ستی اور ہم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ستی اور ہم
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اسلام نے جاہلانہ رسوم ورواج کو جس طرح کچل کر ختم کیا ہے اس طرح کی تاریخ کا حامل کوئی اور مذھب نہیں ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا:
كل شيء من أمر الجاهلية تحت قدمي موضوع.
(صحیح مسلم: رقم 1218)
جاہلیت والا ہر کام میر ے پاؤ ں کی نوک کے نیچے ہے۔
لیکن افسوس آج ہم نے دوبار ہ انہی جا ہلانہ رسوم کو گلے لگا لیا ہے۔ چونکہ ہم بہت عرصہ سے ہند وانہ معاشرہ میں جی رہے ہیں ،اس لئے ہندؤوں کی ایک عادت کہ بیوہ عورت سے نکاح نہ کرنا ہمارے اندر سرایت کر گئی ہے۔ ہندو لوگ اپنی عورتوں کو بیوہ ہونے کے بعد خاوند کے ساتھ ہی جلا دیتے تھے ، عورتیں جل مرنے کو تیار اسی لئے ہو جاتیں تھی کہ زمانے کے تلخ حقائق کا سامنا اپنی بیوگی کے ساتھ کیسے کریں گی۔ عورتوں کی جل مرنے کی اس رسم کو" ستی کی رسم" کہتے ہیں، مگر اسلام نے نکاح بیو گان پر زور دیا ہے کہ معاشرہ بے راہ روی سے محفوظ بھی رہے اور عورت جیسی صنف نازک بھی اپنی عفت کا آبگینہ گناہ کی نحوست سے بچا سکے۔ لیکن ہم لوگوں نے بیوہ سے نکا ح کرنے کو اہمیت نہ دی ،نتیجۃً حالات سے دو چار ہو کر بیوہ زندہ رہتے ہوئے بھی بے رحم معاشرے کی آگ میں جل کر ستی ہو گئی۔
علماء کرام نے دامے درمے سخنےاس لا پر واہی کی طرف قوم کو متوجہ تو کیا ہے مگر عملاً معا ملہ سست روی کا شکار رہا۔ بندہ نے پندرہ اپریل 2012ء کو حضرت مولانا مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کی بیوہ بیٹی سے عقد ثالث کر کے اس رسم کو توڑاہے۔ آپ بھی قدم بڑھائیں تاکہ ان مروجہ رسومات کی بیخ کنی ہو سکے اور اسلامی معاشرہ پاکیزگی کا نمونہ بن سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامی الکریم