اسلامی تمدن کی فتح

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلامی تمدن کی فتح
مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ
اسلام کو بالکل ابتداء ہی میں ایک ایسے انوکھے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جس سے ادیان ومذاہب کی تاریخ میں کسی مذہب کو واسطہ نہیں پڑا۔
جزیرۃ العرب میں اسلام کے بعد جو دینی ، اخلاقی، معاشرتی اور عقائد کی تعلیمات لے کر آیا تھا، یہ چیلنج اس طرح سامنے آیا کہ اسلام کو دو ایسے ترقی یافتہ تمدنوں سے واسطہ پڑا، جس سے بڑھ کر کسی دوسرے تمدن کا تجربہ انسانی اور تہذیبی تاریخ میں نہیں کیا گیا تھا یہ دو تمدن رومی اور ایرانی تمدن تھے یہ تمدن تہذیب، آرٹ، آزادی ، نکتہ رسی، تخیل کی بلندی، انسانی زندگی کو سنوارنے اور اس کو منظم کرنے، راحت وآسائش کے سامان کی فراہمی اور فراوانی میں کئی منزلیں طے کر چکے تھے اور ترقی کے آخری درجہ تک پہنچ گئے تھے، یہ تمدن اپنی تراش خراش میں بڑی رعنائی رکھتے تھے اور بہت حساس تھے۔
رومی وایرانی تمدن اور اس کے اثرات:
رومیوں اور ایرانیوں کو کتابوں سے پٹے ہوئے کتب خانوں، عظیم الشان آلات ووسائل ، راحت اور زندگی گزارنے کے مختلف طرزوانداز، خانہ آبادی کے طوروطریق پر ناز تھا اور اس ساری چیزوں سے ان کا تمدن مالامال تھا۔
ان کے برخلاف عرب اپنے ابتدائی دور میں یا دوسرے الفاظ میں تہذیبی طفولیت کے دور میں تھے در حقیقت یہ تجربہ جس سے اسلام کو گزرنا پڑا، بڑا نازک تجربہ تھا، اسلام یقینا آسمانی تعلیمات، عقائد اور اخلاق عالیہ اور آدابِ حسنہ سے آراستہ تھا، لیکن تہذیب اور معاشرہ کی قیادت کی باگ ڈوررومیوں اور ایرانیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس لیے اس کا امکان تھا اور سارے قرائن بھی بتا رہے تھے کہ یہ عرب اور مسلمان جنہوں نے ایک تنگ وتاریک ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور جن کے پاس بہت محدود وسائل ہیں جن کی زمین دولت کے سرچشموں سے خالی ہے اور جو تمدن کے وسائل و ذرائع سے بالکل محروم ہیں۔
جن کی زندگی خیموں اور معمولی مکانات میں گزرتی ہے۔ اونٹوں اور گھوڑوں پر جن کے مواصلات کا دارومدار ہے جن کی زندگی خانہ بدوش زندگی ہے۔ امکان اسی کا تھاکہ یہ امت اسلامیہ روم وفارس کے تجربات کے سامنے جھک جائے گی اور اس بات کے قوی قرائن موجود تھے کہ جو امت ابھی اپنا دور طفولیت گزار رہی ہے وہ رومی اور ایرانی تہذیب کو اپنی تمام خرابیوں کے ساتھ قبول کرلے گی کیونکہ جب کسی بھی چیز کو مکمل طریقہ پر اختیار کیا جاتاہے تو اس کی خصوصیات ولوازمات سے دست بردار نہیں ہوا جا سکتا۔عقل یہی کہتی تھی اور توقع اسی بات کی تھی اس سے پہلے مسیحیت کا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔
رومی تمدن کے آگے مسیحت کی سپراندازی:
مسیحت ایک عدل و انصاف پر مبنی اور فطری مذہب تھا جس کو حضرت عیسی علیہ السلام لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے لیکن یہی مذہب جب یورپ میں داخل ہواتو محفوظ نہ رہ سکا اور اس کا ڈھانچہ بدل گیا کیونکہ اس کے پاس تہذیب نہ تھی اس کے پاس ایسی جچی تلی اور مفصل تعلیمات نہیں تھیں جو زندگی میں رہنمائی کر سکیں۔ اساتذہ ومعلمین کو صحیح راہ دکھا سکیں، مفکرین اور حکام کی مدد کر سکیں، یہ مذہب یہودیوں کی قانونی تعلیمات پر مبنی ایک شریعت کا نام تھا، انصاف، انسانی مساوات، انسانیت، کمزوروں اور ملوموں پر رحم شفقت اس کا شیوہ تھا، یہودیوں کی سنگدلی اور ظلم زیادتی پروہ سخت تنقید کرتا تھا اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اس مذہب اور اس کے پیرئوں نےکبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ وہ کسی خاص تمدن کے حامل ہیں کسی خاص تہذیب کے داعی اور علمبردار ہیں۔ مسیحیت جب یورپ میں داخل ہوئی جہاں پہلے یونانی پھر رومی تہذیب ترقی کے بام عروج تک پہنچ چکی تھی، جہاں عقل انسانی نے فلسفہ ادب اور علوم ریاضی میں کمال حاصل کیا تھا،مسیحت جیسا سادہ مذہب وہاں داخل ہوتواس کو بالکل ایک نئی صورت کا سامنا کرنا پڑا جس کی کوئی توقع نہ تھی۔
نتیجہ یہ ہواکہ مسیحیت نے یورپی تمدن سے جس کی قیامت رومیوں کے ساتھ تھی، صلح کر لی، یا دوسرے الفاظ میں اس کے سامنے سپر ڈال دی، اس رومی تمدن کی اساس گزشتہ یونانی تہذیب پر تھی، مسیحیت نے جب اس تمدن سے رگڑ کھائی تو اس کے سامنے جھک گئی اور اس کے سانچہ میں ڈھل گئی اور مکمل طور پر شکست کھا گئی اس کے اندر مقابلہ کرنے اور سنبھلنے کی قوت نہ تھی وہ خود اعتمادی زندگی اور طاقت ونشاط سے بھر پور چیلنج کے سامنے ٹھہر نہ سکی نتیجہ یہ نکلاکہ مسیحیت ،محدود تعلیمات؛ محدود قوانین ،انسانی مساوات ،رافت ورحمت ،عدل وانصاف توحید باری تعالی اور وہ بھی ایک مختصر اور محدود زمانہ تک سے آگے نہ بڑھ سکی۔ معاشرتی نظام ،عائلی زندگی، ادب و فن اور بہت سی اخلاقی اور انسانی قدروں میں وہ ترقی یافتہ رومی تمدن کے سراسر زیر اثر ہوگئی۔
یہ واقعہ اس لیے پیش آیا کہ مسیحی مذہب اس قوت سے محروم تھا جس کے ذریعہ وہ چیلنج کا مقابلہ کرتا ، رومی کی چمک دمک سے خیرہ نہ ہوتا۔
تاتاری اور اسلامی تمدن:
دوسرا تجربہ انسانی تاریخ میں تاتاریوں کا تجربہ ہے، آپ الحمدللہ تعلیم یافتہ اور گریجویٹ خواتین ہیں، آپ جانتی ہیں کہ درندہ صفت منگولین یعنی تاریوں نے خود عالم اسلام پر ٹڈی دل کی طرح حملہ کیا وہ اس سیل رواں کی طرح ٹوٹ پڑے جس کا روکنا اور مقابلہ کرنا آسان نہ تھا، انہوں نے جب عالم اسلام کو اپنا نشانہ بنایا تو وہ طاقت سے بھر پور تھے، ان کے پاس ہزاروں سال کی محفوظ طاقت تھی، جس کا انہوں نے استعمال نہیں کیا تھا ان کی طاقت سے ٹکر لینا آسان نہ تھا انہوں نےعالم اسلام پر حملہ کرکے خون کی ندیاں بہادیں اور عالم اسلام کی شان وشوکت کا چراغ گل کردیا اسلام اور مسلمانوں کی بے حرمتی کی، مسلمان اس طاقتور اور بلا خیز سیلاب کے سامنے پیچھے ہٹے رہے ان کی حکومتیں ایک ایک کرکے شکست کھاتی رہیں ا ور مسلمانوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ ان کے اندر تاتاریوں کے مقابلہ کے طاقت نہیں نیز تاتاریوں کو کوئی طاقت پھیر نہیں سکتی کسی میں دم نہیں کہ ان کو زیر کردے۔
یہاں تک یہ بات ضرب المثل سی بن گئی اگر یہ کہا جائے کہ تاتاری فلاں معرکہ میں شکست کھا گئے توکہہ دینا کہ جھوٹ ہے تاتاری اور شکست کھاجائیں، یہ خون خوار درندے اور پسپا ہوجائیں ،نا ممکن ہےعقل اس کو قبول نہیں کرتی۔ تاتاریوں کا رعب پورے عالم اسلام پر چھا گیا تھا ایسا ہولناک خوف ورعب جس کا شاید کبھی کسی انسان کو تجربہ نہ ہوا ہو سب ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی گرد تھے ان کے رحم وکرم کے منتظر تھے لیکن آخری نتیجہ کیارہا۔
اسلامی تمدن کی فتح:
نتیجہ یہ ہواکہ وہ اسلام جس کا بظاہر اس کے سامنے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا جو ان کے مقابلہ میں پسپا ہوگیا تھا اس نے اس فاتحین کو فتح کر لیا اس نے تلوار کی نوک سے نہیں فتح کیا ، کیونکہ اس کی تلوار کند ہوچکی تھی، مسلمانوں کی تلوار نیام میں تھی وہ مایوس ہوچکے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تلوار کچھ نہ کرسکے گی اس کی دھار تاتار کے مقابلہ میں بیکار ہوچکی تھی وہ کیا چیز تھی ؟ جس نے تاتار کو فتح کیا وہ دین کا اعجاز تھا جو دائمی ،ابدی ،غالب و فاتح ،حسین و خوشنما، دلکش و دلنواز دین ہے اور پھر آگے بڑھ کر اسلامی تمدن نے ان کو اپنا مفتوح بنا لیا کیونکہ تاتاری تمدن سے عادی تھی وہ انسانوں کی شکل میں درندے یا درندہ نما تھے دنیا سے کٹی ہوئی ایک تنگ وادی اسے اس کشادہ وسیع دنیا میں آئے تھے جس نے ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرلیں ان کو ایک تمدن کی ضرورت تھی صحرا کی زندگی میں ان کو تمدن سے مس نہ ہوا تھا وہ نیا تمدن اختیار کرنے پر مجبور تھے کیونکہ کوئی قوم بھی تمدن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی نئی زندگی کے لیے مسائل تھے کھانے ،پینے، پہننےاور اوڑھنے معاشرت اور مہمان نوازی کے نئے طریقے تھے گھروں کی تعمیر کس طرز پر ہو؟ رہائش گاہوں کو آرام دہ، صحت بخش، نشاط وسرور سے بھر پور کس طرح بنایا جائے ؟یہ سب مسائل تھے اس سے پہلے وہ نہایت سادی بدویانہ زندگی گزارتے تھے اب وہ ایک نئے تمدن کے سامنے تھے اس وسیع اسلامی تمدن سے ان کا معاملہ تھا جو مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ اس تمدن نے علوم کو ترقی دی تھی اور صنعتوں کی ایجاد کی تھی عقل انسانی کو سنوار اتھا لوگوں کو ذوق لطیف عطا کیا تھا ان کے لیے ایک نئی حیرت انگیز زندگی پیدا کردی تھی اس تمدن نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کرلیا۔
اور ان کو اسلا می تہذیب وتمدن کی تقلید کرنے پر مجبور کردیا۔ وہ اسلام کے قلب میں پگھل گئے اور اسلامی زندگی میں گھل گئے، انہوں نے اسلام کا بغور مطالعہ کیا اور قبول اسلام سے مشرف ہوئے تو دراصل اسلامی تمدن ان کے اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنا۔
مسلمانوں نے اسلامی تاریخ کے آغاز کے موقع پر پہلی صدی ہجری کے بالکل ابتداء میں بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اور خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب شام و مصر اور عراق و ایران کو فتح کیا تو نہایت ترقی یافتہ دوتمدن ان کے سامنے تھے، جن کی مادی ترقی کا تصور بھی اس وقت کے مسلمانوں کے لیے مشکل تھا، یہاں تک کہ تاریخ کی کتابوں میں ذکر کیا گیاہے کہ جب پہلی مرتبہ انہوں نے چپاتیاں دیکھی تو یہ سمجھے کہ ہاتھ پونچھنے کے لیے دستی رومال ہیں کھانےکے بعد جب ہاتھ پوچھنے کے لیے ان باریک چپاتیوں کو اٹھایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو روٹی ہے۔ غرض یہ کہ دینی فتوحات کا جب دور شروع ہوا تو ان کو ایک نئے ترقی یافتہ اور دلکش تمدن سے سابقہ پڑا، جس سے وہ بالکل ناواقف تھے۔
لیکن کیا بات تھی جس نے ان کو اس تہذیب وتمدن میں گھل جانے اور پگھل جانے سے محفوظ رکھا وہ بات یہ تھی کہ انہوں نے اس تمدن کو نہ تو اپنایا، اور نہ زندگی میں اس کی تقلید کی اس طرح اسلامی تمدن محفوظ رہا اور صحیح و سالم طریقہ سے آج ہم تو پہنج سکا آج یہ اسلامی تمدن جس طرح یہاں ہے ویسے ہی ہندوستان و پاکستان میں ہے ،سعودی عرب اور مراکش میں ہے اور افریقہ اور ایشا میں ہے اس پوری مدت میں یہ تمدن کس طرح اپنی حفاظت کرسکا؟ اس تمدن کے بقاء اس کی قوت اور ٹھہرائو اور یہاں کے چیلنجوں پر اس کے غلبہ حاصل کرنے کے پیچھے کیا راز ہے وہ چیلنج جس کا مقابلہ نہ مسیحی کرسکے نہ وہ تاتاری فاتح جنہوں نے سارے عالم کو زیر کرلیا تھا اور پورے عالم اسلام کو روندڈالا تھا لیکن تمدن کے مسئلہ پروہ بھی قابو نہ پاسکے تھے۔
مسلمانون نے اس پیچیدہ اور انوکھی مشکل پر کیسے قابو پایا؟ بہت سے مصائب و مشکلات ایسی ہوتی ہے جس کو سہار لیا جاتا ہے مثلا ًدینی تعصب کی بنیاد پر ظلم و تعدی جس سے مسلمانوں کو واسطہ پڑتا رہتا ہے اور وہ اس کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں ہم ہندوستان میں بہت سے چیلنجوں کامقابلہ کررہے ہیں ہندی قومیت کا چیلنج غیر اسلامی تعلیم وثقافت کا چیلنج بت پرستی اور شرک کا چیلنج اللہ کے فضل سے ہم نے ان چیلنجوں کا مقابلہ کیا ڈٹ کر کیا، لیکن جب مسلمان ابتدائی دور میں تھے ، بدوی زندگی گزار رہے تھے، سیدھی سادی معیشت تھی اس وقت انہوں نے اس تمدن کے چیلنج کا کیسے مقابلہ کیا۔ حالانکہ تہذیب وتمدن کا چیلنج بڑا ہی نازک اور خطرناک ہوتا ہے واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس مشکل پر مردوں اور عورتوں کے باہمی تعاون سے قابو پایا مسلمان اپنی دعوت اور اپنے پیغام پر فخر کرتے ہیں وہ یقین رکھتے تھے کہ ان کا دین کامل اور مکمل ہے اور خاتم الادیان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت آخری نبوت ورسالت ہے انہوں نے اللہ کا یہ فرمان سن رکھا تھاکہ ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے مذہب کے سلسلہ میں اسلام کو پسند کیا، ان کو اس دین کی صلاحیت ، قابلیت اور طاقت پر پورا بھروسہ تھا۔