اشک ِ ندامت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اشک ِ ندامت
حافظ محسن شریف
ہسپتال میں داخل ہوا تو کئی مریضوں کے کراہنے کی آوازوں نے میرا استقبال کیا۔ یہ سب ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں تھے۔ جن کی تعداد تقریبا ً پچیس کے قریب تھی اچانک میری نظر بیڈ نمبر دس پر پڑی جہا ں ایک ادھیڑ عمر بوڑھا لیٹا ہوا کھانس رہا تھا اور ایک بوڑھی عورت ………جو اس کی بیوی معلوم ہوتی تھی……… اس بوڑھے کی ٹانگیں دبا رہی تھی۔ بوڑھی عورت کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس بیڈ کی طرف چلنے لگا۔ بیڈ کے پاس پہنچ کر بوڑھی اماں اور بوڑھے بابا جی کو سلام کیا اور ان سے اجازت لے کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اردگرد نظر دوڑائی سبھی مریضوں کے پاس ان کے رشتہ دار بیٹھے ہوئے تھے ،جبکہ یہ بوڑھی عورت اور بوڑھا اکیلے تھے۔
کیوں ماں جی !آپ کا کوئی بیٹا یا بیٹی نہیں جوآ پ کے پاس آپ کا خیال رکھنے آئے ؟ میری یہ بات سن کر بوڑھی عورت کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے جبکہ بوڑھا آدمی زورزور سے کھانسنے لگا۔ میں نے جلدی سے گلاس میں پانی انڈیلا اور بوڑھے کو پلا نے لگا۔
بیٹا تجھے اللہ کامیاب کرے ،پانی پی کر بوڑھے آدمی نے انتہائی نحیف سی آواز میں کہا اس طرح مجھے مفت میں پانی پلانے سے ایک بزرگ کی دعا مل گئی ،اب میں بوڑھی عورت کی طرف متوجہ ہوا ، وہ مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔
ماں جی آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں ؟ میں بے ساختہ بول پڑا۔
کچھ نہیں بیٹا بس ایسے ہی۔ یہ کہتے ہوئے بوڑھی عورت ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسو ؤں کو اپنے دوپٹے کے پلو سے صاف کرنے لگی۔
پھر خود ہی گویا ہوئی۔ بیٹا ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ،کیسی غلطی ماں جی ! میں درمیان میں ہی بول پڑا۔ یہی کہ ہم نے اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے دور رکھا ،بیٹا میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ،ہم نے چاروں کو بہت لاڈ پیار سے پالا پوسا ،ان کی ہر خواہش کو پورا کیا ،کسی چیز کی کبھی ان کو کمی نہ آنے دی۔ یہ بوڑھا میرا خاوند ہے اور ہماری پاکستا ن میں تین فیکٹریاں چلتی ہیں۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ بیٹی کی شادی ہم نے امریکہ میں مقیم ایک بہت بڑے بزنس مین سے کی ہم نے اپنی بیٹی کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم دلوائی پھر اس کی شادی کر دی اس کو امریکہ گئے ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں اب اس کے دو بچے ہیں شروع شروع میں تو اس نے دو تین دفعہ فون کر کے ہم سے بات کی لیکن اس کے بعد اس کا کوئی فون نہیں آیا۔
ہم نے کئی دفعہ فون کیا تو اس نے کہا پلیز امی تنگ نہ کیا کریں میں بہت مصروف ہوتی ہوں میرے پاس بات کرنے کا ٹائم نہیں ہوتا۔ اور رہے ہمارے تینوں بیٹے تو وہ اپنی بہن سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے ،ہم نے اپنے تینوں بیٹوں کو بہت لاڈ پیار سے پالا پوسا ،ان کی ہر بات مانی انہوں نے جو کہا ہم نے فورا پورا کیا ،میرے تینوں بیٹے آج کل لندن میں سکونت پذیر ہیں ہم نے اپنے بیٹوں کو ایم۔ اے انگلش کروایا ، تینوں لندن میں بزنس کرتے ہیں ،ہماری تین فیکٹریا ں تھیں اور ایک بہت بڑابنگلہ نما گھر ، بیٹوں نے آپس میں مشورہ کر کے ہمارا بنگلہ نما گھر اور تینوں فیکٹریاں ہمیں اپنی باتوں سے متاثر کر کے اپنے نام کروا لیں اور کہا کہ ہم برطانیہ میں جا کر رہیں گے اور آپ کو بھی ساتھ لے جائیں گئے۔
ہم دونوں بہت خوش ہوئے ہم نے تینوں کی شادی بڑے دھوم دھام سے کی وہ اپنی اپنی بیویوں کو لے کر لندن چلے گئے اور فون پر کہتے رہے کہ بہت جلد ہم آپ کو بھی اپنے پاس لے آئیں گے۔ شروع شروع میں ان کے بھی فون آتے رہے لیکن اب ایک سال کا عرصہ ہونے کو ہے انہوں نے کبھی فون نہیں کیا ،ہمارا سب کچھ چھِن گیا ہے کچھ بھی نہیں رہا۔ میں ایک گھر میں کام کرتی ہوں جو پیسے ملتے ہیں اپنے خاوندکے علاج پر لگا دیتی ہوں ،مجھے اب پچھتاوا ہو رہا ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم تو دلوادی لیکن ان کو دینی تعلیم سے دور رکھا ان کو مسجد جانے سے دور رکھا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ اسی طرح وہ ”ملاں “بن جائیں گے۔ ہمارے خاندان والے ہمیں طعنے دیں گے ہم نے کبھی بھی اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا نہیں کہا اور ان کو مغربی معاشرے میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ کاش میں نے اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دلوائی ہوتی اور ان کو ماں باپ کے ادب کا علم ہوتا اور ہم دنیا میں بھی کامیاب ہوتے اور آخرت میں بھی اور آج اس طرح کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔
یہ کہہ کر وہ بوڑھی اماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ساری نقدی نکال کر بوڑھی اماں کے ہاتھ میں تھما ئی اور اپنی آنسوئوں سے تر آنکھیں لیے گھر کی جانب چل دیا۔ راستے میں سوچ رہا تھا کہ ایسی اولاد کا کیا فائدہ جو بڑھاپے میں اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا نہ بن سکے ،قرآن پاک تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کو” اُف “تک نہ کہو لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا کہ بوڑھے ماں پاب اپنی اولاد سے بات کر نے کو ترس گئے تھے وہی اولاد جس کو انہوں نے بہت لاڈ پیار سے پالا ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی۔ آج وہی اولاداپنے ماں باپ سے ظالمانہ سلوک کر رہی تھی اور اپنے ماں باپ کا گھر تک چھین لیا تھا۔
بہر حال قصور تو ماں باپ کا بھی ہے جنہوں نے اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے دور رکھا اور”ملاں “ کہلوائے جانے کے خوف سے ان کو نماز پڑھنےکا بھی کبھی نہیں کہا۔ جس نماز کا حکم قرآن پاک نے کثرت سے دیا ہے۔ اگر دینی تعلیم دلوائی ہوتی تو ان کو علم ہوتا کہ ماں باپ کا ادب کیا ہے قرآن پاک ماں باپ کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے بارے میں کیا تعلیم دی ہے۔۔ ؟
کاش ہمارے وہ حضرات جو مغربیت کی نقالی کو اپنا شعار سمجھتے ہیں اور دین کے نام سے خوف کھاتے ہیں اور دین پڑھانے والے والدین کو دقیانوس ،پرانے لوگ ،انتہا پسند،دہشت گرد ،شدت پسند جیسے القابات سے نوازتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنی اولاد کو بھوکا مرنے کی تعلیم دلوا رہے ہو ،دین پڑھ کر کھائیں گے کہا ں سے ؟یہ انتہا پسند انہ سوچ کے حامل ہوں گے۔ کاش ہمارے ایسے حضرات اس واقعہ سے عبرت پکڑیں تاکہ اس بوڑھی عورت کی طرح ہونے والی ندامت سے بچ سکیں جو اس کو اپنی اولاد کو دین سے دور رکھ کے رہ رہ کر محسوس ہورہی تھی۔