توہم پرستی اور ماہ صفر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
توہم پرستی اور ماہ صفر
مفتی محمد رضوان
آج پھر مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی کمی اور مشرکوں وغیر مذہبوں کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بعض ایسے خیالات پیدا ہو گئے ہیں جن کا دین وشریعت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اس کے نتیجے میں آج بھی زمانہ جا ہلیت کے ساتھ ملتی جلتی مختلف توہم پرستیاں ماہ صفر کے بارے میں پائی جاتی ہیں۔
تیرہ تیزی اور ماہ صفر:
1۔ بعض لوگوں نے اور خصوصا خواتین نے تو اس مہینہ کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا ہے اور اس مہینہ کو اپنے گمان میں تیزی کا مہینہ سمجھ لیا ہے اس کی حتمی اور قطعی وجہ تو معلوم نہیں ہو سکی کہ اس کو تیرہ تیزی کا مہینہ کیوں کہا جا تا ہے؟ ممکن ہے کہ اس کویہ نام اس وجہ سے دیا گیاہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض وفات اس مہینہ میں شروع ہوا وہ مشہور روایت کے مطابق تیرہ دن جاری رہا جس کے بعد آپ کا وصال مبار ک ہوا یہاں سے جہلاء نے شاید یہ سمجھ لیا ہو کہ آپ کے ان تیرہ دنوں میں مرض کی شدت اور تیزی کی وجہ سے یہ مہینہ سب کے حق میں بھاری یا تیز ہو گیا۔ اگر یہ بات ہے تو یہ سراسرجہالت اور توہم پرستی کا شاخسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنا سخت گناہ ہے۔
2۔ بعضوں کا خیال ہے کہ اس مہینے کے ابتدائی تیرہ روز خاص طور پر بہت زیادہ سخت اور تیزیا بھاری ہوتے ہیں اس وجہ سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کی پہلی تاریخ سے لے کر تیرہ تاریخ تک کے دنوں کو خاص طور پرمنحوس سمجھتے ہیں اور بعض جگہ اس مہینہ کی تیرہ تاریخ کو چنے یا گندم ابال کر یا چوری بنا کر تقسیم کرتے ہیں تاکہ بلائیں ٹل جائیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کے ابتدائی ان تیرہ دنوں کےمتعلق اس غلط خیالی کی وجہ سے اس مہینہ کو تیرہ تیزی کا مہینہ کہا گیا ہو یہ بھی شریعت پر زیادتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام چیزوں کی نفی فرمائی۔
ماہ صفر اور جنات کا آسمانوں سے نزول
بعض علاقوں میں مشہور ہے کہ اس مہینے میں لنگڑے لولے اور اندھے جنات آسمان سے اترتے ہیں اور چلنے والوں کو کہتے ہیں کہ بسم اللہ کر کے قدم رکھو کہیں جنات کو تکلیف نہ ہو۔
ماہ صفر اور قرآن خوانی
ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی وجہ سے بعض گھروں میں اس لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جا تا ہے تاکہ اس مہینہ کی بلاؤں اور آفتوں سے نجات رہے مذکورہ بالا نظریہ کی بنیاد پر قرآن خوانی کرنا اپنی ذات میں بھی جائز نہیں کیونکہ مذکورہ نظریہ ہی شرعا باطل ہے اور شریعت نے واضح کر دیا ہے کہ اس مہینہ میں نہ کوئی نحوست ہے اور نہ کوئی بلا ہے اور نہ ہی کوئی جنات کا آسمان سے نزول ہو تا ہے۔
ماہ صفر اور شادی بیاہ
بعض لوگ صفر کے مہینہ میں شادی بیاہ اور دوسری خوشی کی تقریبات منعقد کرنے اور اہم کاموں کا افتتاح اور ابتدا ءکرنے سے پرہیز کرتے ہیں کہا جا تا ہے کہ صفر میں کی ہو ئی شادی صِفر یعنی ناکام اور نامراد ہو گی چنانچہ صفر کا مہینہ گزرنے کا انتظا ر کیا جا تا ہے اور پھر ربیع الاول کے مہینہ سے اپنی تقریبات شروع کر دیتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ صفر کے مہینے کو نامبارک اور منحوس سمجھا جاتا ہے یہ بھی باطل اور توہم پرستی میں داخل ہے۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صفر کے مہینہ میں خوشی کی کوئی تقریب انجام دینے سے بابرکت نہیں ہو گا یا اچھے نتائج برآمد نہیں ہو ں گے اور اس میں بہت سے دین دار اور مذہبی لوگ بھی مبتلا ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی اس مہینہ میں شادی کرے تو اسے بہت معیوب سمجھا جا تا ہے اور طرح طرح کی باتیں بنا ئیں جاتی ہیں حالانکہ یہ سوچ غلط ہے لہذا اس خیال کو دل ودماغ سے نکالانا چاہیے شریعت میں کہیں صفر کے مہینہ میں نکاح سے منع نہیں کیا گیا کیونکہ نکاح تو ایک اہم عبادت ہے اس سے کیسے منع کیا جا سکتا ہے؟ حدیث شریف میں ہے کہ بندہ نکاح کر کے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے۔
(مشکوۃ بحوالہ بیہقی)
ایک حدیث میں ہے کہ تم میں جو بھی حقوق زوجیت ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ نکاح ضرور کرے کیونکہ اس نے نگاہ میں احتیاط آتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہو تی ہے۔
(بخاری ،مسلم )
ایک روایت میں یوں ہے کہ نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا تو وہ مجھ میں سے نہیں۔
(ابن ماجہ )
اور ایک حدیث میں نکاح کو تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت اور طریقہ بتلایا گیا ہے
( ترمذی کتاب الطب )
لہذا اس مہینہ میں بھی نکاح کی عبادت کو انجام دینا چاہیے تا کہ ایک غلط عقیدہ کی تردید ہو جس میں اچھے کام کی عملی تبلیغ بھی ہے جس کا ثواب بہت زیادہ ہے اور جو لوگ ایسے وقت میں جب اس مہینہ میں نکاح کے رواج کو تقریبا چھوڑا جا چکا ہے اس کا ر خیر کی بنیاد ڈالیں گے اور ایسے وقت جو لوگ صفر میں نکاح کر کے صفر میں نکاح کے جائز اور عبادت ہونے کے مردہ طریقہ کو زندہ کریں گے وہ بہت بڑا اجر پانے کے مستحق ہو ں گے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جس نے میرے طریقہ پر عمل کیا میری امت کے فساد (یعنی جہالت اور بدعات فسق وفجور ) کے غلبہ کے وقت اس کو سو شہیدوں کے برابر اجر ملے گا۔ (مشکوۃ )
ایک حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے اسلام میں اچھے طریقہ کی بنیاد ڈالی (اور اچھا طریقہ جاری کیا جس کی بعد میں دوسروں نے پیروی کی ) تو اس شخص کو اس عمل کا ثواب حاصل ہو گا لیکن ان اعمال کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گے اور جس شخص نے کسی برے طریقہ کی بنیاد ڈالی (برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اس برے طریقہ کا وبال ہو گا اور جو لوگ اس کی اتباع میں ) اس پر عمل کریں گے ان کا وبال بھی ان پر ہو گا لیکن ان دوسروں کے وبال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
(مسلم ،ترمذی)
ایک لطیفہ
ایک بادشاہ اپنے غلام سے کہہ رکھا تھا کہ تو صبح سویرے مجھے اپنی صورت نہ دکھا یا کر اس لیے کہ تو منحوس ہے ورنہ تیری نحوست کا مجھ پر شام تک اثر رہے گا ایک دن اتفاق سے وہ غلام صبح سویرے کسی کام سے بادشاہ کے پا س چلا گیا اور بادشاہ نے اس کو تنبیہ کی اور حکم دیا کہ اس کو شام تک کوڑے لگائے جائیں۔
شام ہونے پر بادشاہ نے کہا آئندہ صبح سویرے مجھے اپنا منہ مت دکھا نا اس لیے کہ تو منحوس ہے۔ غلام نے کہا بادشاہ سلامت منحوس میں نہیں ہوں بلکہ آپ ہیں اس لیے کہ آج صبح میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تھا اور آپ نے میرا چہرہ دیکھا تھا آپ کا چہرہ دیکھنے سے مجھے یہ صلہ ملا کہ شام تک کوڑے لگتے رہے اور میرا بابرکت چہرہ دیکھنے کے بعد آپ صبح سے شام تک صحیح سلامت رہے۔