نماز اہل السنۃ والجماعۃ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط 1
نماز اہل السنۃ والجماعۃ
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اوقات نماز
فجر کا وقت :
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَقْتُ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ مَالَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ۔
(صحیح مسلم ج1ص 223باب اوقات الصلوات الخمس)
ترجمہ: نماز صبح کا وقت صبح صادق سے سورج کے طلوع ہونے تک ہے۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلصَّلٰوۃِ اَوَّلاً وَآخِراً۔۔۔۔۔وَاِنَّ اَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِیْنَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ وَاِنَّ آخِرَ وَقْتِھَا حِیْنَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ۔
(جامع الترمذی ج1 ص 40,39 ابواب الصلوۃ باب نمبر 2 بلا ترجمہ ، مسند احمد ج 7 ص 28 رقم الحدیث 7172)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک نماز کے اوقات کے لئے اول اور آخر ہے۔ فجر کے وقت کی ابتداء طلوع فجر سے ہے اور اس کا آخر وقت طلوع آفتاب تک ہے۔
ظہر کا وقت :
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَقْتُ الظُّھْرِ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُوْلِہٖ مَالَمْ تَحْضُرِالْعَصْرُ
(صحیح مسلم ج 1 ص 223 باب اوقات الصلوات الخمس)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کا وقت اس وقت سے ہے جب سورج ڈھل جائے اور انسان کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو جائے (اور اس وقت باقی رہتا ہے) جب تک کہ عصر کا وقت نہ آجائے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلٰی اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ سَاَلَ اَبَاھُرَیْرُۃَرَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ وَقْتِ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ اَبُوْہُرَیْرَۃَرضی اللہ عنہ اَنَا اُخْبِرُکَ صَلِّ الظُّھْرَ اِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَکَ وَالْعَصْرَ اِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَیْکَ۔
(موطا امام مالک ص 5 ، 6 وقوت الصلوۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن رافع رحمہ اللہ و ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے غلام ہیں۔ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نما ز کے وقت کے متعلق سوال کیا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں، نماز ظہر اس وقت پڑھو جب تمہارا سایہ تمہاری مثل ہو جائے اور عصر اس وقت پڑھو جب تمہارا سایہ تمہارے دو مثل ہو جائے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز ظہر کا وقت تو زوال کے بعد شروع ہو جاتا ہے لیکن نماز مؤخر کرکے پڑھنی چاہئے اور آخری وقت مثلین تک ہے یعنی جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہو جائے۔
عصر کا وقت :
نماز ظہر کا وقت ختم ہوتے ہی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب تک باقی رہتا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃرَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ اَدْرَکَ رَکْعۃ مِّنَ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْعَصْرَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص 82 ، باب من ادرک من الصلاۃ رکعۃ)صحیح مسلم ج 1 ص 221 باب من ادرک رکعۃ من الصلوۃ فقد ادرک تلک الصلوۃ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی اس نے عصر پالی۔
مغرب کا وقت :
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَقْتُ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ مَالَمْ یَغِبِ الشَّفَقُ۔
(صحیح مسلم ج۱ص223 باب اوقات الصلوات الخمس)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہو۔
عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیَ الْمَغْرِبَ اِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ۔
(صحیح مسلم ج1ص 228باب بیان ان اول وقت المغرب عند غروب الشمس،صحیح البخاری ج 1ص79باب وقت المغرب)
ترجمہ: حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب ادا فرماتے جب سورج غروب ہو جاتا اور پردہ میں چھپ جاتا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے :
ثُمَّ اَذَّنَ لِلْعِشَائِ حِیْنَ اُذْھِبَ بَیَاضُ النَّھَارِ وَھُوَالشَّفَقُ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج5ص122رقم الحدیث 6787،مجمع الزوائد للھیثمی ج2 ص42 با ب بیان الوقت، رقم الحدیث 1686)
ترجمہ : پھر عشاء کی اذان کہے جب دن کی سفیدی چلی جائے اور وہ شفق ہے۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث جس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے نماز پڑھانے کا ذکر ہے۔ اس میں ہے :
وَیُصَلِّی الْمَغْرِبَ حِیْنَ تَسْقُطُ الشَّمْسُ وَیُصَلِّی الْعِشَائَ حِیْنَ یَسْوَدُّ الْاُفُقَ۔
(سنن ابی داؤد ج1ص63باب فی المواقیت،صحیح ابن حبان ص492 ذکر البیان بان المصطفی لم یسفر بصلوۃ الغداۃ رقم الحدیث 1494)
ترجمہ : اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہو جاتا اور عشاء اس وقت پڑھتے جب افق سیاہ ہو جاتا۔
فائدہ : مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مغرب کا وقت سورج غروب ہونے سے شروع ہو جاتا ہے اور شفق ابیض (سفیدی) کے ختم ہونے تک رہتا ہے۔
عشاء کا وقت
عشاء کا وقت شفق کے غائب ہونے سے طلوع فجر تک رہتا ہے:
امامت جبرئیل علیہ السلام والی حدیث جس میں یہ الفاظ ہیں:
وَصَلّٰی بِیَ الْعِشَائَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص62 باب فی المواقیت)
ترجمہ: اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھے عشاء کی نماز پڑھائی جب شفق غائب ہوگئی تھی۔
عَنْ عُبَیْدِ بْنِ جُرَیْجٍ اَنَّہٗ قَالَ لِاَبِیْ ھُرَیْرَۃرَضِیَ اللہُ عَنْہُ مَا اِفْرَاطُ صَلٰوۃ الْعِشَائِ؟ قَالَ: طُلُوْعُ الْفَجْرِ۔
(شرح معانی الآثار ج1 ص118 باب مواقیت الصلوۃ)
ترجمہ: حضرت عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عشاء کا آخری وقت کون سا ہے؟ فرمایا طلوع فجر۔
مستحب اوقات
فجر کامستحب وقت :
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدَیْجٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَسْفِرُ وْا بِالْفَجْرِ فَاِنَّہٗ اَعْظَمُ لِلْاَجْرِ۔
(جامع الترمذی ج 1ص40 باب ما جاء فی الاسفار بالفجر ،سنن ابی داؤد ج1 ص67 باب فی وقت الصبح ،سنن النسائی ج 1ص94 باب الاسفار )
ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: فجر خوب اجالا کرکے پڑھا کرو کیونکہ اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔
نوٹ :
امام محدث جمال الدین محمد ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الزیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس مضمون کی احادیث حضرت رافع بن خدیج ،حضرت بلال ، حضرت انس، حضرت قتادہ بن نعمان حضرت ابن مسعود،حضرت ابو ہریرہ اور حضرت حواء الانصاریہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج 1ص304 )
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِبِلاَلٍ؛ اَسْفِرْ بِصَلٰوۃِ الصُّبْحِ حَتّٰی یَرَی الْقَوْمُ مَوَاقِعَ نَبْلِھِمْ۔
(مسند ابی داؤد الطیالسی ج1ص511حدیث 1001 ،المعجم الکبیر للطبرانی ج3 ص151 حدیث4288)
ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا:صبح کی نماز روشنی میں پڑھا کرو یہاں تک کہ لوگ روشنی کی وجہ سے اپنے تیر اندازی کے نشان دیکھ لیں۔
نماز ظہر کا مستحب وقت
گرمیوں میں نماز ظہر کا مسنون وقت :
عَنِ اَبِیْ سعِیْد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَبْرِدُوْابِالظُّھْرِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّمِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ۔
(صحیح البخاری ج 1ص77 باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ اِذَا اشْتَدَّالْحَرُّ فَاَبْرِدُوْا بِالصَّلٰوۃِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّمِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ
(صحیح البخاری ج1 ص77 باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر، سنن ابی داؤد ج1 ص64 باب فی وقت صلوۃ الظہر ،صحیح مسلم ج1 ص224 باب استحباب الابراد بالظہر،سنن النسائی ج1 ص87 الابراد بالظہر۔۔ ،جامع الترمذی ج1 ص40 باب ماجاء فی تاخیرالظہر فی شدۃ الحر۔،سنن ابن ماجہ ج1 ص49 باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھ لیا کرو، کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔ ‘‘
نوٹ:
امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس مضمون (ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے) کی احادیث حضرت ابو سعید ، حضرت ابوذر ، حضرت ابن عمر ، حضرت مغیرہ ، حضرت صفوان، حضرت ابو موسیٰ، حضرت ابن عباس اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔
(جامع الترمذی ج1 ص 40)
سردیوں میں نماز ظہرکا مستحب وقت :
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ الْحَرُّ اَبْرَدَ بِالصَّلٰوۃِ وَاِذَا کَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ۔
(سنن النسائی ج 1ص87باب تعجیل الظہر فی البرد،صحیح البخاری ج 1ص124 باب اذا اشتد الحر یوم الجمعہ: )
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گرمی کے موسم میں نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی ادا فرماتے تھے۔
عصر کا مستحب وقت:
عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَشَدَّ تَعْجِیْلاً لِلظُّھْرِ مِنْکُمْ وَاَنْتُمْ اَشَدُّ تَعْجِیْلاً لِلْعَصْرِمِنْہُ۔
(جا مع الترمذی ج1 ص42 باب ما جاء تاخیر صلوۃ العصر ،مسند احمد ج18ص286 رقم الحدیث26526)
ترجمہ: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے ،فرماتی ہیں:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز تم لوگوں سے جلدی پڑھ لیتے تھے اور تم عصر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جلدی پڑھ لیتے ہو۔ ‘‘

1.

عَنْ عَلِیِّ بْنِ شَیْبَانَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَدِمْنَاعَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدَیْنَۃَ فَکَانَ یُؤَخِّرُالْعَصْرَ مَادَامَتِ الشَّمْسُ بَیْضَائَ نَقِیَّۃً۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص65 باب فی وقت صلوۃ العصر،سنن ابن ماجہ ج1 ص 46کتاب الصلوۃ۔ ابواب مواقیت الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت علی بن شیبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کو مؤخر کرکے پڑھتے تھے جب تک سورج سفید اور صاف رہتا۔

2.

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:۔۔۔ فَاِذَا صَلَّیْتُمُ الْعَصْرَ فَاِنَّہٗ وَقْتٌ اِلٰی اَنْ تَصْفَرَّالشَّمْسُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص222 باب اوقات الصلوات الخمس)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم نمازعصر پڑھو تو اس کا وقت سورج کے زرد ہونے تک ہے۔‘‘
مندرجہ بالا احادیث سے واضح ہے کہ عصر کو مؤخر کر کے پڑھا جائے لیکن اتنا مؤخر بھی نہ ہو کہ سورج زرد ہونے لگے۔
مغرب کا مستحب وقت
غروب آفتاب کے بعد بلا تاخیر ادا کرنا مستحب ہے :

1.

عَنْ سَلْمَۃَرَضِیَ اللہُ عَنْہَاقَالَ کُنَّانُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ اِذَا تَوَرَاتْ بِالْحِجَابِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص79 باب وقت المغرب )
ترجمہ: حضرت سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورج چھپتے ہی مغرب پڑھ لیتے تھے۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

2.

لاَ تَزَالُ اُمَّتِیْ بِخَیْرٍ اَوْ قَالَ عَلیَ الْفِطْرَۃِ مَالَمْ یُؤَخِّرُوْا الْمَغْرِبَ اِلٰی اَنْ تَشْتَبِکَ النُّجُوْمُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص 66 باب فی وقت المغرب ،سنن ابن ماجہ: ج1 ص50 باب وقت صلوۃ المغرب )
ترجمہ: میری امت بھلائی پر رہے گی یا فرمایا فطرت پر رہے گی جب تک وہ لوگ مغرب کو اس وقت تک مؤخر نہیں کریں گے کہ ستارے نکل آئیں۔
عشاء کا مستحب وقت
نماز عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنا مستحب ہے :

1.

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُھُمْ اَنْ یُّؤَخِّرُوْاالْعِشَائَ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ اَوْ نِصْفِہٗ۔
(جامع الترمذی ج1 ص42 باب ماجاء فی تاخیر العشاء الآخرۃ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں حکم دیتا کہ نماز عشاء کو تہائی رات یا نصف رات تک مؤخر کریں۔ ‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:

2.

وَلَا یُبَالِیْ بِتَاخِیْرِالْعِشَائِ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ ثُمَّ قَالَ اِلٰی شَطْرِ اللَّیْلِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص77 باب وقت الظہر عند الزوال)
ترجمہ: عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں پھر فرمایا: نصف رات تک۔
(۔۔۔جاری ہے)