جہیز۔۔۔ فوائد ونقصانات

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 

"> جہیز۔۔۔ فوائد ونقصانات

مولانا محمد بلال جھنگوی
بعض لوگ امیر ،بعض متوسط اور غریب بھی ہوتے ہیں کسی کی اولاد نازو نعم میں بڑی ہوتی ہے توکسی کی محنت مشقت کو جھیلتے ہوئے پروان چڑھتی ہے۔ امیر ہو یا غریب اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے ہرشخص جانتا ہے کہ میری تو جیسے بھی گزر ہی ہے میری اولاد سکون اطمینان سے زندگی بسر کرے۔ اپنی جان سے بڑھ کر اولاد کو خوش رکھتا ہے بعض تو اس چیز کی پرواہ نہیں کرتے کہ جو مال اولاد کو راضی کرنے میں ہم کما رہے ہیں وہ ذریعہ حلال ہے یا حرام بس بچوں کے پیٹ کی آگ بجھنی چاہیے۔
جب ماں باپ اپنی اولا د کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں تو پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی نئی زندگی شادی اچھے گھر میں ہو۔ زندگی سکون سے گزرے آپس میں مودت ومحبت والا معاملہ ہو۔ اس میں بعض دنیا کو ترجیح دیتے ہیں تو بعض دین کو۔ آجکل شادیوں میں جن امور پر گرما گرم بحثیں ہوتی ہے ان میں سرفہرست جہیز کا نام ہے۔
اپنی بیٹی کو جو جہیز دیا جاتا ہے حقیقت میں یہ اس کے لیے ایک تحفہ اور اس کے ساتھ صلہ رحمی ہوتی ہے اور تحفہ یا ھدیہ آدمی اپنی بساط کے مطابق ہی دیتا ہے۔ لیکن آج کل یہ تحفہ ایسی مسموم شکل اختیار کر گیا ہے کہ کئی بہنوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہوپاتے۔ ماں باپ کے دروازے پر ان کے بالوں میں چاندی اتری آتی ہےاوروہ ان کو جہیز نہیں دے سکتے
ایسا بھی بکثرت دیکھنے میں آتا ہے کہ غریب آدمی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کے لیے اپنے سر قرض کا اتنا بوجھ اٹھا لیتا ہے کہ وہ قبر کی پاتال میں پہنچ کر بھی اسے ادا نہیں کر پاتا۔ برادری میں اپنا ناک اونچا رکھنے کے لیے سود جیسی لعنت سے بھی دریغ نہیں کرتا بلکہ آج کل تو ایک رسم بد اور چل نکلی ہے کہ اگر کو ئی چیز خود نہیں دے سکتے تو لڑکے والوں پر مطالبہ رکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں سامان تم نے دینا ہے۔ یوں دونوں طرف والے قرض لینے پر مجبور ہو جا تے ہیں اور دولہا والے بھی جہیز کو اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کو ئی غریب لڑکی کے والدین زیادہ نہ دے سکیں تواس کے نئے گھر میں ساس کے طعنے اس کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں"کیا لائی تھی تو اپنے ماں باپ کے گھر سے۔ "وغیرہ وغیرہ۔
یوں یہ ساس بہو کا جھگڑا بڑھتے بڑھتے سارے گھر بلکہ سارے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور نوبت یہاں تک کہ یہ شادی" بربادی "کا منظر پیش کرنے لگتی ہے جب معاملہ یہاں تک ہو جا ئے تو یہ جہیز معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ بلکہ اگر میری بات درست ہو تو ضرور اس کی تائید کیجیے گا کیا یہ سب کچھ آج ہمارے معاشرے میں نہیں ہورہا؟ یقینا ً ہورہا ہے اوربڑے دھوم دھڑکے سے ہورہا ہے جہیز بیٹی سے محبت میں کم بلکہ تفاخر،نام و نمود، ریا کاری، اور برادری میں ناک کے کٹ جانے کے خوف سے زیادہ دیا جاتا ہے۔
اور جو کچھ اس جہیز میں دیا جاتا ہے اس میں اکثر ایسی اشیا کو ترجیح دی جاتی ہے جن کا عمر بھر میں چند بار ہی استعمال ہوتا ہے اور بس ہاں اگر دینا بھی ہے تو نقدی دیجیے جو کل کو آپ کی بیٹی کے کام آسکے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک آدمی بہت مالدار تھا اس نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور جہیز میں ایک پالکی ،قالین اور ایک قرآن پاک دیا اس کے سوا کچھ نہ دیا نہ برتن نہ دوسرا سامان بلکہ اس کی بجائے ایک لاکھ روپے کی جائیداد بیٹی کے نام کروا دی اور بیٹی کو کہا" میں نے سوچا تھا کہ تیری شادی دھوم دھام سے کروں گا اور اس میں ایک لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی نیت کی تھی لیکن پھر خیال آیا کہ لوگ آئیں گے اور کھا کر چلے جائیں گے اور باقی تفاخر میں اڑ جا ئے گا اس سے آپ کو فائدہ نہیں ہو گا اور میں نے کیونکہ ایک لاکھ کی نیت بھی کر لی تھی تو اس کی صورت میں نے یہ تجویزکی کہ جائیداد بھی آپ کی ہو جا ئے گی اور نفع بھی آپ کو ہو تا رہے گا۔"
(اصلاح النساء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے’’ ان اعظم النکاح برکۃ ایسر مونۃ‘‘وہ نکاح بہت بابرکت ہے کہ جس کا بوجھ کم سے کم پڑے۔
(شعب الایمان بیہقی)
اگر ہم اس حدیث پرعمل کریں گے تو اللہ تعالی کی طرف سے ہماری شادیوں اور ہمارے گھرانوں میں بڑی برکت ہو گی آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح اور شادی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ھدایات سے انحراف کر کے ہم آسمانی برکات سے اور خداوندی عنایات سے محروم ہیں۔
آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کی شادی اور سامان کو دیکھ لیں تو ہر صاحب بصیرت پر یہ واضح ہو جا تا ہے کہ اسلام میں شادی کرنا کتنا آسان ہے حدیث شریف میں موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو جو سامان دیا تھا وہ کیا تھا۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
’’ جھز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمۃ فی خمیل وقربۃ ووسادۃ خشوھا اذخر ‘‘
ایک پہلو دار چادر تھی ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہو ئی تھی۔
(سنن النسائی)
اس کی تشریح میں مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے ملک کے اکثر اہل علم اس حدیث کا یہی مطلب سمجھتے اور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں اپنی صاحبزادی کو جہیز کے طور پر دیں تھیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح کے موقع پر کچھ دینے کا رواج ہی نہیں تھا بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہو تا تھا اس زمانے کی شادیوں میں کہیں اس کا ذکر نہیں آتا حضرت فاطمہ کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادیوں میں بھی کہیں اس کا ذکر نہیں حدیث کے لفظ ’جہز‘ کا معنی اصطلاحی جہیز دینے کا نہیں بلکہ ضروریات کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں آخر میں فرماتے ہیں کہ بہر حال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔
(معارف الحدیث )
جو لوگ جہیز کے نہ ہونے پر بیچاری عورت کے ناک میں دم کئے رکھتے ہیں ان کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے ماں باپ سے جو کچھ ہو سکا انہوں نے دے دیا اب گھر کا سرپرست اور مالک توآپ ہیں اپنے گھر کو سنوارنا آپ کے ذمہ ہے۔
مروجہ جہیز کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے ہماری اس سمجھ نے کئی ماں باپ کے خواب ادھورے کر دیے ہیں ہمیں اس بڑھتے ہوئے ناسور کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ غریب ماں باپ کے خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکیں اور وہ بھی اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھ سکیں۔
اس کے لیےسب سے بہتر کردار دولہا والے ہی ادا کر سکتے ہیں وہ یہ کہ مروجہ جہیز کا فضول مطالبہ نہ کر یں۔ اللہ تعالی ہم سب کو سنت طیبہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)