پندرھویں صدی ہجری کی ماں اور بیوی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

پندرھویں صدی ہجری کی ماں اور بیوی

گل خان
روسی مظالم کے خلاف افغانیوں کے عزم وحوصلے کی عکاسی کرنے والی کہانی
دھماکہ زور دار گڑگڑاہٹ چیخیں۔ سسکیاں اور پھر خاموشی۔ گہری خاموشی۔ موت کا سناٹا۔۔گل خان جھاڑیوں کی اوٹ سے نکلا چند منٹ پہلے وہاں ایک بیرک نما کمرہ تھا۔ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا گری پڑی اینٹیں۔۔ ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں۔۔ جھلسی ہوئی زمین ،دھواں اٹھ رہا تھا۔ گہری خاموشی اور تاریکی میں گل خان مسکرادیا۔ اس نے آس پاس پھیلی ہوئی تاریکی پر نگاہ ڈالی جہاں تک نگاہ جارہی تھی اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔
وہاں وہ اس وقت اکیلا تھا۔۔ خود مختار ،بے خوف ،آزاد! اس نے زنجیر کی ایک کڑی توڑ دی تھی۔ زمین کا وہ ٹکڑا آزاد ہو چکا تھا۔ اب اس علاقے سے سرکاری اور روسی فوج کی ایک اور چوکی نیست ونابود ہو چکی تھی۔۔ایک عجیب سی طمانیت اور سکون سے اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ دو گھنٹے پہلے جب اس علاقے میں پہنچاتھا تو اس وقت بھی اس کے دل میں کوئی خوف نہ تھا وہاں وہ ایک عجیب طرح کی بےچینی اور اضطراب محسوس ہو رہا تھا۔ جب بھی اسے کسی مہم یا مشن کو انجام دینے کے لیے جانا پڑتا تو دشمن کے خلاف قدم اٹھانے سے پہلے اس کا دل کچھ بے چین اور مضطرب ہو جاتا تھا۔ شروع شروع میں وہ اپنے اس اضطراب کو سمجھ نہ پایا تھا۔ وہ اپنے آپ کو کوستے ہوئے کہتا ،گل خان کیا تم خوف محسوس کرتے ہو۔ لیکن وہ اپنا دل خوف سے خالی محسوس کرتا۔۔ اور سوچنے لگتا۔ پھر یہ بے چینی ،یہ اضطراب کیوں ؟
لیکن اب وہ عرصے سے اس کیفیت کو سمجھ گیا تھا۔ یہ بے چینی ،یہ اضطراب ،ایک خواہش کی تکمیل سے پہلے کے لمحے کی کیفیت تھی۔ وہ ناکامی کا منہ نہ دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر لیے ایک سپر پاور کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ اسے اپنی جان جانے کاکوئی خوف نہ تھا۔ احساس ہوتا تو اس بات کا کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جائے۔ اب وہ پوری طرح مطمئن تھا۔ اس نے یہ اہم اور خطرناک فریضہ سرانجام دے دیا تھا۔
پچھلے دس دنوں میں اس علاقے میں تیرہ فوجی چوکیوں کو اڑایا جا چکا تھا۔ اس پورے علاقے میں صرف تین چوکیاں اب باقی رہ گئی تھیں۔ جہاں روسی اور سرکاری فو ج کے سپاہی قابض تھے۔ آج کی رات بقایا تینوں چوکیوں کو اڑا کر اس پورے علاقے پر غیر ملکی فوج کے تسلط کو ختم کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا ان چوکیوں کی تباہی کی صور ت میں یہ پورا علاقہ آزاد اور خود مختار ہو جاتا۔ اہل حق کے قبضے میں آجاتا۔
گل خان کو یہ چوکی اڑانے کے لیے خاص طور پر چنا گیا تھا۔ وہ اس علاقے کا بھیدی تھا چپے چپے سے واقف تھا۔ ایک ایک موڑ اورایک ایک پتھر سے اس کی آشنائی تھی۔ اس چوکی سے چند میل کے فاصلے پر ہی تو اس کا گاؤں تھا۔ سالار نے اسے یہ فرض سونپتے ہوئے کہا تھا: ”گل خان !گھر کی یاد بڑی ظالم ہو تی ہےمیں جانتا ہوں۔ جب تم اس علاقے میں پہنچو گے تو قدم قدم پر تمہارے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گی کہ تم اپنے گاؤں جاؤ۔تم اپنے گاؤں جا سکتے ہو لیکن ایک شرط پر۔۔ پہلے تم اپنا فرض ادا کرو گے اس کے بعد تم اپنے گاؤں جاؤ گے اور پھر پو پھٹنے سے پہلے گاؤں سے نکل جاؤ گے۔ “
گل خان نے ہنس کر کہا:” میں جب تک اپنے کام کو سرانجام نہ دے لوں گا گاؤ ں جانے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ ں گا۔ “گل خان نے پھر چاروں طرف دیکھا رات تاریکی تھی کوئی اِکا دُکادھندلا دھندلاسفید ستارہ آسمان پر ٹمٹما رہا تھا۔ گل خان اچانک زمین پر بیٹھ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے زمین اسے پکار رہی تھی۔ ایک عجیب مدھم پر اسرار آواز میں۔۔ وہ اسے کہہ رہی تھی۔ ”میرے بیتے!میرے مجاہد! میرے غازی !تم نے اپنی ماں کی عزت پر حرف نہ آنے دیا۔ مجھے تم پر فخر ہے۔ جس ماں کے بیتے اتنے غیرت مند ،بہادر ،دلیر اور شجاع ہوں وہ ماں کبھی کسی کی ملازم اور باندی نہیں بن سکتی۔“
گل خان کی آنکھیں نم ہو گئیں اس نے آہستہ سے کہا۔۔ ”ماں !عظیم ماں !میں تیرا بیٹا ہوں کیا تو کسی لمحے ہم سے مایوس ہوگئی تھی ؟نہیں ماں۔۔ یہ توصرف تو جانتی تھی ہم نے کبھی کسی غیر کے قدم کو تیرے مقدس سینے پر اپنا نشان بنانے نہیں دیا۔ تو ہمیشہ آزاد رہی ہے ہمیشہ آزاد رہے گی۔“گل خان نے یوں محسوس کیا جیسے زمین اندھیرے میں پاؤں پھیلائے اس وقت نیم بیداری کی کیفیت میں تھی۔ اس زمین نے اطمینان کی ایک لمبی سانس لی او ر پھر آنکھیں بند کر کے سونے لگی میٹھی نیند۔۔
گل خان تیزی سے آگے بڑھا۔ چند منٹ پہلے یہاں فوجی چھاؤنی تھی اب وہاں خرابہ تھا جھک کر تاریکی میں ملبے کو ٹٹولنے لگا۔ اب وہ ان کاموں کاعادی ہو چکا تھا۔تھوڑی دیر میں وہ تین رائفلیں ملبے کے نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔پندرہ بیس منٹ بعد وہ مزید دو رائفلیں ڈھونڈھ چکا تھا۔ اس نے پانچوں رائفلیں اٹھائیں اور پھر جھاڑیوں کی طرف چل نکلا۔ جھاڑیوں کے پیچھے ایک بڑا تھیلا پڑا تھا۔ بوری نما تھیلا۔ اس میں کئی چیزیں بھری ہوئی تھیں اس نے ان پانچوں رائفلوں کو بھی ان میں ڈالا اور پھر تھیلے کو کندھے پر رکھ کر چل پڑا۔
گل خان نے آسمان کی طرف دیکھا۔پھر وہ چل پڑا۔۔۔ اب وہ گاؤں جاسکتا تھا۔ ابھی پو پھوٹنے میں کئی گھنٹے تھے۔ گل خان نے اندازہ لگایا کہ یہاں سے تیز تیز چلتا ہوا ڈیڑھ گھنٹے میں اپنے گاؤں پہنچ سکتا ہے۔ اپنے گھر میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ ٹھہرنے کہ بعد وہ پو پھوٹنے سے پہلے گاؤں سے نکل سکتا ہے۔ اسے صبح ہونے تک ہرات کی طرف جانے والی سڑک کے ایک طرف اپنے خفیہ کیمپ میں پہنچنا تھا۔ وہ باربار فاصلے اور وقت کو ذہن میں لا رہاتھا۔اسے یقین تھا کہ وہ ٹھیک وقت پر اپنے کیمپ پہنچ جائے گا۔
اس کے قدموں کی چال خود بخود تیز ہو گئی وہ اپنے آپ کو بے حد ہلکا پھلکامحسوس کر رہا تھا۔ ذہن اس کے قدموں سے بھی تیز تھا چہرے آنکھوں کے سامنے آرہے تھے۔ روشن منور ،ان پر رات کی تاریکی کی کوئی پرچھائیں تک نہ تھی۔
نوری۔۔زینب۔۔ اماں۔۔ اسے وہ دن یاد آرہا تھا جب وہ قافلہ حق میں شامل ہونے کے لیے اپنے گھر سےنکلا تھا۔ ایک سال دو ماہ دس دن پہلے اسے ایک ایک دن یاد تھا ایک سال دو ماہ دس دن سے اس نے نہ نوری کو دیکھا تھا نہ زینب کو نہ اماں کو۔ ان کی خیریت کی کوئی خبر بھی نہ ملی تھی۔ خط و کتابت کا تو وہاں سوال ہی کہاں تھا۔ایک ایک لمحہ اسے یاد آرہا تھا۔ ان لمحوں کو اس نے بار بار اپنی یادوں ، اپنے تصور اور اپنے ذہن میں تازہ کیا تھا۔ جس لمحے کو وہ چاہتا اپنے ذہن میں روک کر دیکھتا رہتا تھا۔۔۔ لیکن اب جب وہ ایک سال دو ماہ دس دن کے بعد اپنے گاؤں جا رہا تھا۔ تو اس وقت یہ لمحے پہلے سے بھی زیادہ منور ہو چکے تھے۔
ماں اس کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔۔۔ چہرے پر جھریاں ،آنکھیں چندھی سی ہو رہی تھیں۔ بڑے دہانے باریک ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ ہاں اماں !میں جا رہا ہوں ، اس نے کہا پھر اپنی بوڑھی ماں کی طرف دیکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی بوڑھی ماں بے حد رنجور، دُکھی اور غم زدہ دکھائی دے گی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں بہہ رہی ہوں گی لیکن وہ جھریوں سمیت مسکرارہی تھی۔
اس نے سوچا کہ اماں اداس نہیں تو یہ مسکرانے کا بھی موقع نہیں۔ پھر اماں کیوں مسکرا رہی ہے میری اماں نے تو مجھ پر کبھی طنز نہیں کیا۔ آج کہیں اماں طنزیہ اور جلے بھنے انداز میں مسکرا کر میرے ارادے کی راہ میں دیوار بننے کا ارادہ تو نہیں کر رہی۔ کہیں زینب نے اسے پٹی تو نہیں پڑھا دی۔۔۔ زینب کی شریر آنکھیں اس کی نگاہوں کے سامنے چمکنے لگیں۔
گل خان ! وہ اپنی اماں کی آواز سن کر چونک پڑا تھا۔ تمہیں جانا چاہیئے میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گی لیکن تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا۔ وعدہ؟ اماں کیسا وعدہ؟
ایک ہی وعدہ۔۔۔ گل خان !تم پیٹھ پر گولی نہیں کھاؤ گے۔ اس کی اماں کی آواز میں ایک انتباہ تھا۔۔۔ایک عجیب ساطنطنہ۔
اس نے اپنی اماں کی طرف دیکھا تھا۔ اس وقت اس کا سر تنا ہوا تھا ،چندھی آنکھیں شرارے اُگل رہی تھیں۔ چہرے پر ایک علامت آمیز عجیب سی استقامت تھی۔ شدت جذبات سے اس کے وجود میں لرزش پیدا ہو چکی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی ،تم نے وہ گیت سنا ہے نا دشمن کا سر ہمیشہ کے لیے جھکا دو ،اس کا سر کاٹ دو۔ گل خان کو اس وقت یہ پوراگیت یاد آگیا تھا۔ صدیوں پرانا گیت جسے وہ اپنے بچپن سے سنتا چلا آرہا تھا۔ہاں اماں مجھے وہ گیت یاد ہے۔
اچانک گل خان نے محسوس کیا تھا کہ اس کی اماں کچھ ڈھیلی سی پڑگئی ہے۔ اس کہ چہرے پر اداسی کی پرچھائیاں بھی دکھائی دینے لگی لیکن آنکھوں میں وہی چمک ہے۔ وہی شرارے دہکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اماں بڑبڑارہی تھی۔ ”وطن کا دشمن۔۔ وطن کا دشمن اس کا سر کاٹ دو۔ “گل خان کو وہ لمحہ یاد آیا۔ جب اس نے اپنی بوڑھی ماں کو اپنے مضبوط بازوؤں میں سمیٹ لیا تھا۔ اماں اس کو چوم رہی تھی۔ اسے اپنے سینے سے لگا رہی تھی اور گل خان عجیب رندھے رندھے لہجے میں کہہ رہا تھا” اماں !میں وطن کو اس کے دشمنوں سے پاک کر دوں گا۔ میں سینے پر گولی کھاؤں گا۔ “
پھر ایک دوسرے لمحے میں اس کی نگاہ جب اٹھی ،تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی زینب دروازے کے پاس کھڑی ہے اور ماں بیٹے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ اماں نے اپنی بہوکو دیکھا تو بولی:”جانے کا وقت قریب آ گیا ہے ،زینب سے بھی تو بات کر لے۔ “ پھر وہ کمرے سے نکل گئی۔
زینب جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی تھی ،گل خان کو کوئی بات نہ سوجھ رہی تھی۔ پچھلے کئی دنوں سے وہ زینب کو اپنے جانے کے بارے میں بتا چکا تھا۔ اس نے زینب سے کہا تھا : ”میں بے غیرت نہیں ہوں زینب!زینب وہ ہمارے مذہب کو بدل دیں گے۔ اگر ہم نے اس ظالم حکومت اور روسیوں کا مقابلہ نہ کیا تو ہمیشہ کے لیے غلام ہو جائیں گے۔ زینب !کیا تم ایک بے غیرت شوہر کی بیوی بن کر زندہ رہ سکتی ہو ؟“زینب نے اپنا سر اس کے کاندھے سے ٹکا دیا تھا اور کہا تھا :”ہم بے غیرت نہیں ہیں گل خان ! میرے بابا نے مجھے یہ سبق پڑھایا تھا کہ اپنے میاں کو کبھی بے غیرتی نہ سکھانا۔میں بے غیرت کی بیوی بن کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ گل خان تم اللہ کا نام لے کر دشمنوں کا سر کاٹنے جاؤ۔میں تمہارے لیے دعا کروں گی۔ “
گل خان اڑا چلا جا رہا تھا فاصلے سمٹ رہے تھے۔ وہ اس علاقے کے ایک ایک راستے ایک ایک موڑ سے واقف تھا۔آنکھیں بند کر کے وہ اپنے گاؤ ں پہنچ سکتا تھا۔یادیں اور وہ سارے لمحے جو آخری اور الوداعی ملاقات کو اندرسموئے ہوئے تھے۔ ان میں بعض لمحے بہت اذیت ناک تھے بعض لمحے آنسوؤں میں بھیگے ہوئے تھے۔ اپنی دو برس کی بیٹی نوری کو گود میں لے کر ہوا میں اچھالتے ہوئے وہ سوچا کرتا تھا۔جب میں روسیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے جاؤں گا تو یہ مجھے بہت یاد آئے گی اور اس کی یاد مجھے بوجھل کر دیا کرے گی۔ کبھی کبھی وہ سوچتا تھا۔ اگر میں بھی مر گیا تو!!!اس کے بعد گل خان کا ذہن تاریک ہو جاتا۔ دل ڈوبنے لگتا وہ سوچتا،نوری یتیم ہو جائے گی۔ یہ تو ابھی اتنی چھوٹی سی ہے کہ اسے تو میری شکل بھی یاد نہ رہے گی۔ دوسرے لمحے وہ دانت پیسنے لگتا۔ اور دل میں کہتا:”گل خان !کیا تو بزدل ہو گیا ہے۔“وہ سب کچھ سننے کے لیے تیار تھالیکن بزدل کہلوانا اسے پسند نہ تھا۔اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ مرجاتا۔
اس وقت جب اس کے قدم تیزی سے اپنے گاؤں کی طرف اٹھ رہے تھے۔ آنکھوں کے سامنے نوری کا چہرہ باربار آ رہا تھا۔ سب سے روشن ،منور چہرہ سرخ رخسار پھولے پھولے ،بال بھورے ،چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں ،توتلے لہجے میں گنے چنے الفاظ پر مشتمل کچھ مبہم اور کچھ غیر مبہم باتیں۔۔۔
ایک لمحے کے لیے گل خان رک سا گیا۔ وہ راستہ نہیں بھولا تھا۔ وہ ٹھیک راستے پر جا رہا تھا۔ اس کا ایک ایک قدم اسے گاؤں کے قریب تر لا رہا تھا۔ لیکن نوری کا جاں فزاتصور تھا جس نے ایک لمحے کے لیے اس کے قدم روک دے تھے۔ جب گاؤں سے رخصت ہوا اس لمحے اس نے اپنی اماں اور اپنی بیوی زینب کی طرف دیکھا تھا اس کی اماں اور اس کی بیوی سمجھ گئیں تھیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ کس چیز کی تلاش میں ہے:” نوری سورہی ہے۔“زینب نے آہستہ سے کہا تھا،آج جلد سو گئی اماں نے کہا۔ گل خان نے سوچا تھا کہ وہ جانے سے پہلے نوری کو خوب پیار کرے گا۔ اسے سینے سے لگائے گا ،اس کو ہنسائے گا۔ لیکن نوری آج جلدی سوگئی تھی۔ میں اسے لاتی ہوں ،زینب نے کہا تھا۔ نہیں سونے دو اسے،جاگ گئی تو پھر دیر تک روتی رہے گی،اماں نے کہاتھا۔
گل خان نے کوئی بات نہیں کی۔ اس نے دیکھاکہ کوٹھری میں اس کی چار پائی پر نوری میٹھی نیند سو رہی ہے۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ہے۔ جیسے وہ سوتے میں کوئی خوبصورت خواب دیکھ رہی ہو۔ گل خان کا جی چاہا کہ وہ اسے جھنجھوڑکر اٹھا دے۔ اسے بازوؤں میں لے کر بھینچےپھر اسے ہوا میں اچھالنے لگے۔ لیکن وہ چند لمحوں تک سوئی ہوئی نوری کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ جھکااور اس نے جھک کر پہلے تو نرمی سے نوری کے بالوں کو سنوارا۔پھر اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھ کر اسے پیار کیا اور پھر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
نوری خواب میں مسکرارہی تھی اس کی مسکراہٹ کچھ اور شوخ ہو گئی تھی سوئی ہوئی نوری ہمیشہ اس کے خیالوں اور ذہن میں موجود رہی۔
کچھ تیز تیز چلنے سے ،کچھ یادوں کی حدت سے اور کچھ جذبات کی شدت سے گل خان کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ وہ اب گاؤں کے قریب آ چکا تھا۔ اس نے چاروں طرف نگاہ ڈالی و ہ ٹھیک راستے پر جا رہا تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنے آپ سے کہا:”نصف گھنٹے میں اپنے گاؤں میں پہنچ جاؤں گا۔ “اس نے سوچا:اماں اور زینب اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر کتنا خوش اور کتنا حیران ہوں گی۔ گل خان مسکرایا ،اور اس نے دل ہی دل میں کہا:نوری اب بھی سو رہی ہو گی۔ لیکن اسے جگا دے گا۔ہاں اب وہ اسے سونے نہ دے گا۔ وہ اسے جگا کر خوب باتیں کرے گا۔
گل خان نے ایک لمبا سانس بھرا۔اسے احساس تھا کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے وہ زیادہ دیر تک گاؤں میں نہیں ٹھہرسکتا تھا۔لیکن وہ جتنی دیر بھی ٹھہرے گا۔اس میں اپنی اماں کو یہ ضرور بتائے گا کہ اس کا گل خان بہادر ہے۔ وہ اپنے کچھ معرکوں کی کہانی اپنی اماں کو ضرور سنائے گا کہ کس طرف اس نے کئی دفعہ دشمن کو جان پر کھیل کر ختم کیا۔ کس طرف کئی بار ایسا ہوا کہ اس کی اپنی زندگی خطرے میں پڑگئی۔ لیکن وہ مطلق ہراساں نہ ہوا۔ وہ اماں کو بتائے گا کہ وہ اب بھی ایک فوجی چوکی تباہ کر کے آرہا ہے وہ ایک سچا مسلمان ہے۔ وہ اماں کو کارمل حکومت کے مظالم کی داستانیں سنائے گا اور بتائے گا کہ انہوں نے کس طرف جان کی بازی لگا کر کارمل حکومت اور روسیوں کوہلا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ علاقہ آزاد ہو چکا ہے جس پر اب صرف اہل حق کا کنٹرول ہےاور روسی اور کارمل فوجی اس علاقے میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ وہ اپنی ماں کو یہ خوشخبری سنائے گاکہ جلد بہت جلد وہ کارمل حکومت سے اپنے ملک کو نجات دلادیں گے۔
وہ گاؤں کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔گاؤں کے چھوٹے چھوٹے مکان بڑے بڑے دھبوں کی صورت میں دکھائی دینے لگے تھے اسے یوں لگا جیسے سارا گاؤں ابھی جاگ جائے گا۔ اس کے قدموں کی آواز سن کر سارے گاؤں کے لوگ اس سے ملنے چلے آئیں گے۔ گاؤں تاریکی میں ڈوبا ہو ا تھا ،خاموش ،پر سکون ،کوئی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ گل خان کے دل کی آواز تیز ہوگئی۔ قدموں میں بھی کچھ لڑکھڑاہٹ سی پیدا ہو ئی۔ آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔ اس نے اپنی آستین سے آنکھوں کو رگڑا اور پھر تیز تیز چلنے لگا۔
چند لمحوں بعد وہ گاؤں کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ یہ اس کا گاؤں تھا۔ جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ جہاں وہ بڑا ہوا تھا۔ جہاں اس کے باپ کی قبر تھی۔ جہاں اس کی شادی ہوئی تھی اور وہ زینب کو بیاہ کر اپنے گھر لایا تھا۔ اس گاؤں میں اس کی بہادر اور غیرت مند اماں رہتی تھی۔ اس گاؤں میں اس کے دوست تھے۔ سب لوگ اپنے تھے اس کہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اس کی اپنی بیٹی نوری سو رہی تھی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا:”میں جاتے ہی اسے جگا دوں گا۔اسے پیا ر کروں گا میں جتنی دیر گاؤں میں ٹھہروں گا نوری کو اپنی گود میں لیے بیٹھا رہوں گا۔“وہ ایک گلی میں داخل ہوا۔ اس گلی کے سرے پر اس کا گھر تھا۔ اس کے کانوں میں میٹھے میٹھے نغمے گونجنے لگے۔ اس نے اپنے آپ کو بے حد جذباتی محسوس کیا۔ لمبے عرصے کے بعد وہ پہلی بار اپنے گھر آرہا تھا۔ اتنی دیر وہ اپنے گھر سے غائب نہ ہو اتھا۔
اپنے گھر ،چھوٹے سے گھر کے دروازے کے سامنے جاکر وہ کھڑا ہو گیا۔ چند لمحے وہ گھر کے دروازے کو گھورتارہا۔ ابھی یہ دروازہ کھلے گا اور پھر۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ خاموشی ،سناٹا۔۔تاریکی۔۔۔ کوئی جواب سنائی نہ دیا۔ کسی کے قدموں کی چاپ نہ آئی۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔دھندلے ستارے ٹمٹمارہے تھے ایک بار پھر اس نے دستک دی۔ خاموشی۔۔سناٹا۔۔گل خان کےدل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ ایک عجیب سا درد سینے میں اٹھنے لگا تھا گھر کے اندر سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔خدایا۔۔اماں بیمارتو نہیں گل خان نے سوچاپھر اسے زینب کا خیال آیا ،زینب کو اٹھنا چاہیے۔ اسے دروازہ کھولنا چاہیے۔زینب بڑی خدمت گزار ہے ایسا تو کبھی نہیں ہو سکتاکہ وہ اماں کی دیکھ بھال اور خدمت سے غافل ہو گئی ہو۔
کون ہے۔۔؟اند رسے مدھم سی کراہتی ہوئی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔ میں ہوں۔۔ گل خان۔۔ گل خان۔۔ اسے یوں لگا جیسے تاریک اور خاموش گاؤں میں اس کی آواز گونجنے لگی میں ہوں۔۔گل خان۔۔گل خان۔ تم دروازہ کیوں نہیں کھولتے ؟میں۔۔۔ میں بہت دیر کے بعد ،بہت دور سے آیا ہوں۔ میرے پاس وقت کم ہے دروازہ کیوں نہیں کھولتے۔ دروازہ کھلا۔۔ آہستہ سے۔۔ گل خان تیزی سے آگے کو بڑھا لیکن سامنے ایک سایا کھڑا تھا دروازہ روک کر ، راستہ بند کر کےوہ سایہ پوچھ رہا کون ہو تم۔۔ ؟گل خان کا رد عمل بڑا شدید تھا وہ اپنے ہاتھ پھیلا کر بولا اماں۔۔اماں۔۔ میں گل خان ہوں تیرا بیٹا۔۔
گل خان۔۔سائے میں جنبش پیدا ہوئی۔ آواز مدھم اور کرب میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بیٹا توں آگیا۔ دوسرے لمحے ماں اور بیٹا ایک دوسرے کے گلے لگے تھے گل خان کی آنکھیں خود بخود آنسو بہانے لگیں تھیں۔ اماں کا کمزور وجود اس کے بازوں میں کانپ رہا تھا وہ کمزور نحیف اور ڈوبی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی:”گل خان۔ میرا بیٹا۔ میرا بیٹا۔ میرا بہادر بیٹا۔آگیا ؟۔آگیا؟“
ہاں اماں میں آگیا۔۔ چلو اندر چلو۔ مجھے واپس جانا ہے وقت کم ہے۔
وہ اپنی ماں کو سہارا دیے چلنے لگا چھوٹے سے صحن کو پار کر کے وہ اندر پہنچے گہرا گھپ اندھیرا تھا کوئی چراغ روشن نہ تھا اماں کی چار پائی سے گل خان کا پاؤں ٹکرا یا۔ اس نے اما ں کو چار پائی پر بیٹھا یا۔ اندھیرے میں اس کی آنکھیں گھور گھور کر کسی کو تلاش کر رہیں تھیں کمرے میں ایک ہی چار پائی بچھی تھی۔ اماں چراغ کہاں ہے ؟ اماں نے چند لمحے جواب نہ دیا۔وہ چار پائی پر بیٹھی ہانپ رہی تھی۔ گل خان نے اپنا بوری نما تھیلا زمین پر رکھ دیا۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر دیا سلائی کی ڈبیا نکالی اسی لمحے اسے اماں کی بوجھل آواز سنائی دی :”گل خان! چراغ نہیں ہے۔“
چراغ نہیں ہے۔۔۔۔ ؟چراغ نہیں ہے۔ اماں کیا کہہ رہی ہو !!!کیا تم لوگ اندھیرے میں سوتے ہو گھر میں چراغ نہیں جلاتے۔۔ ؟اماں خاموش رہی۔ گل خان کی نسیں پھٹنے لگیں تھیں وہ شدید تناؤ محسوس کر رہاتھا۔ اماں خاموش کیوں ہے۔ زینب کہاں ہے۔۔ ؟
”گل خان !بیٹھ جا میرے پاس بیٹھ جا “۔۔ اسے اماں کی سر گوشی سنائی دی۔
مگر اماں چراغ۔۔چراغ۔۔ !چراغ نہیں ہے !۔۔گل خان بیٹھ جا۔۔۔ بیٹھ جا۔ !
بوکھلا یا ہوا حواس باختہ گل خان اپنی اماں کے پاس چار پائی پر بیٹھا اور ڈھیلی اور کمزور چار پائی چر چرانے لگی۔ گل خان نے محسوس کیا کہ اس کا جسم پسینے میں بھیگ رہا ہے۔ اماں !اس نے اپنی بوڑھی ماں کے کندھے کو چھو کر کہا:”اماں ! “اماں کا وجود زور سے کانپا،پھر وہ بوجھل لہجہ میں رک رک کر بولنے لگی :”گل خان !بتا تو نے کتنے دشمنوں کو مارا؟بتا تو نے کتنے سرکاری فوجیوں کا سر کاٹا ؟گل خان !تو کہیں بھول تو نہیں گیا کہ دشمن کا سر جھکا دینا چاہیے اور وطن کے دشمن کا سر کاٹ دیناچاہیے۔ بتا گل خان !تو نے کوئی زخم اپنی پیٹھ پر تو نہیں کھایا۔ ؟“
گل خان نے اپنی اماں کے دونوں کمزور ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر کہا:”اماں! میں تیرابیٹا ہوں۔ تیرا دودھ پیا ہے میں نے۔ میں نے بہت سے دشمنوں کو جہنم میں پہنچا دیا ہے۔ بہت سی چوکیوں کا صفایا کر دیا ہے۔ اماں اب بھی میں ایک چوکی کا صفایا کر کے آرہا ہوں۔ سارا علاقہ اب آزاد ہو گیا ہے۔ اس پورے علاقے پر اب حق والوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ “ اللہ !تیرا شکر ہے۔ تیرا شکر ہے اللہ۔۔۔ اماں کی باریک میٹھی میٹھی آواز سنائی دی۔
پھر اچانک اس کے بوڑھے وجود میں حرکت اور جنبش پیدا ہوئی اور اس نے یکدم چار پائی سے اٹھتے ہوے کہا :” گل خان اٹھ! میرے ساتھ چل !“اماں! کہاں چلوں اس وقت؟
”گل خان! کچھ نہ بول… کچھ نہ پوچھ۔ تو اٹھ میرے ساتھ چل !تو نے کہا تھا کہ وقت کم ہے تجھے واپس بھی جانا ہے۔ “ہاں اماں! میرے پاس وقت کم ہے ،مجھے جلدی واپس جانا ہے ”تو پھر چل میرے ساتھ ،وقت ضائع نہ کر گل خان !“
سینکڑوں سوال گل خان کہ دل میں مچل رہے تھے لیکن وہ ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ”میرا ہاتھ پکڑلے !مجھے گھر سے با ہر لے چل !“گھر سے باہر؟ گل خان نے پوچھا۔ہاں! گھر سے باہر چل گل خان !اپنی ماں کو سہارا دیےاماں۔۔ زینب۔۔کہاں ہے نوری کہاں ہے ؟۔انھیں بھی ساتھ لے لیں۔ گل خان کے منہ سے بے اختیار یہ بات نکل گئی۔ اماں کا کلیجہ یکدم بہت ہی ملائم بہت ہی نرم اور درد بھرا ہو گیا۔
نوری۔۔۔ زینب۔۔۔ وہ بڑبڑائی:” گل خان! میں تمہیں انہیں کے پاس لے کر جا رہی ہوں ،چل!“”اماں وہ کہاں ہیں ؟تیرے پاس کیوں نہیں؟“انجانے خدشوں کے تصور سے گل خان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔اس کا خون کھولنے لگا۔”چپ چاپ میرے بیتے میرے ساتھ چل !میرے ساتھ۔“گل خان نے اپنی اماں کو سہارا دے رکھا تھا ایک دم اسے ایک خیال آیا۔ وہ بولا :”اماں !تو ایک منٹ یہاں ٹھہر میں اپناتھیلا لے آؤں۔ “وہ تیزی سے کمرے میں گیا زمین پر گراپڑا تھیلا اٹھایا اور لپک کر اماں کے پاس آگیا۔اس نے وقت کی کمی کا احساس کر لیا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ نوری اور زینب کہاں ہیں؟ اور اماں اسے کہاں لے جا رہی ہے۔؟
ماں بیٹا دونوں گاؤ ں کی گلیوں سے گزرنے لگے۔ یہ ایک عجیب منظر تھا۔ رات تھی اور سناٹا تھا اور دونوں کے سینے میں طوفان مچل رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعدوہ گاؤں کے باہر تھے۔ گل خان دیکھ رہا تھا کہ اس کی اماں کا سانس پھو ل رہا ہے۔ اس کے لیے قدم اٹھانا مشکل ہو رہا ہے وہ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ اس نے پوچھا:”اماں !کتنی دور جانا ہے؟ آمیں تجھے اٹھالوں۔ “
”نہیں گل خان!میں تیرے ساتھ چلوں گی بیٹے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلوں گی فاصلوں کا کیا ہے۔ فاصلے تو مٹ ہی جاتے ہیں ،ہمیں زیادہ دور نہیں جانا۔“گل خان کا اعصابی تناؤبڑھتا جا رہا تھا۔ ایسی کشمکش اس نے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ اماں نے کبھی ایسارازدارانہ اور پر اسرارانداز اختیار نہ کیا تھا۔ ہزاروں خیال گل خان کے دل میں پیدا ہورہے تھے۔ کیا زینب کسی دوسرے کے گھر میں چلی گئی ہے۔ لیکن کیوں ؟کیا اماں اور زینب کا کسی بات پر جھگڑا ہو گیا ہے۔ مگر یہ جھگڑا کیوں ہوا۔زینب اور اماں جھگڑالو تو نہیں تھیں پھر ان میں جھگڑا کیوں ہوا۔ میں زینب کو خوب سزا دوں گا۔اس سے کہوں کا کہ و ہ اماں سے معافی مانگے ،وہ اماں کو اکیلی چھوڑ کر کیوں گئی۔ غصے سے گل خان کا خون کھولنے لگا۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا وہ گاؤں سے باہر نکل آئے تھےادھر تو کوئی گھر نہ تھا۔ پھر اماں اسے کہاں لیے جا رہی تھی۔زینب اور نوری کہاں ہیں ؟ کہاں ہیں؟
اماں گھسٹ رہی تھی۔ ایک ایک قدم اٹھانا اس کے لیے دوبھر ہو رہا تھا۔ گل خان اسے سہارا دیے چلتا رہا پھر اماں کے قدم رک گئے۔ گل خان کا سانس ایک لمحے کے لیےرک گیا
سامنے گاؤں کا قبرستان تھا …..”مجھے پہلے بھی کم دکھائی دیتا تھا۔ گل خان لیکن اب تو میں تقریباًاندھی ہو گئی ہو ں۔ پھر بھی اپنی بہواور اپنی پوتی کی آرام گاہ کو تلاش کر لیتی ہوں۔ “ آرام گاہ۔۔ آرام گاہ۔۔،گل خان چیخا اماں کیا کہہ رہی ہو ؟آہستہ بولو ،اماں نے کہا” نوری یہا ں سو رہی ہے۔ وہ جاگ جائے گی گل خان !تو بھول گیا جب تو گیا تھا تو نوری سو رہی تھی۔ نوری آج بھی سورہی ہے۔۔۔ آج بھی سو رہی ہے نوری۔ “
اماں۔ اماں۔گل خان کی چیخ آنسوؤں بھری سسکیوں میں تبدیل ہو گئی۔
چل۔چل۔وہ سامنے۔ہاں دائیں ہاتھ۔چل !اماں بول رہی تھی۔ اب وہ گل خان کو سہارا دیے ہوئے تھی۔ یکدم وہ دو قبروں کے درمیان بیٹھ گئی۔ تاریکی میں اس کے ہاتھ دونوں قبروں کو ٹٹول رہے تھے۔ ”ہاں یہ ہے زینب۔۔ اور یہاں۔یہاں نوری سو رہی ہے۔ “گل خان نے دونوں قبروں کو دیکھا۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں کے سامنے دو قبریں تھیں۔ ایک چھوٹی سی۔ ایک بڑی۔ وہ چھوٹی قبر کے ساتھ لپٹ گیا او راس کے آنسو بہتے چلے گئے وہ روتا رہا۔ پھر سسکیوں کے درمیان چیخا:”اماں! یہ کیسے ہوا؟“گل خان کی بوڑھی اماں اپنی بہو کی قبر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ پیار سے اسے یوں بہلا رہی تھی۔ جیسے یہ زینب کا جیتا جاگتا وجود ہو۔ جیسے اس کی جلد کو چھو رہی ہو۔ تاریکی اور سناٹے میں اماں کی آوا ز گونجنے لگی۔ بوجھل رکی رکی آواز۔۔اب اس کی آواز میں آنسوؤں کی نمی نہ تھی ”گل خان ایک ماہ گیارہ دن ہوئے وہ آئے تھے۔۔ وہ ظالم جنہوں نے ہمارے وطن کو روند رکھا ہے ،وہ آئے۔ انہوں نے گاؤں کو گھیرے میں لیا ،ہم سب کو جمع کر لیا،بھیڑبکریوں کی طرح انہوں نے ہمارے گاؤں کی تلاشی لی۔ تمہارے بارے میں اور تمہارے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا۔کسی کو تھپڑمارا،کسی کو گھونسا۔ کسی کو ٹھوکر۔
تم تو جانتے ہو کہ گاؤں میں جوان کہاں رہ گئے بوڑھے بچے اور عورتیں ہی گاؤں میں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے گل خان تم جیسے لوگوں کی مدد کی تو وہ گاؤں کو جلا دیں گے عورتوں کو بے آبرو کر دیں گے۔ پھر وہ بچوں کو دیکھنے لگے۔ ٹٹولنے لگے جیسے قصائی بکریوں اور بکروں کو ٹٹولتا ہے۔ بالکل اسی طرح انہوں نے گلفشاں کے دس سالہ بیٹے کو گھسیٹ لیا اور بولے یہ شہر جائے گا ، وہاں پڑھے لکھے گا روس جائے گا۔ اعلیٰ تعلیم پائے گا۔ گلفشاں اپنے بیٹے کے ساتھ چمٹ گئی وہ اسے گھسیٹنے لگے عورتوں نے گلفشاں کو اپنے گھیرے میں لے لیا وہ رائفلوں کے بٹ مارنے لگے۔ انھوں نے گولی چلا دی۔ گلفشاں مر گئی۔ اس کابیٹا مر گیا۔ ماں بیٹے کا خون ایک دوسرے کے ساتھ مل گیا۔
گل خان زینب بڑی بہادر تھی جب ایک روسی سپاہی نوری کی طرف لپکاتو اس نے نوری کو نیچے زمین پر کھڑا کر دیا۔ ایک سپاہی سے رائفل چھین لی۔ پھر وہ گولیاں برسانے لگی۔ کئی سپاہی مر گئے۔ کئی زخمی ہو ئے لیکن وہ خود بھی گولیوں سے چھلنی ہو گئی۔ پھر جب اس نے سپاہیوں کو نوری کی طرف بڑھتے دیکھا ،تو مرتے مرتے اس میں اتنی طاقت آگئی کہ اس نے رائفل سنبھالی اور اپنی بیٹی نوری کو نشانہ بنا کر گولی چلا دی۔ گل خان !نوری کو زینب نے روسیوں کے ہاتھ نہ لگنے دیا۔ جب وہ مر رہی تھی نوری کا سر اس کی گودمیں تھا اور اس نے دم توڑتے ہوئے کہا تھا:” اماں! گل خان آئے تو ا س سے کہہ دینا میں نے اس کی عزت کی حفاظت کی۔ میں نے نوری کو کسی کافر کا ہاتھ نہیں لگنے دیا۔ اماں ! ان سے کہہ دینا جب وہ گیا تھا تو نوری سو رہی تھی جب وہ آئے گا توبھی نوری سو رہی ہو گی۔ “گل خان کی آنکھوں کے آنسوخشک ہو گئے تھے۔ اسے ایک عجیب طرح کا قرار آ گیا تھا۔ اس کی نگاہیں دونوں قبروں کا طواف کر رہی تھیں ماں اور بیٹی کی قبریں۔ ایک بڑی قبر۔ایک چھوٹی قبر۔ چھوٹی قبر ،بڑی قبر کے آغوش میں تھی۔ اماں بول رہی تھی اس روز بہت عورتیں ماری گئیں۔ بہت بچے مارے گئے۔ لیکن کوئی کافر کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکا۔ گل خان گاؤں میں چند بوڑھے اور چند بوڑھی عورتیں رہ گئی ہیں ہم نے سب کو آخری غسل دیا۔ ہم نے سب کو دفنا دیا۔ اچانک اماں کی آواز میں ایک گونج پیدا ہو گئی۔”دیکھ گل خان !ا س قبرستان میں تیرا باپ سو رہا ہے۔ اس قبرستان میں ہمارے گاؤں کی ساری جوان عورتیں اور سارے بچے ہمیشہ کی نیند سو رہے ہیں۔۔ گل خان !گل خان!میں بھی یہیں سوؤں گی “گل خان تاریکی میں ابھرے ہوئے قبروں کے ڈھیر دیکھ رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان ہلکا سفید ہو رہا تھا وہ اپنے گاؤں آچکا تھا۔ اسے اپنے جن پیاروں سے ملنا تھا۔ ان سے ملاقات کر لی تھی۔ اس نے جو آوازیں سننی تھیں۔ سن لی تھیں۔ جن چہروں کو دیکھنا تھا ان کو دیکھ لیا تھا۔ ”تیرا وقت ہو گیا ہو گا۔ “اماں نے بوجھل لہجے میں کہا۔ ”تو جاگل خان! ابھی کافر زندہ ہیں۔ ابھی دشمن باقی ہیں۔ “پھر سانس لے کر رک کر اماں نے کہا:” گل خان !میری فکر نہ کرنا۔ میں اپنوں میں ہوں۔ اپنوں کہ ساتھ سو جاؤں گی ،وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ “
گل خان نے زمین پر قبروں کے درمیان پڑا ہوا اپنا تھیلا اٹھایا۔ اماں سے کہا :”چل تجھے گھر تک پہنچا دوں۔ “
”نہیں گل خان !میں چلی جاؤں گی۔ تو اپنا فرض پورا کرنے کے لیے جا ! دیر نہ کر نوری سو رہی ہے۔ زینب سو رہی ہے۔ سب سو رہے ہیں۔ میں بھی سو جاؤں گی۔ “
اماں اماں !گل خان کی آواز رندھنے لگی۔
”رونا نہیں! بس جتنا رونا تھا رو لیا گل خان اب آنسوؤں کو سنبھال کے رکھ ،بھلا تو کیوں روتا ہے۔ یہاں نہ تیری بیٹی کو کوئی تکلیف ہے نہ بیوی کو۔ تیری ماں بھی اپنے دن پورے کر لے گی۔ مگر بیٹے !ان دشمنوں کو ختم کر دے۔ “
گل خان نے سر اپنی ماں کے سامنے جھکا دیا۔ اماں کے بوڑھے نحیف ،کمزور ہاتھوں نے اس کے سر کو تھپتھپایا۔ہلکی سی سسکی بھری ،پھر تن کر کھڑی ہو گئی۔
”اب تو جا گل خان !تیرا اللہ حافظ وناصر ہو۔ دیکھ پیٹھ پر گولی نہ کھانا۔ دشمن کا سر کاٹنا نہ بھولنا۔“گل خان نے قبرستان پر نظر ڈالی۔ پھر عجیب لہجے میں بولا
”اماں سن !اب ہمارے دشمن۔ یہاں سے کبھی نہ جائیں گے۔ کبھی نہ جا سکیں گے۔اماں ہم انھیں جانے ہی نہ دیں گے۔ ان سب کا یہاں قبرستان بنےگا۔“
”ان شا٫اللہ ،اماں نے کہا۔“
گل خان چل پڑا ،رات دم توڑرہی تھی۔