ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
سمر قند فتح ہوجانے کی وجہ سے بابر کی خوشی کی کوئی انتہاء نہیں رہی تھی اس کی خوشی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر سمر قند پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ جونہی امرائے سمر قند نے تاج شاہی بابر کے سرپر رکھا اور اس نے تخت تیموری پر قدم رکھا تو فرط مسرت سے اس کی باچھیں کھلتی چلی گئیں۔ ویسے بھی وہ بذات خود تخت وتاج تیموری کو اپنی حقیقی وراثت سمجھتا تھا۔ رسم تاج پوشی کے بعد جب وہ شاہی محل میں داخل ہوا تو اس نے وہاں بھی ماہرمصوروں کی بنی ہوئی تصاویر بھی آویزاں دیکھیں اس سے پہلے جو وہ دلکش باغ میں دیکھا چکا تھا۔
سمر قند پر قبضے کی اس کی دیر ینہ خواہش تو بارآور ثابت ہوچکی تھی مگر اسے وادی فرغانہ سے ملنے والی اندر وہناک خبروں نے بے چین کر رکھا تھا۔ اس کے مخبر اسے متواتر اس قسم کی خبر یں بھیج رہے تھے کہ سلطان احمد تنبل نے جہانگیر مرزا کو اپنے بس میں کر رکھا تھا۔ وادی فرغانہ کے اہم فوجی قلعہ آخشی پرسلطان احمد تنبل نے پوری طرح اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے اوراب اس کی حریص آنکھیں اندر جان پر جمی ہوئی تھیں۔ چونکہ جہانگیر مرزا پوری طرح اس کے قابو میں تھا اس لیے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ اندر جان پر قابض ہوجاتا۔
محمد بابر اگرچہ چاہتا تھاکہ وہ ایک ہی جست میں وادی فرغانہ پہنچ کر سلطان احمد تنبل اور جہانگیر مرزا کو ان کی بغاوت اور نمک حرامی کا مزہ چکھائے مگر سمر قند کو چھوڑنا بھی اس کے لیے نہایت ہی مشکل ہوگیا تھاکیونکہ اسے تخت تیموری سنبھالے ہوئے ابھی چند ہی روز تو ہوئے تھے اگر وہ اس عالم میں سمر قند چھوڑ دیتا تو پھر کوئی بھی طالع آزما اس پر قبضہ کر سکتا تھا کیونکہ سمرقند پر اس کے قدم ابھی تک پوری طرح جم نہیں پائے تھے۔
بابر کی ساری تشویشناکیاں ایک طرف اور نامی اماں کا یہ پیغام ایک طرف کہ اگر تو نے اندر جان واپس آنے میں تاخیر کر دی تو عین ممکن ہے کہ و ہ اس کے ہاتھ سے چکنی مچھلی کی طرح پھسل جائے اور اس کے خاندان کی عزت وآبرو خطرے میں پڑ جائے۔
نانی اماں کے اس پیغام نے بابر کو بے حدہیبت زدہ کر دیا تھا مگر حالات کے شکنجے نے اسے اس قدر بے بس کر رکھا تھاکہ اس مثل کے مصداق کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔
نانی اماں کی تشویشناکی اپنی جگہ تھی مگر بابر کی حکمت عملی اپنی جگہ تھی اس نے ضروری یہی سمجھا کہ سمر قند کو فورا چھوڑ دیناا س کے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ سمر قند کو ان ناقابل اعتبار امراء کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تھا جو اپنے سلطان کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوچکے تھے۔ بنا بریں بابر نے پوری دل جمعی اور جوش وخروش سے سمر قند کے نظم و نسق پر توجہ دینا شروع کر دی۔
بابر چاہتا تھا کہ وہ اس کام سے جلد از جلد خلاصی حاصل کرکے اندر جان کا رخ کرے سمر قند پر بابر کے قبضے کی خبریں جنگ میں آگ کی طرح گرد نواح میں پھیلتی چلی گئیں۔ اس خبر کی بھنک سلطان ظہیر الدین بابر کے ماموں اور مغلستان کے خاقان محمود خان کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی جس سے اسے حیرت بھی ہوئی اور تشویش بھی۔محمود خان سمر قند کو تسخیر کرنے کے لیے کئی بار حملہ آور ہوچکا تھا مگر ہر بار اسے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا اس کے بھانجے چودہ سالہ بابر کا سمر قند پر تسلط کی وجہ سے اس کے دل میں کانٹا سا چبھ رہا تھا۔
ادھر از بک سردار شیبانی خان جسے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ بھی سمر قند سے ناکام لوٹا تھا ابھی وہ راستے میں ہی تھاکہ اسے سمر قند پر بابر کے قبضے کی خبر موصول ہوئی۔ چودہ سالہ لڑکا اس سے بازی لے گیا تھا! اس خبر سے وہ اپنا دل مسوس کررہ گیا تھا اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ ایک نوخیز لڑکا جس کی عسکری طاقت اس کے سامنے پر کاہ کے برابر ہی نہیں تھی سمر قند کو خون کا قطرہ بہائے بغیر فتح کرلے گا۔
سلطان محمد بابر محل کی سیر کے بعد فصیل شہر کے معائنے کے لیے نکل کھڑا ہوا وہ اس شہر کی عظمت سے مرعوب دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے مصاجین نے اسے یہ بتا کر حیرت زدہ کر دیا کہ اس نابغہ روزگار شہر کی بنیاد یونانی فاتح سکندر اعظم نے رکھی تھی اور بعد ازاں لرزندہ جہاں صاحب قراں امیر تیمور نے اس حسین اور پر فضا شہر کو اپنا دار السلطنت قرار دیا تھا اس شہر کی شاندار عدیم النظیر عمارات امیر تیمور نے تعمیر کروائی تھیں بابر نے اپنے آدمیوں کو فصیل شہر کو قدموں کے ذریعے ماپنے کا حکم دیا جوکہ دس ہزار چھ سو قدم نکلی۔
اب تک بابر نے پورے شہر کو اندر اور بابر سے اچھی طرح دیکھ لیا تھا مگر ایک عمارت ایسی بھی تھی جسے ابھی تک بابر نے نہیں دیکھا تھا وہ عمارت قلعہ شہر کے بالائی حصے پر تعمیر کی گئی تھی یہ عمارت جوکہ چار منزلہ تھی اور جو نیلا محل کے نام سے موسوم تھی اس خوبصورت اور نادر محل کی تعمیر کا سہرا بھی امیر تیمور ہی کے سر تھا۔
بابر نے اندرون شہر بے حد خوبصورت اور نادر عمارت دیکھیں جن میں قیمتی پتھروں سے مزین جامع مسجد، درویشوں کی خانقاہیں،امیر تیمور اور اس کے سلسلے کے دیگر شاہوں کے شاہی مقبرے جن میں سے شہزادہ الخ بیگ کا مقبرہ نہایت نمایاں تھا ،تین منزلہ رصد گاہ، تفریحی بارہ دری جوکہ چنار کے درختوں کے درمیان گھری کھڑی تھی اور وہ تخت شاہی جو ایک بہت بڑی اور خوبصورت عمارت میں رکھا ہوا تھا جسے پتھر کی ایک بہت بڑی سل کاٹ کر بنایا گیا تھا جس کی لمبائی تیس فٹ، چوڑائی پندرہ فٹ اور اونچائی دو فٹ تھی اس پر کندہ کاری کے ذریعے خوبصورت نقش و نگار ابھارے گئے تھے۔ ان سب پر مستزاد وہ گونجتی مسجد تھی جس کے دالان کے فرش پر پاؤں مارنے سے لق لق کی آواز پیدا ہوتی تھی اس حیرت ناک بھید کے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔
بار کو سمر قند کی عمارات، اس کے کشادہ بازاروں، قرمزی ریشم کی منڈیوں، سر سبز و شاداب مرغزاروں اور مرغزاروں کے کنارے کناے امراء و رؤساء کے دیدہ زیب محلات اور ان کی زیبائش وآرائش نے مسحور کر دیا تھا۔
سمر قند کے شہری یہ توقع کر رہے تھے کہ دیگر فاتحین کی طرح شہر میں داخل ہوکر بابر کی فوج بھی لوٹ مار کر ے گی مگر ایسا نہیں ہوا بابر نے اپنے فوجی سرداروں یہ سمجھا دیا تھاکہ سمرقند ہمارا آبائی شہر ہے یہاں کے باشندے ہمارے اپنے ہیں اور مفلوک الحال ہیں اس پر مستزاد طویل محاصروں نے انہیں اور بھی پریشان حال کر دیا ہے۔ اب اگر ہم نےلوٹ مار کی تو یہ لوگ فاقوں مرجائیں گے لہذا تمہیں یہ باور کرلینا چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ شریفانہ اور ہمدردانہ سلوک کرنا چاہیے مجھے کہیں سے بھی جبروتشدد کی اطلاع نہیں ملنی چاہیے۔
بابر کے سرداروں میں ایک سردار علی دوست طغائی نامی کہنے لگا ”سلطان معظم آپ کے امراء اور سپاہی کہتے ہیں کہ جب ہم نے تاجروں کا لوٹا ہوا مال انہیں آپ کے حکم کے مطابق لوٹا دیا ہے اور اب یہاں بھی لوٹ مار سے ہمیں منع فرمارہے ہیں اس طرح تو ہم سب کنگال ہوجائیں گے۔“
بابر نے جوابا کہا”لوٹ مار کے مال سے آج تک کوئی شخص خوشحال نہیں ہوا لوٹ کا مال جس ذریعے آتا ہے اسی ذریعے بھی چلا جاتا ہے۔ اپنے پروردگار پر اپنے یقین کو پختہ رکھو جو پتھر میں موجود کیڑے کو رزق مہا کرتا ہے کیا وہ اپنی اشرف المخلوقات کو بھوکوں مار دے گا؟ ہم سب کا رزق اسی رب العالمین کے ہاتھ میں ہ جو سب کا رب ہے غریب شہریوں کو لوٹ کر تمہارے ہاتھ کچھ بھی آنے والانہیں ، ہم روایتی فاتحین کی طرح اپنی ناموس پر دھبہ نہیں آنے دیں گے“
ادھر سمر قند کے معززین نے بابر سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں مگر فی الحال بابر اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ ان کی توقعات پر پورا اتر سکتا۔ وہ مغل سپاہی جو بابر کی فوج میں بلا تکلف شامل ہوئے تھے، ان کی توقعات بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں کیونکہ بابر نے شہریوں کولوٹنے سے منع کر دیا تھاجب کہ مغلوں کی گھٹی میں لوٹ مار، قتل و غارت اور بے جا تشدد پڑا ہوا تھا اس لیے اب وہ بابر کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر اپنے علاقوں کی طرف واپس جارہے تھے، بابر نے اپنے سرداروں کو منع کر دیا تھا کہ وہ بھاگتے ہوئے مغلوں کو نہ روکیں۔
موجود ہ حالات نے بابر کے وفاداروں کوبھی تشویش میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ ان کے پاس سامان خوردونوش کی کمی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اگر یہی عالم کچھ دیر اور رہتا توفاقوں تک کی نوبت آسکتی تھی۔قاسم بیگ نے بابر کو مشورہ دیا کہ سلطان معظم آپ قاضی خواجہ کو )جوکہ بابر کی عدم موجودگی میں بابر کی قائم مقامی کے فرائض انجام دے رہاتھا(حکم دیں کہ وہ اندر جان کے خزانے سے کچھ رقم سمر قندکے فوجیوں کی ضروریات کے لیے روانہ کر دے۔ بابر کو قاسم بیگ کا مشورہ صائب معلوم ہوا اور اس نے اسی وقت اپنے چند آدمیوں کو اس پیغام کے ساتھ کہ قاضی خواجہ کچھ رقم سمر قند کے لیے روانہ کرد ےا ندر جان بھیج دیا۔
کچھ ہی دنوں میں اندر جان سے قاضی خواجہ کا جواب موصول ہوگیا قاضی خواجہ کے خط کے ساتھ ساتھ نانی اماں کا ایک خط بھی تھا، جس کے مندرجات کچھ یوں تھے۔ ”بلا تاخیر واپس اندر جان لوٹ آؤ اور اپنے شہر کو دشمنوں کی دست برد سے بچاؤ۔
سلطان احمد تنبل نے جہانگیر مرزا کو پوری طرح اپنے بس میں کر رکھا ہے اور تیرے سمر قند کے محاصرے کا حلیف سلطان بائسنغر کا بھائی سلطان علی مرزا بھی سلطان احمد تنبل کے ساتھ آملا ہے۔ ان دونوں غداروں نے مل کر جہانگیر مرزا کو اپنے بس میں کر رکھا ہے۔ اب تمہاری سمر قند کی بجائے اندر جان کو بہت ضرورت ہے اگر تو نے لیت و لعل سے کام لیا تو پھر اندر جان کا خدا ہی حافظ ہے۔“
)جاری ہے(