نفع بخش تجارت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نفع بخش تجارت
مولانا منیر احمد جھنگوی
حضرت عبداللہ 118 ؁ میں پیدا ہوئے او ر 181 ؁ میں انتقال ہوا یہ وہ زمانہ تھا کہ نہ تو اتنے علوم مرتب ہوئے تھے نہ سائنس کی یہ تحقیقات سامنے آئی تھیں نہ اتنے فنون ایجاد ہوئے تھے نہ باقاعدہ اسکول وکالج تھے نہ بڑی بڑی یونیورسٹیا ں تھیں بس جگہ جگہ دین کے کچھ علماء تھے جو قرآن وحدیث کے ماہر تھے دین کا گہرا علم رکھتے تھے اور بغیر کچھ فیس لیے لوگوں کو اللہ جل جلالہ کا دین سکھاتے تھے درو دور سے طالب علم سفر کر کرے ان کے پاس پہنچتے ان کی صحبت میں رہتے اور ا ن سے علم حاصل کرتے اس زمانہ کا علم نہ تو دولت کمانے کے لیے تھا اور نہ ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے۔ لوگ اپنے شوق سے پڑھتے اپنی دولت لٹا کر علم سیکھتے اور پھر پوری بے نیازی کے ساتھ بغیر کسی طلب کے دوسروں کو سکھاتے۔ دوسروں تک دین پہنچانا اور دین کی باتیں سکھانا اپنا دینی فرض سمجھتے اسی زمانہ میں لوگ تصحیح نیت کے ساتھ قرآن ،حدیث ، فقہ ،ادب شعر نحو سب ہی کچھ پڑھتے اور سیکھتے تھے لیکن خاص طور پر حدیث کا بڑا چرچا تھا۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں معلوم کرنا ان کو جمع کرنا سمجھنا اور یاد رکھنا اسی پر لوگوں کی ساری توجہ رہتی تھی اس کو سب سے بڑا کام سمجھتے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ بہت بڑا علمی اور دینی کام تھا جو ان بزرگوں نے انجام دیا۔
حدیث :
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی میں جو کچھ کیا اور فرمایا پیارے صحابہ نے اسی کو دیکھا سنا یاد رکھا اور اس پر عمل کیا اسی کا نام حدیث ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چونکہ دین کےی تبلیغ کےلیے مختلف شہروں میں پھیل گئے تھے اس لیے حدیث کا شوق رکھنے والے ان کے پتے معلوم کر کے دور دور سے سفر کر کے ان کے پاس پہنچتے ، ان سے حدیثیں سنے لکھتے اور یاد کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھنے والے ان بزرگوں کو تابعین کہتے ہیں جب صحابہ دنیا سے رخصت ہوگئے تو تابعین کا زمانہ آیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیثیں سنی تھیں سمجھی تھیں اور خود اپنی آنکھوں سے ان نیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دیدار کیا تھا پھر تابعین عظام سے جن شخصیات نے کسب فیض کیا ان مقدس ہستیوں کو تبع تابعین رحمہم اللہ کہتے ہیں۔
فقہ :
تابعین اور تبع تابعین نے قرآن وحدیث کو سمجھنے میں پانی پوری پوری عمریں کھپائیں قرآن وحدیث کی باریکیوں کو خوب خوب سمجھا ان کا گہرا علم حاصل کیا اور ان کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنی زندگیاں گزاریں لیکن قرآن وحدیث میں یہ تو ہے نہیں کہ انسان کی ضرورت کے سارے چھوٹے بڑت مسئلے بیان کردیے گئے ہوں ان میں تو موٹی موٹی اصولی باتیں بیان کی گئی ہیں اس لیے ان بزرگوں کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے امت کے سامنے لاکھوں مسائل قرآن وسنت سے اخذ کر کے پیش کیے اور قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی راہ آسان کی ہماری زندگی کی بے شمار ضرورتیں ہیں قدم قدم پر ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کیا ہے ؟ شریعت کا مسئلہ کیا ہے ؟ کس راہ پر چلنا اس کے مطابق ہے اور کس پر خلاف ؟ان بزرگوں نے ہماری ایک ایک ضرورت کو سامنے رکھ کر قرآن وحدیث سے شریعت کے مسائل اور احکام سمجھنے کے اصول بنائے اور تفصیل کے ساتھ وہ مسئلے اور احکام کتابوں میں جمع کیے اسی علم کا نام فقہ ہے فقہ کے معنی ہیں سمجھ بوجھ اس علم کو فقہ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث سے زندگی کے ہر معاملے کے لیے حکم نکالنا اور قرآن حدیث کی منشاء کو سمجھنا بڑا سوجھ بوجھ کا کام ہے اس کے لیے دین کے گہرے علم اور انتہائی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے فقہ جاننے والوں اور قرآن وحدیث سے احکام معلوم کرنے والوں کو فقیہہ کہتے ہیں ان بزرگوں کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے ان ہی کی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملے میں انتہائی آسان اور اطمینان کے ساتھ دین پر عمل کر سکتے ہیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر چل سکتے ہیں اور دین ودنیا کے لحاظ سے ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں رہتی زندگی تک مسلمان ان کی محنتوں اور کوششوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے ان کی قدر کریں گے ان کے احسان مند رہیں گے اور ان کے اس کارنامے پر فخر کرتے رہیں گے۔
مبارک کی مبارک آنکھیں :
حضرت عبداللہ رحمہ اللہ کا وطن مرو خراسان کا ایک مشہور علمی شہر ہے جہاں بڑے بڑے عالم موجود تھے ہر طرف علم کا چرچا تھا پھر ان کے والدین کی انتہائی خواہش بھی یہ تھی کہ ان کا پیارا بیٹا علم کے آسمان پر سورج بن چمکے اس کے لیے شروع ہی سے حضرت کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی گئی اور زمانے کے رواج کے مطابق ان کو پرھانے لکھانے کی پوری پوری کوشش کی گئی دراصل علم کا شوق ان کو جوانی میں ہوا کتنی مبارک تھی وہ گھڑی جب حضرت عبداللہ کو اللہ تعالی نے توبہ کی توفیق بخشی اور ان کی زندگی میں ایک پاکیزہ انقلاب آیا اور ہر طرف سے منہ پھیر کر وہ پوری یکسوئی کے ساتھ دین کا علم حاصل کرنے میں لگ گئے اور پھر تو ان کے شوق کا یہ حال تھا کہ اپنا سب کچھ علم کی راہ میں لٹا دیا۔
ایک مرتبہ ان کے والد نے کاروبار کے لیے ان کو پچاس ہزار درہم دیے۔ حضرت نے وہ رقم لے لی اور سفر پر چل دیے دور دور ملکوں کے سفر کیے بڑے بڑے علما کی خدمت میں پہنچے ان سے فیض حاصل کیا اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفتر کے دفتر جمع کرکے گھر واپس آئے۔ حضرت مبارک رحمہ اللہ بیٹے کی آمد کی خبر سن کر استقبال کے لیے گئے پوچھا : کہو بیٹے !تجارتی سفر کیسا رہا ؟ کیا کچھ کمایا ؟ حضرت عبداللہ نے نہایت اطمینان اور سنجیدگی سے جواب دیا؛ ابا جان خدا کا شکر ہے میں نے بہت کچھ کمایا لوگ تو ایسی تجارتوں میں رقم لگاتے ہیں جن کا نفع بس اس دنیا کی زندگی ہی میں ملتا ہے لیکن میں نے اپنی رقم ایک ایسی تجارت میں لگائی ہے جس کا فائدہ دونوں جہانوں میں ملے گا۔
حضرت مبارک رحمہ اللہ بیٹے کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے پوچھا؛ کون سی تجارت ہے جس کا تمہیں دونوں جہاں میں ملے گا ؟ بتاؤ تو سہی کیا کما کر لائے ہو ؟ حضرت عبداللہ نے حدیث کے دفتروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ ہیں وہ دونوں جہانوں میں نفع دینے والا مال ، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا خزانہ میں نے اسی خزانے کو حاصل کرنے میں اپنی ساری دولت لگادی۔ حضرت مبارک رحمہ اللہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے اٹھے اور بیٹے کو گلے لگایا دعائیں دیں اللہ کا شکر ہے ادا کیا بیٹے کو گھر لے گئے اور تیس ہزار کی اور رقم دے کر کہا بیٹے یہ لو اور اگر تمہاری کامیاب تجارت میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کو پورا کر لو اللہ تعالی تمہیں تجارت میں برکت دے اور اس کے نفع سے دونوں جہاں میں تمہیں مالا مال کرے آمین۔
سفر علم :
حضرت عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں جمع کرنے کےلیے بہت درو دور کے سفرکیے شہر شہر گھومتے حضرت کے مشہور شاگرد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں دین کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت عبداللہ رحمہ اللہ سے زیادہ سفر کرنے والا ان کے زمانہ میں کوئی نہیں تھا خصوصیت سے جن ملکوں کا سفر کیا ان میں سر فہرست شام ،مصر کوفہ بصرہ یمن اور حجاز ہیں۔
مشہور اساتذہ : حضرت عبداللہ کا خود اپنا بیان ہے کہ میں نے چارہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا جن میں خصوصیت سے سرتاج الفقہاء والمحدثین امامنا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت تابعی ہیں اور محدث بےبدل حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے اکتساب فیض کیا۔
مقبولیت :
ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ رقہ تشریف لے گئے خلیفہ ہارون الرشید بھی وہاں موجود تھے شہر میں ہر طرف آپ کے آنے کا چرچا تھا استقبال کی تیاریاں تھیں لوگ جوق در جوق آپ کے دیدار کے لیے چلے آرہے تھے۔ شاہی بالا خانے پر ہارون الرشید کی ایک لونڈی بیٹھی یہ منظر دیکھ رہی تھی بہت حیران ہوئی۔ آخر ایسا کون سا آدمی ہے جس کے دیکھنے کے لیے لوگ بے تاب ہیں معلوم کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ مشرق ومغرب کے عالم حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تشریف لارہے ہیں اس نے کہا سچی بادشاہی تو حضرت عبداللہ بن مبارک کو حاصل ہے بھلا ہارون کی بھی کوئی بادشاہی ہےکہ لوگ فوج اور ڈنڈے کے زور سے لائے جاتے ہیں۔
اعزاز واکرام :
ایک مرتبہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں امام مالک سے ملنے کے لیے پہنچے امام مالک رحمہ اللہ اپنی شاہانہ شان کے ساتھ طلبا کو حدیث پڑھانے میں مشغول تھے جونہی آپ کو دیکھا فوراً اپنی جگہ سے اٹھے آپ سے گلے ملے اور نہایت عزت کے ساتھ آپ اپنی مسند پر بٹھایا طلباء کو اس واقعہ پر بڑی حیرت تھی امام مالک رحمہ اللہ نےاس کیفیت کو بھانپتے ہوئے کہا کہ عزیزو یہ خراسان کے فقیہہ ہیں۔ یوں تو آپ کی زندگی سرتاپا بھلائی اور نیکی ہی تھی لیکن چند خوبیاں ابھری ہوئی تھیں کہ حضرت کا نام سنتے ہی ان خوبیوں کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے

خدا کا خوف

دین کی صحیح سمجھ

عبادت

حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

امیروں سے بے نیازی

عاجزی اور تواضع

مخلوق کے ساتھ حسن سلوک

دین کی اشاعت

جہاد کا شوق غرض ہر ایک اچھے وصف سے آپ کی زندگی پر تھی۔
خدا کا خوف :
مدینہ منورہ کے مشہور عالم حضرت قاسم بن احمد رحمہ اللہ اکثر سفر میں حضرت عبداللہ رحمہ اللہ کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک بار فرمانے لگے میں کبھی کبھی یہ سوچتا تھا کہ آخر حضرت عبداللہ رحمہ اللہ میں وہ کون سی خوبی ہے جس کی وجہ سے ان کی اتنی قدر ہے نماز تلاوت حج جہاد روزہ غرضیکہ ہر عبادت میں ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں لیکن پھر بھی جہاں دیکھیے لوگوں کی زبان پر انہی کا نام ہے اور انہی کی قدر ہے ایک مرتبہ ہم لوگ شام کے سفر پر جارہے تھے راستے میں رات ہوگئی ایک جگہ ٹھہرے کھانے کے لیے جب لوگ دستر خوان پر بیٹھے تو اتفاق کی بات ہے کہ یکایک چراغ بجھ گیا خیر ایک آدمی نے چراغ جلایا جب روشنی ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عبداللہ رحمہ اللہ کی داڑھی آنسووں سے تر ہے چراغ بجھنے پر گھبرائے تو سب تھے مگر حضرت عبداللہ رحمہ اللہ تو کسی اور عالَم میں پہنچ گئے تھے انہیں قبر کے اندھیرے یاد آگئے اور دل بھر آیا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے حضرت عبداللہ کو یہ اونچا مرتبہ اس لیے ملا کہ وہ خدا سے بہت زیادہ ڈرتے تھے۔ ذمہ داری کا احساس اتنا تھا ایک دفعہ کسی کا قلم دینا یاد نہ رہا تو مرو سے شام پہنے اور قلم واپس کیا حالانکہ ان دونوں شہروں کے درمیان سینکڑوں میل کا فاصلہ تھا اور فرمایا کرتےاگر شبہ میں تمہارے پاس کسی کا ایک درہم رہ جائے تو اس کا واپس کرنا لاکھ روپے صدقہ کرنے سے زیادہ اچھا ہے۔