شرعی پردہ کا اہتمام بھی کرو ں گی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شرعی پردہ کا اہتمام بھی کرو ں گی !
اہلیہ مفتی شبیر احمد،سرگودھا
بیل کی زور دار آواز سے وہ بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ آنکھیں مسلتے ہو ئے سامنے لگے کلاک کی طرف دیکھا،صبح کے دس بج چکے تھے اور سورج کی کر نیں رو شن دان سے چھن چھن کر کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔
’’اے خدا یا !کس نے مجھے ڈسٹرب کیا ہے؟ ‘‘وہ غصے سے بڑ بڑا ئی۔
نیند پوری نہ ہو نے کی وجہ سے اس کا سر بو جھل ہو رہا تھا ،اسی کشمکش میں تھی کہ اچانک بیل ایک مرتبہ پھر چیخ اٹھی۔ جلدی سے فریش ہو کر اس نے گیٹ کھو لا۔ سامنے سیا ہ برقعہ میں ملبوس خاتون کھڑی تھیں، جس کی صرف آ نکھیں ظا ہر تھیں ،ہا تھ پا ؤں سمیت تمام جسم مستور تھا۔
’’السلام علیکم !‘‘ نووارد خا تو ن نے پہل کرتے ہو ئے مؤدبا نہ لہجہ میں کہا۔
’’جی ......وعلیکم السلام!معاف کیجئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ گہری نظر سے جا ئزہ لیتے ہوئے اس نے معذرت خواہانہ لہجہ میں جواب دیا۔
’’اوہو!آپ نے نہیں پہچانا مجھے؟میں سدرہ ہو ں آپ کی بہتر ین دوست۔ ‘‘مہمان خا تو ن کا لہجہ بدستورمؤدبانہ تھا۔
’’کیا !!! آپ واقعی سدرہ ؟ارے !میں عا لم خواب میں تو نہیں ؟‘‘اپنی چہیتی سہیلی کو اچانک سامنے پا کر حیرت ومسرت کی ملی جلی کیفیت میں اس نے ایک سانس میں کئی سوال دا غ ڈا لے۔
’’نہیں جی آپ اسی جیتی جا گتی دنیامیں موجود ہو، اور میں سدرہ ہی ہو ں۔ ‘‘
مہمان خاتون نے مزاحا ً کہا تو دونوں بے اختیا ر کھل کھلا اٹھیں۔
کرن اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس وجہ اس کا ہر نا زونخرہ برداشت کر لیا جا تا۔ فیش کی دلدادہ اور میک اپ کی شوقین تھی۔ گھر میں راحت وآرا م کے تمام اسباب موجود تھے۔ اسی لئے اس کی ہر فر ما ئش کو پورا کر نا والدین اپنا فرض سمجھتے۔ گھر میں رو شن خیالی کا را ج تھا۔آزادی را ئے کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ایک من ما نی کی زند گی گذار رہا تھا،صوم صلوٰۃ کی پا بندی تھی نہ شرعی پا بندی کا اہتمام ، بلکہ ان کو تو نگاہ عیب سے دیکھا جا تا تھا اور کا لج لائف میں تو کرن کی آزاد خیالی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اسی طرح زند گی رواں دواں تھی۔تعلیم مکمل ہو ئی تو وا لدین نے منا سب جگہ رشتہ تلاش کرکے نہایت دھوم دھا م کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا۔ ہزاروں کے اخراجات صرف ویڈیو، میوزک سسٹم اور آتش با زی کے تھے۔ ڈنر اور جہیزکا تو پوچھنا ہی کیا !! مختلف انواع واقسام کی ڈشیں اور لا کھو ں کا سامان ! الغرض پا نی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ حسن اتفاق سے شوہر نامدار پرو فیسر تھے اور رو شن خیالی میں دو قدم اس سے آ گے ....
سدرہ اور کرن کی شناسائی ایک تقریب میں ہو ئی تھی جو رفتہ رفتہ گہری دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ آج پورے دس سال بعد دونوں ایک دوسرے سے مل رہی تھیں۔ دوران گفتگو سدرہ کی یہ با ت سن کر تو وہ پھولے نہ سمائی تھی کہ ’’ایک ہفتہ بعد میری رخصتی ہے جس میں آپ کی شرکت پھو ل میں خوشبو کی طرح ضروری ہے۔ ‘‘سدرہ سے ملاقات ...... پھر شادی میں شرکت ......واقعی کرن کی خو شی قابل دید تھی۔
سدرہ کا تعلق ایک دین دار گھرا نے سے تھا۔ غضب کی ذہین تھی، قر آ ن کر یم حفظ کر کے عا لمہ فا ضلہ کا کورس بھی مکمل کیا تھا۔ اللہ تعا لیٰ نے حسن صورت وسیرت دونوں سے نوازا تھا۔ البتہ حسن اخلا ق اور سلیقہ مندی اس کی نمایا ں خصوصیات تھیں ،اور ایسا کیو ں نہ ہو تا کہ والدین نے اس کی تر بیت ہی ایسے خطوط پر کی تھی جو بچوں کو کند ن بنا دیتے ہیں۔ بولنا شروع کیا تو’’ کلمہ طیبہ ‘‘کو ورد زبان بنا دیا اور پا نچ برس کی عمر میں کھا نے پینے سونے ،جاگنے کی مسنون دعائیں اس کو از بر کرادی تھیں۔ گھر میں صوم وصلوٰۃ کی خو ب پا بندی اور شرعی پردہ کا زبر دست اہتمام تھا۔ اس وجہ سے بڑے نامور قسم کے مالدارو ں سے اعرا ض کرتے ہوئے ایک متقی عالم دین سے اس کا رشتہ طے پایا اور آج اس کی رخصتی کا دن تھا !
’’یہ کیسی شادی ہے ؟ جس میں میوزک کی سریلی دھن ہے نہ آتش با زی کا مظا ہرہ .. حد تو یہ ہے کہ ویڈیو تک کا انتظا م نہیں کیا گیا ....کیا فرق پڑتا ..... زند گی کے ان حسین لمحات کو بطور یاد گار محفو ظ کر لیا جاتا... آخر ایسے لمحات بار با ر تو نہیں آتے۔ ‘‘ تقریب کو رسوم ورواج سے پاک اور لا یعنی تکلفات سے آزاد دیکھ کر کرن کی ذہنی رو شن خیالی کی تر جمان ’’زبان‘‘سے یہ الفا ظ نکلے۔ دوسرے لمحہ اس نے خو د کو سنبھالا اور مہمان خواتین میں گھل مل گئی۔
’’دیکھو کرن!اگر چہ یہ تمام انتظا ما ت تیرے مزاج کے خلاف تھے..... مگر حق یہ ہے کہ تھے بہت شان دار وپرسکون ...یقین جانو ! ادھر آ کر تو ایمان کو نئی تازگی ملی اور رو ح بھی خوشی سر شار ہو گئی.... آخر اس کا راز کیا ہے ؟.....حالا نکہ تقریب بھی سادہ سی تھی..... نہ میوزک کی کا ن پھا ڑتی آواز تھی اور نہ آتش با ری کا شور ....ویڈیو نا م کی کوئی چیز دکھا ئی نہیں دی بے پردگی کا تو تصور ہی نہیں تھا...... اس قدر با پردہ خواتین اتنی زیادہ تعداد میں ؟حالا نکہ لوگ تو انہیں دقیا نوس اور بنیاد پرست کہتے ہیں .....پھر بھی وہ مطمئن تھیں ...کسی کے چہرے پر رنج کے آثا رنہیں تھے ....لگتا ایسا تھا کہ جہیز نام کی چیز کو تو وہ جا نتے ہی نہیں....نماز کس قدر اہتمام سے پڑھی گئی !!! ایک ہم ہیں کہ فرصت میں بھی سجدہ ریز نہیں ہو تے.... آخر اس قدر فرق کیوں ہے ؟یہ اپنی نو عیت کا پہلا واقعہ تھا جس نے کرن کے ذہن میں انقلاب بر پا کر کے اسے بہت کچھ سو چنے پر مجبور کر دیا تھا اور اب وہ ایک کو نے میں بیٹھی ندا مت سے آنسؤوں بہاتی اپنے آپ سے سر گو شی کر رہی تھی۔
’’اس بھرے مجمع میں ایسا کون ہے جو اس راز کو بے نقاب کر کے میرے اندر ہو نے والے انقلا ب میں رو ح پھو نک دے۔ ؟‘‘اس نے سوچتے ہو ئے کہا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک آیئڈیا (Idea) آیا مارے خو شی کے وہ اچھل پڑی۔ اگلے لمحہ وہ خا لہ جان (سدرہ کی امی ) کے سامنے بیٹھی پو ری تو جہ سے سن رہی تھی۔
’’دیکھو بیٹی!‘‘ خالہ جا ن نے با ت شروع کرتے ہو ئے کہا:’’ عقل بھی اس با ت کا تقاضا کر تی ہے کہ ’’شکر المنعم واجب عقلاً ‘ ‘ اپنے محسن کا شکریہ ادا کر نا واجب اور ضروری ہے لیکن ہم اس با ت سے غا فل ہیں... آج ہم اپنی خواہشات پر عمل کرتے ہو ئے من ما نی زندگی گذارنے ، غیر شرعی کامو ں اور رسوم ورواج میں اپنا مال خرچ کر نے میں فخر محسوس کرتے ہیں.... مگر کبھی یہ بھی سوچا کہ ہمارے ان پیسوں سے کتنے اجڑے سہاگ آباد اور کتنی معصوم بہنوں کے ہاتھ پیلے ہو جا تے ؟..اور ہما رے ما ل کے ساتھ کتنے خا ندانوں کی زندگی اور کتنے معصوم بچو ں کی خو شیا ں وا بستہ ہیں ؟...اس بات سے ہم بے خبر کیو ں ہیں؟؟... صرف انہی باتوں پر عمل کیا جا ئے تو معاشرے کی بہت ساری برا ئیو ں کی جڑ کٹ سکتی ہے مگر....‘‘ خالہ جان نے چشمہ درست کرتے ہو ئے کہا۔
’’یہ سب اس وقت ہو گا جب ہمارا تعلق اللہ کے ساتھ مضبوط ہو گا ..ہما رے معاملات صا ف ہو ں گے... اور اللہ کی رضا کی خا طر اپنے او پر کی جا نے والی ملا مت اور طعن وتشنیع کو ہم برداشت کر یں گے.... تب ہمیں اللہ تعا لیٰ عزت ونصرت کے ساتھ ایمان کی حلاوت بھی عطا ء فر ما ئیں گے۔ ‘‘
کرن جویہ تمام با تیں اپنے دل کی تختی پر نقش کر رہی تھیں پر عزم لہجہ میں بولی : ’’آج سے میں بھی تمام رسوم وفیشن کو پھینک کر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگاؤ ں گی اور .....اور ‘ کھانسی کی وجہ سے اس کی آواز حلق میں اٹک گئی۔ ’’....اور شرعی پردہ کا اہتمام بھی کرو ں گی ! ‘‘ ساتھ بیٹھی سدرہ نے اس کاکا ن کھینچتے ہو ئے جو ں ہی جملہ مکمل کیا توتینوں کے قہقہو ں سے کمرہ گو نج اٹھا۔