قصہ ایک ”سادی“ کا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قصہ ایک ”سادی“ کا
اہلیہ مولانا عابد جمشید
بس موٹروے پر رواں دواں تھی اور میرا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ کتنے دن رات اس انتظار میں گذارے تھے کہ کب 26 جنوری آئے اور ہم لاہور کے ہنگاموں سے بہت دور چک نمبر87جنوبی جا پہنچیں جہاں چہار اطراف سے باغات میں گھرا وہ علمی مرکز واقع ہے جس کی ضیاء پاشی سے ایک عالم منور ہے۔ قریبا دو ہفتے قبل جناب شوہر نامدار صاحب نے یہ خبر پہنچائی تھی کہ27جنوری ،جمعہ المبارک کے روز بھائی جان کی بیٹی کی شادی ہے۔
سنتے ہی بے اختیار دل سے دعا نکلی کہ کاش ہمیں بھی اس میں شرکت کی دعوت ملے۔ ”حضرت پیرو مرشد نے ہمیں بھی شادی میں بلا یا ہے۔“ انہوں نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ اللہ اللہ دعا اتنی جلدی قبول ہوگئی!۔ ”مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ تم لوگ ایک دن پہلے آجانا“سونے پر سہاگہ!
میں دوسری مرتبہ سرگودھا جارہی تھی، قریبا چار ماہ قبل ہم اپنی شادی کی دعوت تناول فرمانے سرگودھا گئے تھے تب سے’ایک بار دیکھا ہزار بار دیکھنے کی تمنا ہے‘ والامعاملہ چل رہا تھا۔ دل چاہتا تھاکہ اس مبارک گھر میں بار بار آنے اور رہنے کا موقع ملے کہ اس پر فتن دور میں جنہوں نے قرون اولی کی یادوں کو تازہ کر دیا ہے۔ مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالی کی فرشتہ صفت بیویاں، ان کی آپس میں بے مثل محبت، ایثار اور اطاعت کا جو مظاہرہ دیکھنے کو ملا تھا وہ اس سے پہلے صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔ اس دوسرے سفر میں کامل یقین تھاکہ مولاناکی صاحبزادی کی شادی پر بھی یقینا یقینا بہت سی مٹی ہوئی سنتوں کی حیات نو کامنظر نصیب ہوگا۔
شوہر نامدار کی صحبت میں انہی دلفریب خیالوں میں مگن سفر کا پتہ ہی نہ چلا کہ کب اور کیسے کٹ گیا۔بس سے اتر کر گھر میں داخل ہوئی تو بے اختیار ادھر ادھر نظر گھما کر دیکھا ’مہندی کی رسم کہاں ہو رہی ہے ؟ لوازمات تو کہیں دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی آثار نظر آتے ہیں‘ دل میں بے اختیار سوال پیدا ہوا۔ سچ مانئے شادی بیاہ کے موقعوں پر بڑے بڑے نام نہاد دین داروں کو ان رسومات کے چنگل میں پھنسا دیکھا ہے لیکن اس گھرانے کا انتخاب ہی خالص دین کی تعلیم دینے اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے ہوا ہے سو اس فضول رسم کا تذکرہ بھی کسی کی زبان سے نہیں سنا۔
گھر میں ایک چہل پہل تھی۔ مولانا کی دونوں بیویاں مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور ان کی خاطر مدارت میں مصروف تھیں۔ مولاناکے چھوٹے بھائی مولانا خبیب صاحب کی اہلیہ محترمہ بھی ان کا ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ خاندان کی بڑی بوڑھیوں کی نصیحتیں، بچوں کا شور، لڑکیوں کے باہمی مذاق،سب اتنا اچھا لگ رہا تھا۔ انہی دلچسپ سرگرمیوں میں رات کا کافی حصہ بیت گیا۔
صبح اٹھے ناشہ سے فراغت کے بعد پھر وہی رات والی چہل پہل شروع ہوگئی۔ سب نے خوب اچھے کپڑے پہنے، چھوٹی چھوٹی بچیوں میں سے ہر ایک پر دلہن کا گمان ہوتا تھا۔ اس موقع پر مجھے حضرت الشاہ حکیم محمد الشاہ اختر دامت برکاتہم کا ایک جملہ یاد آگیا جو میں نے حضرت کے مواعظ میں کسی جگہ پڑھا تھا کہ اپنے نفس کو جائز خوشیاں اتنی زیادہ دو کہ حرام کا خیال بھی نفس میں نہ آنے پائے۔
شوہر نامدار مجھے بتا رہے تھے کہ اتحاد اہلسنت کے امیر مولانا منیر احمد منور نکاح پڑھائیں گے۔ نماز جمعہ کے بعد تقریبا 22:50پر مجھے ان کا SMS ملاکہ مبارک ہو نکاح ہوگیا ہے۔ نکاح مسنون کی تقریب بھی فرمان نبوی کے عین مطابق مسجد میں منعقد ہوئی۔ مولانا کے داماد بننے کا شرف بھائی ابوبکر کو حاصل ہوا ہے۔ بھائی ابوبکر صاحب ماشاء اللہ عالم دین ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی خاطر وقف کر رکھی ہے۔ موصوف سے ہماری ایک اور نسبت بھی ہے ،ہمارے شوہر نامدار اور بھائی ابوبکر صاحب 2005 میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں دورہ حدیث شریف کی کلاس میں ہم سبق رہے ہیں۔ اللہ تعالی ان دینی نسبتوں میں مزید برکتیں عطا فرمائیں اور ہم سب کو جنت میں بھی اکٹھا کردیں۔
تین بجے کے قریب معلوم ہواکہ بارات آگئی ہے۔ بارات کے نام سے چونکئے مت، صرف خاندان کے چند افراد ہمراہ تھے۔ میں موبائل SMS کے ذریعے شوہر نامدار سے باہر کی لمحہ بالمحہ رپورٹ لے رہی تھی۔ معزز مہمانوں کے اکرام کے بعد چار بجے کے قریب رخصتی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ ’ارے دودھ پلائی کی رسم! دلہا اور اس کے دوست گھر میں نہیں آئیں گے کیا؟‘ دل میں ایک اور سوال پیدا ہوا پھر فورا ہی ان پر ندامت بھی ہوئی۔ بے پردگی، مرد و زن کے اختلاط اور بہت سے برائیوں اور گناہوں کے مجموعہ دودھ پلائی کی قبیح رسم کا یہاں نشان بھی نہ تھا۔
’جہیز! یہ تو ناممکن ہے کہ اس دور میں جہیز کے بغیر لڑکی بابل کی دہلیز پارکرسکے‘ میں متجسسانہ انداز میں چاروں طرف دیکھ رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا۔ ’بھلے ٹرک بھر کر نہ سہی، کچھ سامان تو ماں باپ نے دیا ہی ہوگا۔ لڑکے والوں نے مطالبہ بھی لازما کیا ہوگا کہ جی فلاں فلاں سامان تو ضرور دینا ہوگا۔ لڑکے والوں کی طرف سے مطالبہ نہ بھی ہوتا تو آخر برادری میں اپنی ناک بچانے کے لیے مولانا صاحب اپنی صاحبزادی کو کچھ نہ کچھ سامان تو ضرور دیں گے‘ لیکن کیا بتلائیں جی! ہمارا یہ خیال بھی صدا بصحرا ثابت ہوا۔ تبھی مجھے مذاق سوجھا، میں نے شوہر نامدار کو میسج کیا”ذرا ہاتھ لگا کر دیکھئے گا پیرو مرشد کی ناک باقی ہے؟ کوئی رسم نہیں کی، اتنی سادگی سے شادی کا فریضہ سر انجام پایا، جہیز بھی نہیں دیا، ذرا قریب سے دیکھ کر بتائیے گا۔“ ادھر سے ہنستا مسکراتا جواب آیا ”ناک کٹی تو ہے لیکن……… ہمارے دشمن …………شیطان کی۔ “
یقین مانئے، آیت قرآنی لایخافون لومۃ لائم)وہ اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ( کی عملی تفسیر آنکھوں کے سامنے آگئی۔قصہ مختصر، نماز عصر کے قریب بخیر وعافیت رخصتی سرانجام پائی۔ اگلے روز دعوت ولیمہ میں شرکت کے بعد واپس روانہ ہوئے اور رات گئے لاہور پہنچے۔ سچی بات ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ مروجہ رسوم وخرافات سے پاک ”سادی“ دیکھی۔ اس سعادت مند گھرانے میں گزارے ہوئے دن میری زندگی کے یاد گار ایام ہیں۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت مولانا محمد الیاس گھمن کی حفاظت فرمائیں، ان کا علمی وروحانی فیض چار دانگ عالم میں عام ہو اور ہم جیسے گناہگاروں کو ان پاکباز ہستیوں کی برکت سے نیکی او ر سعاد ت کی راہوں کاراہرو بننے کی توفیق عطاہو۔
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا