"> خلیفہ ثانی، سیرت و کردار کے آئینہ میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خلیفہ ثانی، سیرت و کردار کے آئینہ میں
ماریہ خان، مانسہرہ
نام و نسب:
عمر نام، ابوحفص کنیت، فاروق لقب والد ماجد کا نام خطاب اور والدہ ماجدہ کا نام ختہ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ آٹھویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے:عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی۔
تمام اہل السنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعدعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی ان کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، ہجرتِ نبوی سے 40 برس پہلے پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان میں سے ایک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
کتبِ سیرت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہمشیرہ پر ظلم کیا اور پھر انہی کی طرف سے قرآن سننے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس ضمن میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی زبانی ہے کہ: انہوں نے مسجد حرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران سورۃ الحاقہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور وہ قرآن کریم کے نظم و اسلوب سے حیرت زدہ ہو گئے۔ مکمل سورت کی تلاوت سن کر بالآخرانہیں محسوس ہوا کہ اسلام ان کے دل میں پوری طرح گھر کر گیا ہے۔ مورخین اسلام کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے ساتویں سال میں ایمان لے آئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ
اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هذَینِ الرَجُلَینِ إِلَیكَ: بِأَبِی جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔
اے اللہ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں کہ
وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَیهِ عُمَرُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر رضی اللہ عنہ زیادہ محبوب تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ
عمر رضی اللہ عنہ نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔ اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہے کہ:
یا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِی نَفْسِی بِیدِهِ مَا لَقِیكَ الشَّیطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَیرَ فَجِّكَ
اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔
یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے،امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے اور بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔
اسی موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ
بےشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق رکھ دیا ہے اور
لَقَدْ كَانَ فِیمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ یكُ فِی أُمَّتِی أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ
تم لوگوں سے پہلی امتوں میں محدثون یعنی الہامی لوگ ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں
جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آراء مختلف ہوتیں اور عمر رضی اللہ عنہ کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن کریم انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے۔
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اللہ تعالیٰ نے چاہے ڈول کھینچے پھر اس ڈول کو ابن قحافہ ابوبکر نے تھام لیا۔ انہوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اللہ معاف فرمائے، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور اس کو ابن الخطاب نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر رضی اللہ عنہ کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی:
اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ” میں، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے" تو اسی لیے مجھے پہلے سے امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گاابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔ دس سالہ خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک بدبخت فیروز ابولولو کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یکم محرم سن 24ھ کو اپنا رخت سفر باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔اللہ تعالی ان سے راضی ہوئے اور وہ اپنے اللہ سے راضی ہوئےتھے۔