ہندو ذہنیت جنم لی رہی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ہندو ذہنیت جنم لی رہی ہے
عابد حسین ،بورے والا
خطرہ ہے کہ ہندی موسیقی کے طوفاں خیز ہچکولے کہیں ہمارے ایمان کی نِیا کو ڈبو ہی دیں۔بھارتی فلموں کے گانوں میں اسلام سے متعلق الفاظ کو غلط طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اسلامی سلوگنز اور سمبلز کو گانوں میں ملاکر ان کا تقدس پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں، بلکہ کچھ ان حقائق سے لاعلم ہیں تو کچھ جانتے بوجھتے ان ہی گانوں سے تفریح حاصل کررہے ہیں۔
٭ اگست 1998ءمیں ریلیز کی گئی فلم ”دل سے“ کا گانا چھیّاں چھیّاں میں، جنت اور آیات کے لفظوں کو کچھ یوں استعمال کیا گیا ہے: جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں ، پاؤں کے نیچے جنت ہوگی ..چل چھیّاں چھیّاں ..تعویذ بنا کے پہنو ..اسے آیت کی طرح مل جائے کہیں.. وہ یار ہے جو ایماں کی طرح میرا نغمہ وہی میرا کلمہ وہی....
٭ جولائی 2002ءمیں ریلیز کی گئی فلم ”مجھ سے دوستی کروگی“ کے گانے کے الفاظ ہیں: جانے دل میں کب سے ہے تو ....مجھ کو میرے رب کی قسم، یارا رب سے پہلے ہے تو۔
٭ 2006ءمیں کشمیر کے موضوع پر بننے والی فلم ”فنا“ میں ایک پہلو یہ تھا کہ تحریک ِآزادی کشمیر کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی فلم کے ایک گانے میں کہا گیا کہ چاند سفارش جو کرتا ہماری....دیتا وہ تم کو بتا ....شرم و حیا کے پردے گرا کے کرنی ہے ہم کو خطا....سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ ....اللہ سبحانہ تعالیٰ کی صفات ِمبارکہ اور اسماءحسنیٰ کے ساتھ بے ہودہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہی، اس کے پس منظر میں نازبیا حرکتوں کی عکس بندی ہوتی ہے اور پس منظر میں رقص و سرود کے منظر فلمائے جاتے ہیں۔
٭ نومبر 2007ءمیں ریلیز کی گئی فلم ”سانوریا“ کے گانے کے الفاظ ہیں جب سے تیرے نینا میرے نینوں سے لاگے ری ....تب سے دیوانہ ہوا ....سب سے بیگانہ ہوا ....رب بھی دیوانہ لاگے رے (نعوذباللہ) اسی فلم کے ایک اور گانے میں ماشااللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں دل نشیں دلکشی ہو یا جنت کا نور ہو ماشااللہ ماشااللہ ماشااللہ ....
٭ اکتوبر2007ءمیں ریلیز کی گئی فلم بھول بھلیاں کا گانا: معاف کریں ، انصاف کریں ، رب ہو نہ خفا، جان جہاں سے بیگانے ، جہاں سے اب میں ہوں ، جدا جان لیا ہے میں نے ، مان لیا ہے میں نے ، پیار کو اپنا خدا سجدہ کروں میں پیار کا سجدہ سجدہ کروں میں یار کا سجدہ سجدہ کروں دیدار کا سجدہ۔
٭ جولائی2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم ”گجنی“ کے گانے کے الفاظ ہیں ..کیسے مجھے تم مل گئیں. قسمت پہ آئے نہ یقین ...میں تو یہ سوچتا تھا ...کہ آج کل اوپر والے کو فرصت نہیں ...پھر بھی تمہیں بنا کے ..وہ میری نظر میں چڑھ گیا ...رتبے میں وہ اور بڑھ گیا .
٭ اگست2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم بچنا اے حسینو کا گانا: سجدے میں یوں ہی جھکتا ہوں ....تم پہ ہی آکے رکتا ہوں ....کیا یہ سب کو ہوتا ہے.... ہم کو کیا لینا ہے سب سے.... تم سے ہی سب باتیں اب سے ....بن گئے ہو تم میری دعا ....خدا جانے میں فدا ہوں ....خدا جانے میں مٹ گیا ہوں ....خدا جانے یہ کیوں ہوا کہ بن گئے ہو تم میرے خدا۔
٭ دسمبر 2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم ”رب نے بنا دی جوڑی“ کا گانا ...تجھ میں رب دکھتا ہے کے الفاظ ہیں ...تجھ میں رب دکھتا ہے ...یارا میں کیا کروں ...سجدے میں دل جھکتا ہے...یارا میں کیا کروں۔
٭ جولائی 2009ءمیں فلمlove aaj kal کے لیے بھی کچھ اسی قسم کا گانا ’آج دن چڑھیا‘ گایا ہے۔جس کے الفاظ ہیں: مانگا جو میرا ہے ....جاتا کیا تیرا ہے.... میں نے کون سی تجھ سے جنت مانگ لی ....کیسا خدا ہے تو بس نام کا ہے ....تو ربا جو تیری اتنی سی بھی نہ چلی ....چاہے جو کردے تو مجھ کو عطا جیتی رہے سلطنت تیری ....جیتی رہے عاشقی میری۔
٭ فروری 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلمMy name is khan کے گانے کو بھی پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے: اب جان لوٹ جائے ، یہ جہاں چھوٹ جائے ، سنگ پیار رہے ، میں رہوں نہ رہوں ، سجدہ تیرا سجدہ کروں ، میں تیرا سجدہ۔
٭ مارچ 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم ”پرنس“ میں عاطف اسلم نے ایک گانا گایا ہے ”تیرے لیے“ اس میں کہا گیا ہے۔۔۔۔۔ جنتیں سجائیں میں نے تیرے لیے۔۔۔۔ چھوڑ دی میں نے خدائی تیرے لیے
٭ ولائی 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم Once upon time in mumbiکے گانے کے الفاظ ہیں ....تم جو آئے زندگی میں بات بن گئی ....عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی....یہ گانا پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے۔ اس کے علاوراحت فتح علی خان نے
٭ جولائی 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم i hate love story کا گانا بھی ملاحظہ کریں..صدقہ کیا یوں عشق کا کہ سر جھکا جہاں دیدار ہوا ، وہ ٹھہری تیری ادا کہ رک بھی گیا میرا خدا۔ میری بہنو !جہاں بھارتی ذرائع ابلاغ اسلام اور اس کی علامات و تعلیمات کو مسخ کرنے میں مصروف ہیں تو وہیں وہ اپنے ہندو مذہب سے عقیدت اور اس کی دعوت و پرچار، اپنی مذہبی تقریبات اور ہندو معاشرے میں رائج روایات کی پاسداری اور اس کی ترویج جاری رکھے ہوئے۔ ان تمام حالات میں ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم سب بھارت کے اس اسلام مخالف اور پاکستان مخالف پرپیگنڈے کا جواب دیں نہ کہ خود ان ہی کے رنگ میں رنگ جائیں تاکہ ہندو ذہنیت کہیں ”امن کی آشا “ کے نعروں میں ہمیں اپنی روایات سے ہی محروم نہ کر جائے۔