواب دیتے ہُوئے روہانسہ ہُوگیا تھا۔کیا بِہکی بِہکی باتیں کر رہے ہو عبداللہ کہیں کِسی ہُوا کی جھپٹ کا شِکار تُو نہیں ہُوگئے تُم؟عبداللہ : نہیں مالک میں کِسی فریب میں مُبتلا نہیں ہُوں اور نہ ہی میں کوئی دیوانہ ہُوں۔ مگر آپ شائد بھول گئے ہیں۔سیٹھ عبدالزاق : کیا بُھول گیا ہُوں میں۔ جو کہنا ہے ذرا صاف صاف کہو۔عبداللہ : کیا آپ بُھول گئے کہ حج سے واپس آتے ہُوئے سفر میں جب گھی خَتم ہونے پر آپ نے مُجھے حُکم دِیا تھا کہ بَستی والوں کو بتاؤں کہ ہم لوگ حاجی ہیں سُو اسطرح میں نے بستی والوں سے صرف اِتنا ہی کہا تھا کہ میرا مالک حج کا فرض اَدا کرنے کے بعد یہاں سے گُزر رَہا تھا کہ ہمارے سامان میں گھی خَتم ہوگیا آپ مہربانی کریں اور اِس حج کی لاج رکھتے ہُوئے ہمیں کُچھ گھی عنایت کردیں اور یوں آپ کے حج کے عوض میں مفت گھی لے آیا تھا۔ اور آپکے دوسرے حُکم کو پُورا کرنے کیلئے میں نے اَگلی بَستی والوں کو اپنے حج کے مُتعلق بتایا اور یُوں اپنا حج بھی داؤ پر لگا دِیا۔ میرے مالک میرے پاس تو صرف اِک حج کی دولت تھی جِسے میں نَمک کے بدلے دے آیا ہوں لیکن نجانے آپ کے پاس کتنے حج ہیں کہ ہر موقع پر آپ دوسروں کو یہ باور کرانے میں مصروف رِہتے ہیں کہ آپ حج کی سعادت حاصل کرچُکے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے چُنانچہ جب آپ نے آج اپنے مہمانوں کو جتانے کیلئے مجھ سے کہا تھا کہ وہ دستر خُوان بِچھاؤں جس پر ہم دورانِ حج کھانا کھایا کرتے تھے تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ میں نے تُو آپ کیساتھ صرف ایک ہی حج کیا تھا جِسے نمک کے عوض بیچ چُکا ہوں لیکن خبر نہیں آپ کے پاس کتنے حج ہیں جو روزانہ کئی کئی حج بیچے چلے جارہے ہیں۔