ننھی خطرناک مخلوق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ننھی خطرناک مخلوق
عنیقہ ناز
اسکول جانے والوں بچوں کے والدین کے جہاں دیگر مسائل ہوتے ہیں وہاں سب سے خوفناک ، دل دھڑکا دینے والی وجہ جس سے انہیں اور ان کے بچوں دونوں کو سخت شرمندگی ہوتی ہے وہ سر کی جوئیں ہیں۔
ویسے تو جوئیں ساری دنیا میں لوگوں کے ہوتی ہیں لیکن گرم ممالک کی آب و ہوا انہیں خوب راس آتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ گھریلو سطح پہ جتنی چاہے احتیاط کی جائے ایسا ہو ہی جاتا ہے کہ ہم کسی دن دیکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ بری طرح سے اپنا سر کھجا رہا ہے۔ یہ ایک اہم علامت ہے کہ سر میں جوئوں نے جگہ بنا لی ہے۔ اگر اب بھی نظر انداز کریں تو یہ جوئیں گرمی کی وجہ سے کسی دن سر کے اوپر مٹر گشت کرتی نظر آئیں گی اور ہلکی سی ہوا بھی بالوں میں چپکے ان کے سفید انڈوں کی ایسی نمائش کرے گی کہ لوگ گھبرا کر آپ کے بچے کو خود سے دور کر دیں گے۔
ہمارے یہاں کراچی میں کچھ پرائیویٹ اسکولوں نے یہ پالیسی بنا لی ہے کہ سر میں جوئوں کی موجودگی کے شک کی بناء پہ اسی وقت بچے کو گھر واپس بھیج دیتے ہیں۔ جو نہ صرف بے جا سختی ہے، بلکہ بچے کی سُبکی اور دیگر بچوں کی طرف سے اس کی چھیڑ کا باعث بن جاتی ہے۔
یہاں میں فی الوقت ان اسکولوں کے تذکرے میں نہیں جانا چاہتی جو کہ اس قسم کے قوانین کا نفاذ کر کے یہ تائثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کا اسکول ڈسپلن اور قواعد کے لحاظ سے کس قدر بہترین ہے۔ انسانی قدر و قیمت بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ کسی اسکول انتظامیہ کو یہ حق نہیں ہونا چاہئیے کہ وہ محض اس وجہ سے بچے کو کلاس سے نکال کر گھر واپس بھیج دیں۔ بچہ بہرحال وہاں تعلیم کے لئے ہے اور اس طرح سے اس کی تدریس کا جو نقصان ہوتا ہے اس کی ذمہ داری اسکول پہ عائد ہوتی ہے اور محکمہ تعلیم کو اس سلسلے میں نوٹس لینا چاہئیے کہ وہ کون سی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بناء پہ ایک اسکول اپنے کسی صحت مند طالب علم کو کمرہ جماعت میں بیٹھنے سے روک دے۔
جوئیں، کسی کی جمالیاتی حس کو ناگوار گذر سکتی ہیں، صفائی پسند طبیعت کو بری لگ سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مچھر، یا کچھ اور حشرات کی طرح کوئی بیماری نہیں پھیلاتیں۔
اگر اسکول انتظامیہ چاہے تو وہ پہلے سے احتیاطی تدابیر کروا سکتی ہیں مثلاً وہ والدین کو یہ نوٹس بھیج سکتی ہے کہ ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران بچے کے سر کو کسی جوئیں مار شیمپو سے دھویا جائے اور گیلے بالوں میں باریک کنگھی پھیری جائے۔ اس طرح سے اگر کوئی جوں اتفاقاً چڑھ جائے تو وہ نکل جائے گی۔ پوری جماعت ایک دن اس طرح کے عمل سے گذرے گی تو جوئوں کے پھیلنے کے امکانات خاصے کم ہو جائیں گے۔
بچیوں کے لئے یہ لازمی کیا جائے کہ اگر ان کے بال بڑے ہیں تو وہ انہیں باندھ کر رکھیں اس طرح بندھے ہوئے بالوں سے جوئوں کی منتقلی مشکل ہو جاتی ہے۔ بچوں کو آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنے سے منع کریں۔
والدین کو بتایا جائے کہ ہفتے کے آخری دن جو کہ پاکستان کے زیادہ تر اسکولوں میں جمعہ کا دن ہوتا ہے بچوں کی صفائی کے سلسلے میں معائنہ ہوگا۔ اس طرح ان پہ دبائو رہے گا کہ وہ اپنے بچوں کی صفائی کا خیال رکھیں۔ یہ نوٹس انہیں تعلیمی سال شروع ہونے کے ساتھ ہی دیا جائے نہ کہ معائنہ ہونے سے ایک دن پہلے۔
بچوں کو وقتاً فوقتاً جسمانی صفائی کے متعلق بتانے کے لئے استاد کو اہتمام کرنا چاہئیے۔اسکولوں سے ہٹ کر والدین اکثر پریشان نظر آتے ہیں کہ وہ جوئوں سے نجات پانے کے لئے کیا کریں؟اس سلسلے میں، میں نے انٹر نیٹ سے مدد لی۔ مزید یہ کہ اس میں میرے ذاتی تجربات بھی شامل ہیں کیونکہ میں خود ایک بچی کی ماں ہوں۔ اس لئے امید ہے کہ یہ طریقے کارآمد ہوں گے۔
شیمپو سے:
سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ ایک دفعہ جوئیں سر میں داخل ہو جائیں تو ماں کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ جوئیں مارنے والے شیمپو چاہے وہ کتنا ہی دعوی کریں کہ لیکھوں اور جوئوں سے مکمل نجات وہ مکمل صفائی نہیں کرتے۔
جوئیں مارنے والے شیمپو میں عموماً میلاتھائیاون، کیڑے مار دوا ایک مخصوص مقدار میں شامل ہوتی ہے۔ تاکہ وہ سر کے بالوں یا جلد کو زیادہ نقصان نہ پہنچائے۔ یہ دوا لیکھوں یعنی جوئوں کے انڈوں کا خاتمہ نہیں کرتی۔ جوئوں کا خاتمہ بھی صرف چھتیس فی صد تک کرتی ہے۔ بعض جوئوں میں ان دوائوں کے لئے مزاحمت بھی ہوتی ہے اور وہ اس سے نہیں مرتیں۔ اگر مر جائیں تو کچھ عرصہ بعد باقی رہ جانے والے انڈوں سے نئی جوئیں پیدا ہوجاتی ہیں اور ایک دفعہ پھر بچہ سر کھجا رہا ہوگا۔اس لئے جوئیں مارنے کے لئے کوئی بھی طریقہ استعمال کریں ایک روایتی طریقہ ہر صورت استعمال کرنا پڑے گا اور وہ ہے باریک کنگھی کا استعمال۔
یہ باریک کنگھی ذرا دیکھ بھال کر لیں عام پلاسٹک کی کنگھیاں جو نرم دانتوں کی ہوتی ہیں اور دانتوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا ہے آپ کا مسئلہ حل نہیں کریں گی۔ دانتوں کے درمیان کم سے کم فاصلہ ہونا چاہئیے اور پلاسٹک کو سخت ہونا چاہئیے۔ پلاسٹک کے علاوہ، یہ کنگھیاں لکڑی اور دھات کی بھی مل جاتی ہیں۔ مسلسل استعمال سے دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے انہیں پھینک کر دوسری لے لیں۔ یہاں کراچی میں انڈین باریک کنگھیاں مل جاتی ہیں یہ پاکستانی کنگھی سے مہنگی ہوتی ہیں مگر کام میں بہت بہتر ہوتی ہے۔ اگرچہ میں پاکستانی مصنوعات کو ترجیح دیتی ہوں لیکن اس نکتے پہ انڈین کنگھی ہی لینا پسند کرتی ہوں۔ اس کنگھی کے سلسلے میں ایک بات اور بتادوں کے جب بھی دور دراز کے سفر کو نکلیں اپنے سامان میں یہ کنگھی رکھنا مت بھولیں۔اب طریقہ استعمال دیکھ لیں۔ بچے کو نہلانے سے پہلے بالوں میں ہلکا سا تیل لگا کر کنگھا کر کے بال اچھی طرح سلجھا لیں۔ اب شیمپو کوبالوں میں لگا لیں۔ بالوں کو سر کے آگے نہ لٹکائیں۔ بلکہ جس طرح آپ نے کنگھا کیا تھا اسی سمت رہنے دیں۔ دی ہوئی ہدایات کے مطابق اتنی دیر رہنے دیں۔ اب اسی طرح بالوں کو پریشان کئے بغیرپیچھے کی سمت رکھے ہوئے بالوں کو نرمی سے پانی سے دھو ڈالیں۔ اب دوبارہ بالوں میں پہلے موٹا کنگھا یا برش پھیر کر انہیں سلجھا لیں۔ اگر آپ نے ان ہدایات پہ عمل کیا تو بال بہت زیادہ الجھے ہوئے نہیں ہوں گے۔
جب بال خوب اچھی طرح سلجھ جائیں اور کنگھے کو ان میں چلنے میں ذرا دشواری نہ ہو تو سر کےحصے کر لیجیے اور ہر سمت سےباریک کنگھی کوسر کی جلد سے لے کر بالوں کے آخری سرے تک پھیرتے چلے جائیں۔ ہر دفعہ کنگھی پھیرنے کے بعد اسے اچھی طرح اپنے سنک پہ جھٹک لیں تاکہ اگر دانتوں کے درمیان کوئی جوں پھنس گئ ہو تو وہ نکل جائے۔ یہ عمل تین سے چار بار کریں، کانوں کے اوپری حصے کی طرف خاص طور پہ کہ جوئیں زیادہ تر یہاں پہ یا گدی کے پاس جمع ہو جاتی ہیں۔شیمپو دو تین دن کے وقفے سے استعمال کریں لیکن کنگھی آپ ہر روز نہلانے کے دوران پھیر سکتی ہیں۔ بچہ لازمی طور پہ چیخے چلائے گا۔ لیکن اپنا دل کڑا رکھیں۔ بعد میں ہیئر ڈرائیر کی گرم ہوا سے بال خشک کر لیجئے۔ یہ گرم ہوا امید ہے بچ جانے والی جوئوں کا خاتمہ کر دے گی مگر اسے اتنا زیادہ استعمال نہ کریں کے بالوں کو مردہ ہی کر دے۔ ایک خاص فاصلے پہ رکھ کر استعمال کیجیے۔
قدرتی طریقہ:
جو لوگ بالوں کے معاملے میں حساس ہیں وہ پوچھتے ہیں شیمپو کے علاوہ کوئی قدرتی طریقہ نہیں۔ بالکل ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ لوگ تارا میرا کا تیل استعمال کرتے ہیں۔ باہر کے ممالک میں ٹی ٹری آئل یا اس میں زیتون کا تیل ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے ان طریقوں کی افادیت کے متعلق نہیں پتہ۔لیکن تیل کے علاوہ بھی طریقے ہیں۔عام شیمپو سے بال شیمپو کرنے کے بعد بالوں میں تھوڑا سا منہ صاف کرنے والا لسٹرین جروں سے سارے بالوں میں لگا لیں چند منٹ لگا رہنے دیں بالوں کو ہلکے سے پانی سے دھوئیں اور باریک کنگھی پھیر لیں۔ لسٹرین سے جوئیں نیم بے ہوش ہو جاتی ہیں۔
ایک اور طریقہ ہے میونیز بالوں میں اچھی طرح لگا کر چھوڑ دیں۔ جی وہی میونیز جو کھانوں میں استعمال کرتے ہیں۔اس سے بھی جوئیں گھٹن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن میونیز کو صاف کرنے کے لئے بالوں کو اچھی طرح شیمپو کرنا پڑے گا۔ گیلے بالوں میں باریک کنگھی پھیرنا مت بھولیں۔اگر بال روکھے ہیں تو شیمپو کرنے کے بعد بالوں کے سرے پہ کنڈیشنر لگا لیں۔ یاد رکھیں کنڈیشنر کو کبھی بھی بالوں کی جڑوں میں نہ لگائیں۔ نہ وہ شیمپو استعمال کریں جن میں کنڈیشنر بھی ہوتا ہے۔ کنڈیشنر آپ کے بالوں کی جڑوں کو کمزور کرتا ہے۔
ایک دفعہ یہ یقین ہونے کے بعد کہ اب بالوں میں جوئیں نہیں رہیں۔ آرام سے نہ بیٹھ جائیں دس دن کے بعد دوبارہ اس عمل کو دہرائیں اور کنگھی کو چیک کریں اگر اس میں کوئی جُوں آتی ہے تو اسے پھر دہرائیں تاکہ اس کے دیے ہوئے انڈوں سے جو نئی جوئیں بنی ہیں وہ نکل جائیں۔ ایک جوں روزانہ دس انڈے دے سکتی ہے۔ انڈے سے جوئیں نکلنے میں تقریباً ایک ہفتہ اور ان جوئوں کو انڈے دینے کے قابل بننے میں دس دن لگتے ہیں۔
بچے کے سر میں جوئیں ہونے کا مطلب یہ کہ گھر کے ہر فرد کو جوئیں ہو سکتی ہیں۔ احتیاطا ً گھر کے سب افراد اس عمل کو کریں۔ تاکہ ایک دفعہ سارا گھر صاف ہو جائے ورنہ پھر کسی شخص کی جوئیں نا پسندیدہ پھیلائو کا باعث بن جائیں گی۔ اس کے لئے آپ کو گھر والوں کو مطلع کرنا پڑے گا کہ گھر پہ کس طرح کا حملہ ہو چکا ہے۔یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بری اطلاع دینا آسان کام نہیں۔ لیکن زندگی میں مسائل کم رکھنے کے لئے اس سے مفر ممکن نہیں۔
اب آپ کے سر میں کھجلی شروع ہو چکی ہے تو سب سے پہلے ایک باریک کنگھی خریدیے، وہی دشمنوں کی بنی ہوئی۔