واقعہ کرب وبلا اور کرنے کا کام

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
واقعہ کرب وبلا اور کرنے کا کام
امام ابن کثیر، انتخاب رضیہ جاوید، جہلم
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دلدوز واقعہ بروز جمعہ دس محرم الحرام سن 61 ہجری کو پیش آیا۔ ہشام کلبی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ سن 62 ہجری کا ہے اور ابن لہیعہ یہ واقعہ سن 62 یا 63 ہجری کا بتلاتے ہیں لیکن پہلی ہی تاریخ زیادہ صحیح ہے آپ کی شہادت کا واقعہ عراق کے اندر طف کے پاس ایک جگہ کربلا میں پیش آیا تھا اس وقت آپ کی عمر 58 سال کے قریب تھی۔
مسند احمد، ج:3، ص:242-265 میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بارش کے فرشتہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ی کی اجازت چاہی آپ نے اسے شرف باریابی کا موقع دیا، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ دروازے کی طرف دھیان دینا کوئی اندر نہ آنے پائے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کودتے پھاندتے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک پر کودنے لگے، فرشتے نے فرمایا۔ اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ کیوں نہیں۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کی امت اسے قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو وہ مٹی لاکر آپ کو دکھلا دوں جہاں اسے قتل کیا جائے گا۔ پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور لال رنگ کی ایک مٹھی مٹی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھ دی۔ [ مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو ضعیف بتلایا ہے، لیکن اس معنی میں متعدد روایات آئی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کچھ نہ کچھ اصل ضرور ہے چنانچہ امام ذہبی لکھتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے دیکھئے السیر: 3-289 [
مسند احمد ہی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ٹھیک دوپہر کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال اور چہرہ مبارک غبار آلود ہے اور آپ کے ساتھ ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔ ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائیں یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ]اس معنی میں ایک روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنن الترمذی: 3771 میں موجود ہے [
اس حدیث کے راوی عمار بیان فرماتے ہیں کہ جب اس کا حساب لگایا گیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاواقعہ اسی دن پیش آیا تھا۔ طبقات ابن سعد میں ہے حضرت شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے کہ باہر سے ایک لونڈی کے چیخنے کی آواز سنائی دی اور اسی حالت میں وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچ کر کہنے لگی کہ حضرت حسین کو شہید کردیا گیا۔ ام المومنین نے فرمایا۔ بدبختوں نے ایسا کردیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھردے یہ کہہ کر وہ بیہوش ہوکر گرگئیں۔ یہ دیکھ کر ہم لوگ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
] سیر اعلام النبلاء: 3-318 [
روافض نے عاشوراء سے متعلق بہت ہی مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اور بہت ہی جھوٹی حدیثیں اور قصے گڑھ لئے ہیں، جیسے کہ اس دن سورج میں ایسا گہن لگا کہ دوپہر میں تارے نظر آنے لگے اور جب بھی کوئی پتھر اٹھایا گیا تو اس کے نیچے جما ہوا خون تھا۔ آسمان کے کناروں پر دم حسین کی وجہ سے سرخی چھاگئی ان دنوں جب سورج نکلتا تھا تو اس کی شعاعیں ایسی لگتی تھیں کہ گویا سارا آسمان ایک خون کے لتھڑا جیسا ہوگیاہے ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے، آسمان سے خون کی بارش ہوئی، اس سے قبل آسمان میں سرخی نہ تھی وغیرہ اور جب حسین رضی اللہ عنہ کا سر گورنر ہاوس میں لایا گیا تو دیواروں سے خون بہنے لگا اور تین دن تک زمین بالکل تاریک رہی، اس دن جس کسی نے بھی مشک اور زعفران کا استعمال کیا وہ جل کر راکھ ہوگیا، بیت المقدس میں جب بھی کوئی پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے جمع شدہ خون ضرور ملا اور حسین رضی اللہ عنہ سے لوٹے ہوئے اونٹوں کو لوگوں نے ذبح کرکے پکایا تو وہ ایلوا جیسا کڑوا ہوگیا اسی قسم کی اور بھی بہت سی من گھڑت باتیں جو سرتاپا بے بنیاد ہیں روافض نے لوگوں میں رائج کردی ہیں ان باتوں اور قصوں میں کوئی حقیقت نہیں۔
ہاں جو باتیں قاتلین حسین کے مصائب اور فتن میں پڑنے سے متعلق نقل کی گئی ہیں ان میں سے اکثر صحیح ہیں کیوں کہ جن لوگوں نے آپ کو شہید کیا تھا ان میں کا شاید ہی کوئی ہو جو دنیاوی مصیبت سے محفوظ رہا ہو۔ اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے سبھی کسی نہ کسی مہلک مرض میں ضرور مبتلا ہوئے ہیں اور اکثر تو پاگل اور مجنون ہوکر مرے ہیں۔ روافض نے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق بہت زیادہ غلط بیانیاں اور بہتان سے کام لیا ہے۔ اور یہاں پر اب تک جو کچھ بھی ہم نے ذکر کیا وہ کافی ہے۔
چوتھی صدی ہجری کے قریب حکومت بنی بویہ کے رافضی اس سلسلے میں بہت زیادہ آگے بڑھے، بغداد میں اور اس کے ارد گرد بازاروں میں عاشوراء کے دن ڈھول پیٹے گئے، سڑکوں اور راستوں پر راکھ اور مٹیاں پھینکی گئیں، دکانوں پر ٹاٹ اٹکائے گئے۔ لوگوں نےغم و ماتم کا اظہار کیا بہت سے لوگوں نے اس رات پانی پینا ترک کیا تاکہ حضرت حسین رضی ا للہ عنہ کی موافقت ہو کیوں کہ آپ پیاسے شہید کئے گئے تھے۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ مزید براں عورتیں بے پردہ، اپنے چہروں کو کھولے ہوئے، نوحہ وماتم کرتی ہوئی اپنے چہرے اور سینوں کو پیٹتی ہوئی ننگے پیر بازاروں میں نکلتی تھیں۔
اس کے علاوہ اور بہت سی بری بدعتیں، خرافاتیں اور بدتمیزیاں ایجاد کی گئیں جس سے ان کا مقصد دولت بنی امیہ کو بدنام کرنا تھا۔ کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ انہیں کے عہد حکومت میں شہید کئے گئے تھے۔
اس کے برعکس شام کے ناصبیوں نے یوم عاشوراء کو رافضیوں کی مخالفت میں اچھے سے اچھے قسم کا کھانا پکوایا، نہانے دھونے کا اہتمام کیا، خوشبو و عطر کا استعمال کیا، اچھے سے اچھا کپڑا پہنا اور اس دن کو یوم عید قرار دیا اور اس دن طرح طرح کے کھانوں کا انتظام کیا جس سے ان کا مقصد رافضیہ کی مخالفت اور دشمنی تھی۔ حالانکہ یہ بھی بالکل غلط ہے۔ کچھ لوگوں نے آپ کے قتل کی یہ تاویل کی کہ آپ مسلمانوں کے بیچ پھوٹ ڈالنے آئے تھے جب کہ اس وقت مسلمان ایک امام کی بیعت پر متفق تھے کیوں کہ ایسے کام سے ہر مسلمان کو منع کیا گیا ہے جیسا کہ مسلم شریف میں ہے، حالانکہ اگر کچھ نادان لوگوں نے یہ تاویل کی بھی تو ان کے لئے کسی بھی صورت میں یہ جائز نہیں تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرتے بلکہ ان کے اوپر واجب تھا کہ جن تین باتوں کا مطالبہ ان سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اسے مان لیتے، اسی لئے تمام اگلے پچھلے ائمہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے قتل کو ناپسند کیا۔ ہاں ! کوفہ کے کچھ ملعون لوگ تھے جنہیں اس سے خوشی حاصل ہوئی ہے اور وہ اکثر وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو خط و کتابت کرکے بلایا تھا تاکہ اپنے گندے مقاصد اور غلط خواہشات تک رسائی حاصل کریں، اسی لئے جب عبید اللہ بن زیاد کو ان کا مقصد معلوم ہوا کہ وہ کچھ دنیاوی مال و متاع چاہتے تھے تو انہیں دے کر ان کا مقصد پورا کیا اور ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو لالچ دلا کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے انہیں روکا نتیجۃ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر ہٹ گئے اور پھر آپ کو شہید کر دیا۔
امام حسین کی شہادت پر غمگینی مسلمانوں کا حق ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے سردار ہیں، علماء صحابہ میں سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپ کی سب سے پیاری اور افضل بیٹی کے صاحبزادے ہیں لیکن کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ان خرافات کو جائز سمجھے جو روافض کرتے ہیں جیسے چیخ وپکار اور رونا چلانا اور شاید یہ سب ریا و نمود ہے کیونکہ ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ جو ان سے افضل و بہتر تھے انہیں شہید کیا گیا لیکن ان کے شہادت کے دن کو یوم ماتم نہیں منایا گیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت جمعہ سترہ رمضان المبارک سن 40 ہجری ہے جب کہ آپ صبح کی نماز کے لئے جارہے تھے۔
اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جو اہل السنت و الجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہیں، بدبختوں نے انہیں اپنے ہی گھر میں محصور کر کے ایام تشریق کے موقعہ پر ان کا کھانا پانی بند کرکے بھیڑ بکری کی طرح ذبح کر ڈالا لیکن لوگوں نے ان کے یوم شہادت کو یوم ماتم نہیں ٹھہرایا۔ اس سے بھی آگے دیکھیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ان تمام سے افضل تھے نماز کی حالت میں قرآن پڑھتے ہوئے انہیں شہید کیا گیا لیکن ان کے بھی یوم شہادت کو یوم ماتم نہیں بنایا گیا، ا سی طرح اس امت کے صدیق جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی افضل تھے لیکن لوگوں نے ان کے یوم وفات کو رونے اور سینہ کوبی کا دن نہ سمجھا۔ حتی کہ اگلے پچھلے مخلوقات کے سردار کو بھی اللہ تعالی نے دوسرے انبیاء کی طرح اس دنیا سے اٹھا لیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات کو بھی کسی نے یوم ماتم نہ قرار دیا جیسا کہ ان جاہلوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت کو بنایا ہے اور نہ ہی کسی نے ان خرافات مثلا سورج کا گہن میں آجانا وغیرہ کا تذکرہ کسی کی شہادت یا وفات کے موقعہ پر کیا ہے۔
اس دن کا سب سے اچھا کام۔
سب سے بہتر کام جو اس قسم کی کسی مصائب اور یوم شہادت سے متعلق کیا جائے وہ یہ ہوسکتا ہے۔ حضرت علی بن حسین زین العابدین اپنے نانا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
" ما من مسلم یصاب بمصیبۃ فیتذکرھا و ان تقام عہدھا فیتحدث لھااسترجاعا الا اعطاہ اللہ من الاجر مثل یوم اصیب منھا
یعنی کسی مسلمان کو اگر کسی مصیبت پہونچتی ہے اور مدت گزر جانے کے بعد بھی اسے یاد کرتا ہے اور یاد کرکے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسے اتنا ہی اجر وثواب دیتا ہے جتنا کہ مصیبت پہونچنے کے دن دیا تھا۔
اللہ تعالی صحیح فہم عطا فرمائیں۔ آمین