اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریقہ اور صراط مستقیم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ
اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریقہ اور صراط مستقیم
ضبط وترتیب:مفتی شبیر احمد
خطبہ مسنونہ کےبعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کریم ذات ہے۔ جو چیز اپنے بندوں کو عطا کرنا چاہتے ہیں اس کا مضمون بھی عطا فرمادیتے ہیں کہ یہ چیزان الفاظ کے ساتھ مانگی جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نہ دینا چاہتے تو مانگنے کا طریقہ کیوں سکھلاتے ؟ عطا فرمانا چاہتے ہیں تبھی تو مانگنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔
علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ اللہ نے کریم کے چار معانی بیان کئے ہیں :
1: ’’الذی یعطی بدون الاستحقاق والمنۃ‘‘
مستحق کو دینا کریمی نہیں بلکہ غیر مستحق کو دینا شان کریمی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے انعام الباری میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں جب میں چھوٹا تھا تو ہمارے گھر کے باہر ایک مانگنے والا آیا۔ مجھے والد صاحب نے فرمایا کہ یہ ۱۰۰ روپے جا کر اس کو دے دو۔ میں نے کہا اباجان!یہ تو مستحق نہیں ہے، اچھی صحت والا ہے۔ ابا جی نے فرمایا اگر استحقاق کی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ ہمیں ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتے، ہم ان چیزوں کے مستحق نہیں جو اللہ تعالیٰ ہمیں دیتے ہیں۔
2: ’’ الذی یتفضل علینا بدون مسئلۃ ولا وسیلۃ ‘‘
جو بن مانگے بھی دے اور بن وسیلہ بھی دے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وسیلہ نہ کرے تب بھی دیتا ہے اور اگر وسیلہ کرے تو اللہ تعالیٰ جلدی دیتا ہے۔ اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ وسیلہ کرسکتے ہیں۔
3: ’’الذی یتفضل علینا فوق مانتمنیٰ بہ‘‘
جس چیز کی ہماری تمناوسوچ بھی نہ ہو وہ بھی دے دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر آگ لینے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی دے دی۔ان کو اس کی تمنا وسوچ بھی نہ تھی۔
4: ’’الذی یتفضل علینا ولا یخاف نفاد ماعندہ ‘‘
وہ عطا تو کرے مگر اس کو اپنے خزانے میں کمی کا خدشہ نہ ہو۔ اور یہ مانگنے کا مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں سکھایا ہے یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‘‘ہمیں سیدھی راہ پر چلا۔
اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے:
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ،
اے اللہ !ہمیں حق بھی دکھا اور حق کا حق ہونا بھی دکھا اور باطل بھی دکھا اور باطل کا باطل ہونا بھی ہم پر واضح فرما۔
ایک بات یاد رکھیں کہ صرف حق کا حق معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ اس کو مان بھی لے۔ بعض اوقات بندہ حق جان تو لیتا ہے مگر ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے
۔ وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا
‘‘
ان کافروں کا یقین تو تھا مگر ضد وعداوت کی وجہ سے مانتے پھر نہ تھے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ . صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔
اے اللہ! صراط مستقیم پر چلا یعنی ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تونے انعام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ’’ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‘‘ کے بعد ’’ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ‘‘کہا نہ کہ صراط القرآن والحدیث ،یہ ایسی بات ہے جو ہر کسی کو سمجھ آتی ہے۔
اب جن پر انعام کیا وہ کون ہے؟ تو آگے چل کر ان کا ذکر بھی فرما دیا:
أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ،
یعنی انبیا٫ کرام،صدیقین ،شہدا٫ ، صالحین سارے کے سارے انعام یافتہ ہیں۔
’’نبی‘‘ کون ہے؟ نبی وہ ہوتا ہے جس میں چار صفات پائی جاتی ہیں۔
(۱)انسان ہو(۲)معصوم عن الخطا ہو(۳)مبعوث من اللہ ہو(۴)مفروض الاتباع ہو
’’صدیق‘‘ کسے کہتے ہیں؟علامہ آلوسی ؒنے اپنی معرکۃ الارا٫ تفسیر ’’ روح المعانی ‘‘میں صدیق کی تین تعریفات لکھی ہیں۔
(۱)الذی لایخالف قالہ حالہ’’جس کا ظاہر وباطن ایک جیسا ہو‘‘
(۲)
الذی لایتغیر باطنہ من ظاہرہ
ٖ’’جس کا اندر باہر کے ماحول سے متاثر نہ ہوتا ہو‘‘جیسا دیس ویسا بھیس والی بات نہ ہو۔ مثلاًحضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ایران کے ساتھ جنگ کے دوران محاذپر تھے۔ مذاکرات ہورہے تھے۔ جب کھانا لگےتو کھانے کے دوران حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لقمہ گرا۔ انہوں نے لقمہ اٹھا کر صاف کرکے کھا لیا۔ اپنے کچھ ساتھیوں نے کہا حضرت کیا کررہے ہیں یہ لوگ کی کہیں گے ؟تو حضرت حذیفہ ؓ نے کیا ہی تاریخی جواب دیا جوآب زرسے لکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا کہ :
أاترک سنۃ حبیبی لہؤلاء الحمقاء
‘‘ کہ ان بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دوں؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔
لوگ سمجھیں مجھے محروم وقار وتمکین
مگر وہ نہ سمجھے کہ میری بزم کے قابل نہ رہا
الذی یبذل الکونین فی رضائ محبوبہ.
جو دونوں جہاں اپنے محبوب پر وار دے
شیخ العرب والعجم حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت فیوضہم سے ایک عرب نے پوچھا حضرت!محبت میں دنیا فنا کرنا ،یہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن آخرت کیسے فنا کرے؟تو حضرت نے جواب دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیک عمل کرو تو وہ اللہ کی رضا کے لئے کرو جنت کے لئے نہ کرو۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے جنت کو اللہ کی محبت پر وار دیا۔
’’والشہدا‘‘ شہیدوہ ہے جو اللہ کی محبت میں جان دے۔جب اس نے جان دی تو اللہ تعالیٰ نے اسے ابدی حیات دے دی۔
’’والصالحین‘‘ یعنی اولیا٫۔ ولی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی سلامت طبع عطا کرے کہ وہ گناہوں سے نفرت کرے اور جب گناہ ہو تو فوراًتوبہ کرے۔ حقیقی مؤمن یہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مؤمن کون ہے ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جب تجھے تیرا گناہ برا لگے ،اور تیری نیکی اچھی لگے سمجھ لے کہ تو مؤمن ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مقدس ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔