ظہیر الدین محمدبابر

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر16:
ظہیر الدین محمدبابر
امان اللہ کاظم
میرے ننھے سلطان !تو بزعم خویش سمجھتاہے کہ تو بہت سمجھدار ہوگیا ہے اور کارہائے جہانگیری وجہانداری خوب جاننے لگا ہے مگر میرے نزدیک تو ابھی طفل مکتب ہے میں نے مغلستان کے جابر خاقان کے ساتھ ایک عمر گزاری ہے بادشاہان وقت کے خلاف محلاتی سازشیں کیا رنگ لاتی ہیں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ محلاتی سازشیں ہی ہوتی ہیں جو بڑے بڑے عقلمند اور زیرک بادشاہوں کا دھڑن تختہ کر دیتی ہیں۔ تو ابھی اس عمر کو نہیں پہنچا کہ تجھے ان سازشوں کا کما حقہ ادراک ہوسکے، تیرے مصاجین میں دراصل وہی لوگ ہیں جو تیری سلطانی کے درپے ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے بہت نواز اہے جن پر تیری داد ودہش کی بارش ہوئی ہے وہی لوگ آج تیرے درپے آزار ہیں مثال کے طور پر حسن یعقوب جسے تو اپنا سب سے بڑا جانثار اور وفادار سمجھتا ہے اور جسے تو نے بیش بہا انعامات سے نوازا ہے حد تو یہ ہے کہ تو نے اس نمک حرام کو وزارت عظمی جیسا اہم منصب بھی عطاکیاہے مگر یہ وہ شخص ہے جو تیرے دشمنوں سے سازباز کرکے تجھے منصب سلطانی سے محروم کرنا چاہتا ہے وہ ایک زہر یلا سانپ نے اور سانپ کی فطرت دوست دشمن کی تمیز کیے بغیر ڈسنا ہے اور وہ وارکرنے کا موقع کبھی بھی ضائع نہیں کرتا۔
تجھے معلوم بھی نہیں ہے کہ حسن یعقوب تیرے چچا سلطان محمود مرزا سے مل کر تیرے خلاف ایک سازش رچنے میں مصروف تھا۔ سلطان محمود مرزا کا تجھے اپنے بیٹے مسعود مرزا کی شادی پر بلانا عبدالقدوس بیگ کا شادی کا دعوت نامہ لے کر آنا اور اس کا حسن یعقوب کے گھر قیام کرنا سب اس سازش کی کڑیاں تھیں، جس روز عبدالقدوس سمرقند سے شادی کا دعوت نامہ لے کر تیرے پا س آیا تھا میرا اسی روز ماتھا ٹھنکا تھا۔
اور پھر عبدالقدوس بیگ کے حسن یعقوب کے ہاں قیام سے میں سمجھ گئی تھی کہ دال میں کچھ نہیں بلکہ بہت ہی کالا ہے بنا بریں میں نے عبدالقدوس اور حسن یعقوب کی نگرانی شروع کردی تھی بہت جلد میں معاملے کی تہ تک پہنچ گئی،حسن یعقوب کو جب اس بات کی بھنک پڑی کہ اس کی سازش طشت از بام ہوگئی ہے تو اس نے سمر قند کی طرف فرارہی میں اپنی عافیت سمجھی مگر میں نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ میں نے قاسم بیگ اور سلاخ کو ایک بھاری فوجی دستے کے ساتھ حسن یعقوب کے تعاقب پر لگا دیا۔حسن یعقوب نے آپ کے چھوٹے بھائی اور آخشی جیسے اہم قلعے کے حاکم جہانگیر مرزا کو بھی اپنی متوقع سازش میں شامل کیاہوا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ جہانگیر مرزا کی نظریں وادی فرغانہ کے تخت پر جمی ہوئی تھی وہ تجھے منصب سلطانی سے محروم کرکے خود سلطان بننا چاہتا تھا اس لیے وہ حسن یعقوب اور سلطان محمود مرزا کی رچائی گئی سازش میں برابرکا شریک تھا۔ حسن یعقوب کو جب اپنے تعاقب کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا راستہ بدلتے ہوئے آخشی کا رخ کیا، مگر قاسم بیگ نے اسے آخشی تک نہ پہنچے دیا اور اسے راستے ہی میں دبوچ کر جہنم واصل کردیا دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بزعم خویش خود کو عقل کل سمجھنے والا فرغانہ کا سلطان اسی ساری تگ و تاز اور اچھاڑ پچھاڑ سے یکسر بے بہرا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے خلاف اس کے ہمدرد جانثار اور وفادار مصاحب کیاگل کھلا رہے تھے جنہیں وہ اپنا سب سے بڑا دوست سمجھتا تھا اصل وہی اس کی آستین کے سانپ جو اسے بے خبری میں ڈسنا چاہتے تھے اگر میری آنکھیں کھلی نہ ہوتیں تو آج اس کی سلطانی اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہوتی
جان من ابھی تو اعلی دماغ نہیں ہوا کہ قطعی طور پر دوست اور دشمن میں تمیز کر سکے۔بابر نانی اماں کی یہ لمبی تقریر سن کر انگشت بدنداں رہ گیا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حسن یعقوب جیسا جانثار اس کے خلاف کوئی سازش کر سکتا تھا اور اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کا چچا سلطان محمود مرزا اسے اقتدار سے محروم کرنے کے لئے اتنی حد تک بھی گر سکتا تھا نانی اماں کے منہ سے یہ سب کچھ سن کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ہونقوں کی طرح اس کا منہ تکے جا رہا تھا۔
نامی اماں کی یہ ثقیل باتیں اس کے حلق سے نیچے نہیں اتر پا رہی تھیں اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی نامی اماں اس قدر زیرک معاملہ اور قوت فیصلہ کی حامل ہوگئ۔اسے آج معلوم ہوا تھا کہ اس کی یہ بوڑھی نانی اس سے کس قدر محبت کرتی تھی،اگر آج اس کی نانی اماں اس قدر ہوشیار نہ ہوتی اور وہ بروقت حسن یعقوب او سلطان محمود مرزا کی سازش کا توڑ نہ کرتی تو پھر خدا جانے کیا ہوجاتا یہ سب سوچ سوچ کر بابر کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔بظاہر بابر اپنے ایک بہت بڑے سازشی امر سے چھٹکاراحاصل کرچکا تھا مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کی بد قسمتی اس وقت بھی ا س پر ہنس رہی تھی اور جس سکون وقرار کا وہ متلاشی تھا وہ اب بھی اس سے بہت دور تھا۔
ظہیرالدین بابر کو اپنی نانی اماں کی زبانی جب اپنے چچا سلطان محمود مرزا کی گھنائونی سازش کا علم ہوا تو وہ بھونچکاسا رہ گیا او اسے بے حد دکھ بھی ہوا اب کے اس کا رشتوں پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا اس نے اپنے تئیں ایک فیصلہ کیا وہ آئندہ کسی رشتے دار پر بھروسہ نہیں کرےگا۔
یہ ایک زندہ حقیقت تھی کہ نہ صرف اس کا چچاسلطان محمود مرزا بلکہ اس کے کئی دوسرے عزیز بھی وادی جنت نظیر فرغانہ پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ابھی تک مغلستان کا خاقان محمود خان)محمود رشتے میں بابر کا ماموں تھا( تھیان شیان میں بظاہر خاموش بیٹھا تھا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا مگر اس کی گدھ کی مانند خونخوار نظریں فرغانہ پر گڑی ہوئی تھیں۔
حسن یعقوب کی سازش کی گرد ابھی تک بیٹھ بھی نہ پائی تھی کہ ازبکستان کی طرف سے ایک انتہائی طاقتور دشمن شیبانی خان نمودار ہوا جسے عام طور پر شاہی بیگ کہا جاتا تھا شیبانی خان کا تعلق چنگیز خان کے بڑے بیٹے جو چی خان Jochi Khan کی نسل سے تھا یعنی وہ جوچی خان کے بڑے بیٹے باتوخان Batu Khan کی اولاد میں سے تھا جوکہ روس کا دوسرا خاقان ہوگر گزرا تھا۔
ظہیر الدین محمد بابر کے جد اعلی تیمور لنگ نے اپنے پے بہ پے حملوں سے اس خاندان کا شیرازہ بکھیر دیا تھا جس کی وجہ سے اس خاندان کی مرکزیت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ عرصہ دراز تک پراگندگی کا شکار رہنے والے اس مغلوں کے درمیان ایک نہایت ہی اولو العزم اور صاحب تدبیرشخص نے جنم لیا جسےشیبانی خان یا عرف عام میں شاہی بیگ کے نام سے موسوم کیا جاتاتھا۔
شیبانی خان نے اپنے بکھرے ہوئے لوگوں کو)جوکہ ازبک کہلاتے تھے(مغلوں کے مشہور زمانہ یاک کے نودموں والے پرچم تلے جمع کیا۔ ازبکستان پر اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے بعدا س کی عقابی نگاہیں اردگرد کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر جم گئیں ان ریاستوں میں سے وادی فرغانہ سب سے زیادہ اہم تھی ایک عرصہ سے وہ اس ریاست پر اپنی نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
عمر شیخ مرزا کی اچانک موت کے بعد جب اس کا بارہ سالہ بیٹا ظہر الدین بابر سریر آرائے مسند شاہی ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اپنے پرائے سب اس کے درپئے ازار ہو گئے تھے مگر وہ اپنی نانی اماں کی سرپرستی میں ابھی تک فرغانہ کے تخت پر برا جمان تھا جس کے حسن تدبیر سے اس نے بڑی بڑی سازشوں کو کامیاب ہونے سے پہلے ہی کچل کر رکھ دیا تھا۔
شیبانی خان نے سوچا کہ ” اگر اس نو عمر لڑکے نے اپنے تمام دشمنوں کو مات دے دی تو پھر وہ دھیرے دھیرےتمام ماوراء النہر پہ قابض ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ماورا ءالنہر کے باہر واقع ریاستوں کو اپنے زیر نگیں لانےسے اسے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ”گربہ کشتن روز اول کے مصداق“ اگر اس سنپولئے کا سر ابھی سے نہ کچلاگیا تو پھر سانپ بننے کے بعد اس کے ڈنک سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا“
اسی سوچ کےپیش نظر شیبانی خان نے ازبکستان سے خروج کرکے وادئی فرغانہ کی طرف مارچ کرنےکا فیصلہ کیا۔ اسے یہ معلوم تھا کہ فرغانہ تک پہنچنے سے پہلے اسے مغلستان اور تبت جیسی طاقتور ریاستوں کو اپنے زیر نگیں لانا ہوگا ورنہ وہ فرغانہ کو تسخیر کرتے کرتے اپنی ریاست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
مغلستان پر اس وقت محمود خان اور تبت پر اس کے چھوٹے بھائی احمد خان کی فرماں روائی تھی۔ ان دونوں طاقتور حریصوں سے نبرد آزما ہوئے بغیر وادئی فرغانہ کی طرف پیش قدمی کرنا اس کے لئے نہایت ہی خطرناک ثابت ہوگا۔ کیونکہ ان دونوں بھائیوں میں سے احمد خان کو عرف عام میں ”الچھ حان“ (یعنی بہت زیادہ قتل کرنے والا)کہاجاتا تھا چنانچہ اسے نشان عبرت بنائے بغیر وہ اپنے مقصد دیرینہ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔شیبانی خان کی فطرت میں بھی اپنے آباءو اجداد کی طرح مکاری ، خونخواری ، دغابازی اور بے رحمی جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔یہ بات اسے رہ رہ کر کچوکے دے رہی تھی کہ آخر سلطان احمد مرزا،سلطان محمود مرزا، ابابکر دوغلت اور خاقان اعظم محمود خان اس نو عمر لڑکے کے مقابلے میں ناکام کیوں رہے تھے۔ حالانکہ ابابکر دوغلت جیسا طاقتور اور صاحب تدبر شخص اس لڑکے کے لئے کافی تھا۔ مگر وہ بھی چوہے کی مانند بزدل ثابت ہواتھا۔
شیبانی خان ابھی تک اپنی کچھار سے باہر قدم نکال ہی نہیں پایا تھاکہ تاریخ کے صفحات پر سلطان احمد تنبل نامی ایک دوسرا طالع آزما فرغانہ کے افق پر نمودار ہوا۔ یہ شخص جنگ و جدل کے علاوہ حسن یعقوب کی طرح داوپیچ سے بھی خوب واقف تھا۔
سلطان احمد تنبل کا منصوبہ کچھ یوں تھا کہ
”اسے سب سے پہلے بابر کے چھوٹے بھائی جہانگیر مرزا کو ورغلا کر اپنے حق میں استوار کرنا تھا۔ بعد ازاں آخشی کے اہم قلعہ پر قابض ہوکر اسے نکال باہر کرنا تھا۔ اسی طرح فرغانہ پر قبضہ کرنا اس کے لئے آسان ہوجائے گا کیونکہ آخشی کا قلعہ فرغانہ کے لئے کلید فتح کی حیثیت رکھتا تھا“
بیک وقت دو دشمنوں کی فرغانہ کی طرف پیش قدمی بابر کے لئے نہایت ہی تشویش کا باعث تھی۔ بابر کی نانی اماں نے جس طرح حسن یعقوب جیسے شاطر اور سازشی انسان کا قلع قمع کیا تھا بابر کی نگاہوں میں اس کی عزت اور اہمیت بڑھ گئی تھی۔ اب وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے نانی اماں سے مشورہ کرنا اپنا فرض اولیں سمجھنے لگاتھا۔
بابر نے ان دوطاقتور اور شاطر دشمنوں کے متوقع حملے سے عہدہ برآہونے کے لئے نانی اماں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ اس نے نانی اماں کو اپنے مخبروں کی طرف سے بھیجی گئی معلومات سے آگاہ کیا اور پھر اس سے رائے طلب کی۔
نانی اماں نے بابر کو مشورہ دیا کہ ” تمہیں نہ صرف فرغانہ کو دشمنوں کی دست برد سے محفوظ رکھنا ہے بلکہ سمرقند پر بھی قابض ہونا ہے۔ کیونکہ اپنی ساری مساعی جارح قوتوں سے نبرد آزماہونے پر ضائع کرنے کی بجائے کچھ آگے کی سوچی جائے۔
سمرقند جوکہ عرصہ دراز سے تیموریوں کا مرکز سلطانی رہی ہےاور یہی وہ مقام ہے جہاں سے تیرے جد امجد تیمور خان نے پیش قدمی کرتے ہوئے دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر اپنی سلطانی کا جھنڈا گاڑدیاتھا۔ اس لئے سمرقند پر قبضہ تیرے لئے فرغانہ سے باہر قدم نکالنے کا ذریعہ بن جائے گا“
بابر کو نانی اماں کی رائے صائب لگی ، وہ بھی تک وہی حیص بیص میں تھا کہ اسے دو محاذوں پر بیک وقت عہدہ برآءہونے کے لئے کیا منصوبہ بندی کرنا چاہئے کہ اسے اپنے مخبروں کی طرف سے ایک نہایت ہی خوش کن خبر موصول ہوئی وہ یہ کہ اس کا چچا اور سمرقند کا سلطان محمود مرزا کا انتقال ہوگیا تھا۔ اور پھر تاج و تخت حاصل کرنے کے لئے اس کے بیٹوں میں خانہ جنگی کا آغاز ہوچکا تھا۔
سمرقند کے اقتدار پر اب سلطان محمود مرزا کےبڑے بیٹے سلطان بائسنغر کا قبضہ ہوگیا تھا جبکہ اس کے دوسرے دو بھائی بھی اقتدار کے حصول کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے تھے۔ کچھ ہی عرصہ قبل سلطان بائسنغر اپنے ایک بھائی علی مرزا کو اندھا کر نے کی کوشش کی تھی مگر اس کی خوش قسمتی کہ وہ صاف بچ نکلا تھا۔ اب اس کے دل میں سلطان بائسنغر کے خلاف نفرت پیدا ہوچکی تھی مگر اس کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ سلطان وقت کا مقابلہ کرسکتا۔ اس لئے اب وہ اپنے حمائتی تلاش کررہاتھا۔
دوسرا بھائی بھی اقتدار کے حصول کے لئے اپنے ہمدردوں کی تلاش میں مارا مارا پھر رہاتھا۔سمرقند کی طرف بڑھنے سے پہلے بابر نے وہ شہر دوبارہ اپنے قبضے میں لے لئے جوکہ اس کے باپ عمر شیخ مرزا کی وفات کے بعد اس کے چچا سلطان احمد مرزا نے ہتھیا لئے تھے۔
اب وہ سمرقند کی طرف اپنے قدم بڑھا رہا تھا۔ رمضان المبارک کی آخری تاریخیں تھیں۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ شوال المکرم کا چاند نظر آ گیا۔ بنابریں بابر نے وہیں قیام کیا اور عید کی نماز ادا کی اسے معلوم نہیں تھا کہ جن پہاڑی باغوں میں اس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے وہاں سے سمرقند شہر کی گنبدوں والی عمارتیں صاف نظر آرہی تھیں۔
بابر کا یہ عارضی قیام کچھ دنوں کے لئے مستقل شکل اختیار کرگیا۔اس کے ہر اول مخبروں نے اسے مطلع کیا کہ فرغانی کی فوج شہر کے جس حصے کا محاصرہ کرنے والی ہے بقیہ تین اطراف میں تین دشمنوں ( جن میں سلطان بائسنغر کے دوحقیقی بھائی اور ایک ازبک سردار شیبانی خان شامل تھا)نے سمرقندکا محاصرہ کررکھاہے۔
بابر کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر اپنے ذہن رسا سے تدابیر سوچنے لگا۔ اس نے سب سے پہلے سمرقند کے سلطان بائسنغر کے بھائی سلطان علی مرزا سے سمرقند پر قبضے کے لئے رابطہ قائم کیا۔ سلطان علی مرزا پہلے ہی کسی سہارے کی تلاش میں تھا اس نے بے کم وکاست بابر سے معاملہ کرلیا۔ طے یہ پایا کہ سمرقند کی فتح کے بعد سمرقند کی سلطانی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
بابر کو یقین تھا کہ سلطان علی مرزا اس کے ساتھ کیے گئے معاملے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا کیونکہ وہ سلطان بائسنغر کا ڈسا ہواتھا۔
سلطان بائسنغر کے دوسرے بھائی نے ازبک سردارشیبانی خان سے معاہدہ کرلیا تھا مگر شیبانی خان نے سوچا کہ”کہیں ایسا نہ ہو کہ تین بھائیوں کی جنگ میں کہیں وہ خود نہ ماراجائے “
اس خیال کے آتے ہی اس نے اس خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے سمرقند کا محاصرہ اٹھالیا اور آناً فاناً اپنے ملک کی راہ لی۔
بابر کو جب شیبانی خان کی واپسی کا علم ہوا تو اسے بے حدخوشی ہوئی۔ ادھر بابر کا حلیف سلطان علی مرزا محاصرے کی طوالت سے تنگ آ گیا تھا اور یہ دیکھ دیکھ کر کہ بابر کی فوج میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہاتھا وہ دل برداشتہ ہوگیا تھا اور اس نے اسی میں اپنی عافیت سمجھی کہ وہ محاصرے سے کنارہ کش ہوجائے۔ بنابریں دیکھتے ہی دیکھتے وہ سمرقند کے نواح سے اپنی فوج کے ساتھ بابر کو بتائے بغیر اس طرح رفوچکر ہوا جیسے اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ہو۔
اسی طرح سلطان بائسنغر کے دوسرے بھائی نے بھی اپنے حمائتی شیبانی خان کو جاتے ہوئے دیکھا تو اس نے محاصرے سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ سمرقند کے نواح میں اب بابر تنہا رہ گیاتھا۔ اب اس کا براہ راست اپنے چچازاد سلطان بائسنغر سے مقابلہ جم گیا تھا۔ سلطان بائسنغر بھی اس تمام اتھل پتھل سے بے خبر نہیں تھا۔۔۔۔جاری ہے