ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 19
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
ظہیر الدین محمد بابر جب فرغانہ میں اس کے قائم مقام قاضی خواجہ اور اپنی نانی اماں کے بھیجے ہوئے پیغام سے آگاہ ہوا تووہ بے حد حواس باختہ ہو گیا۔ اسے کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اندریں حالات وہ وادی فرغانہ کو دشمنوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا اقدام کرے اس نے فی الفور اپنے معتمدین خاص قاسم بیگ ،قنبر علی عرف سلاخ ،شیرم طغائی اور علی دوست طغائی کو دربار خاص میں طلب کر لیا۔ بابر نے علی دوست طغائی سے مخاطب ہو کر کہا ”میں نے معتبر لوگوں سے سن رکھا ہے کہ تم فن سپاہ گری میں ماہر ہو اور نہایت ہی بھروسے کے آدمی ہو۔ تم سے کسی بھی کارنامے کے سرزد ہو نے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کیا میں تم سے یہ توقع رکھ سکتا ہوں کہ میں جو بھی فرض تمہیں سونپوں گا تم اسے انجام دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرو گے۔ “
علی دوست طغائی نے ہمہ تن گوش ہو کر بابر کی گفتگو سنی اور گویا ہوا کہ
”سلطان معظم !آپ کا فرمان سر آنکھوں پر میں اپنی طرف سلطان احمد تنبل اور جہانگیر مرزا کی رچائی ہو ئی سازش کو فرو کرنے کےلیے اپنے تن من کی بازی لگا دوں گا مگر نتیجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ بہر حال میں یہ پوچھنا ضرور چاہوں گا کہ آپ مجھے کس قدر فوجی افرادی قوت مرحمت فرما سکتے ہیں۔ “
بابر نے قاسم بیگ ،سلاخ اور شیر م طغائی کی طرف اپنا روئے سخن پھیرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ
”اس وقت ہمارے پاس کس قدر فوجی افرادی قوت موجود ہے۔؟ “
قاسم بیگ نے بابر کے سوال کا جواب دینے کی بجائے علی دوست طغائی سے پوچھا کہ سردار محترم !آپ کو کس قدر فوج کی ضرورت پیش آئے گی ؟“علی دوست طغائی نے جواب دیا ”معلوم نہیں کہ دشمن کے پاس کس قدر فوجی افرادی قوت موجود ہے بہر حال وادی فرغانہ کو دشمن کے وجود سے پاک کرنے کے لیے کم از کم ایک ہزار سپاہی تو ضرور ہونے چاہیئں۔ “قاسم بیگ نے علی دوست طغائی کی طرف دیکھتے ہو ئے کہا کہ ”میں نے رات ہی اپنی فوج کی گنتی کی تھی۔ ناہنجار مغلوں کے بھاگ جانے کی وجہ سے ہمارے پاس صرف ایک ہزار فوجی باقی رہ گئے ہیں۔ سمر قند کی حفاظت کے لیے بھی تو ہمیں کم وبیش پانچ سو سپاہیوں کی ضرورت ہو گی۔ بنا بریں آپ پانچ سو فوجی اپنے ہمراہ لے جا سکتے ہیں۔ اب یہ آپ کی فنِ سپہ گری کی مہارت پر منحصر ہے کہ آپ اس قلیل تعداد سے دشمنوں کو کس طرح زیر کرتے ہیں۔“
علی دوست نے برملا کہا کہ”طاقت ور دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک ہزار فوجی بھی ناکافی ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ میں پانچ سو سپاہیوں سے بھی کام چلا لوں گا۔ “بابر نہایت ہی توجہ سے دونوں سرداروں کی گفتگو سن رہا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے پاس سمر قند میں اس قدر قلیل فوجی نفری موجود ہو گی۔ بابر کے دل پر ایک چوٹ سی پڑی تھی۔ یہ بات سوچ سوچ کر پریشان ہوا جارہا تھا کہ علی دوست طغائی پانچ سو افراد کے ساتھ کس طرح فرغانہ کا دفاع کرے گااور ادھر سمر قند کی حفاظت پانچ سو کی فوجی نفری سے کس طرح ممکن بنائی جا سکتی تھی۔ گذشتہ کئی روز کی بھاگ دوڑ اور ذہنی کوفت کی وجہ سے بابر کا جسم بخارسے پُھنک رہاتھا۔ بابر کے استاد اور معتمد خاص سلاخ نے بخار سے سرخ ہوتے ہوئے بابر کے رخساروں سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اسے شاید بخار نے آلیا ہے۔ سلاخ نے بابر کے بازو کو تھاما تو اسے معلوم ہو اکہ اس کا اندازہ درست تھا ،بابر نہایت ہی تیز بخار کی زد میں تھا۔ تینوں سرداروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بات ہوئی۔ تینوں کے چہروں پر تشویش کے آثار نمایاں ہو تے چلے گئے۔ بابر کو اندرون خانہ جانے کا مشورہ دیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بخار نے شدت اختیار کر لی اور بابر اٹھنے بیٹھنے کہ قابل بھی نہ رہا۔ ادھر ادھر سے آنے والے خطوط نہ تو بابر سن سکتا تھا اور نہ ہی ان کے جوابات لکھوانے کے قابل تھا۔ بابر کی بیماری کی خبر چھپانے کی لاکھ کوشش کی گئی مگر اس کی بیماری کی افواہیں ادھر ادھر سمر قند کے بازاروں میں گشت کرنے لگیں۔ بابر پر نزع کا عالم طاری تھا۔ شاہی معالج پوری دلجمعی سے اس کا علاج کر رہے تھے ہر آن اُن کی تشویش بڑھتی چلی جارہی تھی کیونکہ بابر کا بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا انہیں سلطان کے صحت یاب ہونے کی کچھ بھی توقع باقی نہیں رہی تھی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ بابر کسی بھی لمحے مر سکتا ہے۔
دریں اثنا اندز حاں نے ایک وفد سمر قند پہنچا۔ بظاہر تو وہ وفد خیر سُگالی کے جذبات لے کر آیا تھا مگر حقیقتاً اس وفد کے بیشتر لوگ سلطان احمد تنبل ،جہانگیر مرزا اور سلطان علی مرزا )جو کہ بابر کا چچا زاد تھا (کے مخبر تھے جو سمر قند میں بابر کی فوجی قوت کا اندازہ لگانے آئے تھے۔اس وفد میں نانی اماں دولت بیگم نے خفیہ طور پر اپنے دو آدمی بھی شامل کر دیے تھے وہ آدمی نانی اماں کا ایک خاص پیغام سلطان ظہیر الدین بابر کے لیے لائے تھے۔ سمر قند پہنچ کر وفد کے ارکان کو بابر کی شدید علالت کی خبر مل گئی وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی آنکھوں سے بابر کو دیکھیں اور اس کی علالت کی شدت کا اندازہ لگا ئیں۔ بنا بریں انہوں نے بابر کے فوجی سرداروں قاسم بیگ ،سلاخ،شیرم طغائی اور علی دوست طغائی سے تقاضاکیا کہ انہیں سلطان بابر کی خدمت میں باریابی کی اجازت دی جائے۔
پہلے پہل تو انہوں نے اراکین وفدکو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر ان کے اصرار پر بادل نخواستہ انہوں نے انہیں بابر کی خدمت میں باریاب ہونے کی اجازت دے دی۔ اراکین وفد بابر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ واقعی جاں بلب تھا اور کوئی گھڑی کا مہمان تھا۔ نانی اماں کے فرستادہ آدمیوں نے خاموشی سے نانی اماں کا پیغام قاسم بیگ کے گوش گزار کیا اور اس نے کہا کہ”جب سلطان معظم ہوش میں آجائے تو انہیں نانی اماں کا یہ پیغام دے دینا کہ سلطان احمد تنبل اور سلطان علی مرزا نے خواجہ قاضی کو دھوکے سے بلوا کر اسے دار پر لٹکا دیا ہے۔اندزحاں کو بچانے والا کوئی باقی نہیں رہا۔“قاسم بیگ نے نانی اماں کا پیغام سنا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ مگر اس نے خوب ضبط سے کام لیا اور اپنی تشویش کو لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ بابر کے معتمد سرداروں نے بھی باہر سے آئے ہوئے خطوط اور خبروں کو بابر تک نہ پہنچنے دیا۔ کیونکہ شاہی اطباء کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ مبادا سلطان معظم یہ روح فرسا خبریں سن کر مر نہ جائیں۔ بالآخر اطباء کی کوشش بار آور ثابت ہوئیں اور کچھ ہی دنوں میں بابر روبہ صحت ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کی جسمانی قوت بھی عود کرنے لگی۔ جب وہ کچھ چلنے پھرنے کے قابل ہو تو اسے نانی اماں کا پیغام سنایا گیا۔
ایک بار پھر بابر نے اپنے معتمدسرداروں کو بلایا اور ان سے مشورہ پوچھا کہ ”اندریں حالات ہمیں کیا کرنا چاہیئے جبکہ ہمارے پاس فوجی قوت ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر ہمیں فرغانہ کی طرف کوچ کر ہی دینا چاہیئے بہر صورت ہمیں اندزحاں کو دشمنوں کی دست برد سے محفوط رکھنا چاہیئے ہمیں اپنے سروں کی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے ہمیں جلد از جلد اندز حاں پہنچنا چاہیئےفوج کو کم از کم وقت میں کوچ کا حکم دے دو۔ “
چاروں سردار بابر کا یہ حکم سن کر متوحش نگاہوں سے بابر کی طرف دیکھنے لگے گومگو کی سی کیفیت سے گزررہے تھے۔مگر سلطان کی حکم عدولی بھی تو نہیں کی جاسکتی تھی ،بہر حال آناًفاناًتیاریاں شروع کر دی گئیں۔ بابر نے بذات خودفوجی تیاریوں کا جائزہ لیا اور اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ چند روز بعد فرغانہ کی طرف بابری فوج کا مارچ شروع ہو گیا۔ فرغانہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ہی شہر”خجند“واقع تھا اب اس پر سلطان احمد مرزا نے قبضہ جما لیا تھا۔ بابر نے نہایت چابکدستی سے”خجند“کو سلطان احمد مرزا سے چھین لیااور اسے اپنا مستقر بنا لیا۔ سلطان احمد تنبل اور سلطان علی مرزا کے سمر قند سے کوچ کی خبر ان تک پہنچا دی تھی۔ لہٰذا بابر ابھی خجند ہی میں اٹکا ہوا تھا کہ اسے خبر ملی کہ سلطان علی مرزا نے فوج کشی کر کے سمر قند کواپنے دائرہ اختیار میں لے لیا تھا۔ بابر کو یہ خبر پا کر کافی تشویش لاحق ہو گئی۔وہ اپنے تیئں سوچنے لگا کہ اندز حاں کو بچانے کی کوشش میں سمر قند بھی ہاتھ سے گیا اور اندزحاں کے بچاؤ کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اس شعر کے مصداق کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
اب بابر کو صرف ”خجند “پر ہی اکتفا کرنا پڑی۔ یہیں بیٹھ کر اب اسے مستقبل کی منصوبہ سازی کرنا تھی۔ اس وقت اس کو کچھ ایسی صورت حال سے گزرنا پڑرہا تھا کہ نہ تو اس کے پاس خاطر خواہ فوج تھی اور نہ ہی اس کے پاس اتنا خزانہ تھا کہ وہ لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے آمادہ کر سکتا۔ خجند بھی اس کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں تھی کیونکہ کسی بھی وقت غنیم اس پرحملہ آور ہو سکتا تھا۔ اس وقت بابر کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا کہ وہ محلات کی زندگی ترک کر کے آس پاس کے پہاڑوں پر چلا جائے اور روپوش نہ زندگی بسر کرے اور ہر طرف سے بے خبر ہو کر اپنی طاقت کو دوبارہ منظم کرے اور پھر جب اس کے تئیں دشمن سے ٹکر لینے کی طاقت پیدا ہو جائے تو پھر بلا خوف و خطر میدان کارزار میں کود پڑے۔
مثل مشہور ہے کہ ”جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے کود جاتے ہیں “ بابر جب پہاڑوں پر پہنچاتو اس کے پاس صرف دو اڑھائی سو لوگ باقی رہ گئے تھے اور باقی آہستہ آہستہ کِھسک لیے تھے۔ اب اس کے معتمد سردار بھی بھاگنے کے بہانے تراش رہے تھے۔ سب سے پہلے علی دوست داغ مفارقت دے گیا اب اس کا پرانا نمک خوار اور اس کا استاد قنبر علی عرف سلاخ بھی بھاگنے کے بہانے تلاش کر رہا تھا۔ ایک بابر کو اکیلا پا کر اس کی خدمت میں حاضر ہو اور بعد از آداب نیاز بابر سے کہنے لگا کہ”سلطان معظم!میرے بیوی بچے اندز حاں میں ہیں مجھے ان کے بارے میں تشویش ہے کہ نہ جانے ان پر کیا بیت رہی ہو گی۔مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں ان کی خیر خبر لینے کے لیے اندز حاں جاوٴ ں “بابر نے سلاخ کے چہرے کا جائزہ لیا تو وہ اسے بالکل ہی سپاٹ محسوس ہوا اسے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ وہ بھی علی دوست طغائی کی طرح اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ پھر بھی بابر نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا کہ”سلطان احمد تنبل نے میرے خواجہ قاضی جیسےوفادار کو سولی پر چڑھا دیا ہے۔ کیاتو بھی اندز حاں جاکر سولی پر لٹکنا چاہتا ہے۔ اگر تجھے مجھ سے چھٹکارا حاصل کر کے اور اندزحاں جاکر سولی پر لٹک کر سکون ملتا ہے تو بخداتو اندزحاں چلاجا اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔ “
سلاخ نے مسمسی صورت بناتے ہوئے گویا ہوا کہ ”میں ایک منگول ہوں آپ کے پاس آنے سے پہلے میں آپ کے نانا یونس خان کے ساتھ مغلستان کے خیموں میں رہتا تھا۔ آج بھی بہت سے مغل میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ میں کسی نہ کسی طرح ان مغلوں کے ذریعے اپنے بیوی بچوں کو اندزحاں سے نکال لاؤں گااور پھر انہیں اپنے ساتھ لے کر اپنی آبائی سرزمین مغلستان چلا جاوٴں گا۔“
بابر نے سلاخ کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھا اور زہر خندہ سے بولا”قنبر علی !مجھے تجھ سے یہ امید نہ تھی کہ تو بھی مجھے بیچ منجدھار چھوڑ کر یوں چلا جائے گا۔ شاید تجھے ایک چودہ سالہ نو عمر لڑکے کی چاکری سے شرم آنے لگی ہے۔ تو نے مجھے فن سپاہ گری میں طاق کیا چونکہ تو میرا استاد ہے اس لیے میرے لیے قابل احترام ہے۔ میں تیری مجبوری سمجھ رہا ہوں۔ تو بے شک اندز حاں جا اور اپنا شوق پورا کر۔ “بابر نے نہایت فراخ دلی سے سلاخ کو اندزحاں جانے کی اجازت دے دی اور اس سے کہا کہ” اگر تیرا دل چاہے تو تُو کبھی بھی میرے پاس واپس آسکتا ہے ورنہ تیرا جہاں جی چاہے اپنی باقی کی زندگی وہیں گزار سکتا ہے۔ “سلاخ بابر کے قدموں میں بیٹھ گیا اور رقت آمیز لہجے میں بولا کہ”جب میں واپس آنے کا وعدہ کر رہا ہوں تو اگر میں زندہ رہا تو ضرور واپس آؤں گا۔ “
)جاری ہے (