تعلیم کی اہمیت دفاع سے کم نہیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

تعلیم کی اہمیت دفاع سے کم نہیںماریہ بتول

موجودہ دور اعلیٰ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس میں تکنیکی مہارت کے بغیر نہ تو اقتصادی ترقی ہو سکتی ہے اور نہ ہی دفاع کو مضبوط بنایا جا سکتاہے۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد علم ہے جس کے فروغ کے لئے قومی سطح پر اولین ترجیح دینا ہوگی۔ترقی کی دوڑ میں صرف وہی قومیں آگے جاتی ہیں، جوتعلیم کے میدان میں بھی پیش پیش ہوں۔ تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں جنوبی کوریا، سنگاپور،تائیوان اور ملائشیا وغیرہ کی مثال لی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ سب ایسے ممالک ہیں جہاں شرح خواندگی اوسطاً90فیصد سےزائد ہے۔ تعلیم کی اہمیت کو آج ان ملکوں میں بھی تسلیم کیا جا رہا ہے، جہاں ماضی میں اس شعبے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ چنانچہ ا ب وہاں بڑے پیمانے پراعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ مثلا دبئی کی ایجوکیشن سٹی میں22 یونیورسٹیاں ہیں ، جب کہ قطر میں امریکا کی صف اول 5یونیورسٹیوں کی کیمپس کام کر رہے ہیں اور سعودی عرب میں جدید طرز کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اوردیگر ٹیکنالوجی بناہی گئی ہے پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیجیے ،اس کی ایک ریاست کیرالہ میں شرح خواندگی تقریبا100 فیصد کے درمیان ہے بھارت میں اس سال جدید طرز کی 14نئی جامعات ،بین الاقوامی معیارات کے 7نئے انسٹی ٹیوٹس آف منیجمنٹ اور پانچ نئے انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی بنائے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو نتیجہ اس کے برعکس نظر آتا ہے ،عملًا ہم آگے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔ یوں تو عالمی معیار کے مطابق ہرملک کو اپنی جی ڈی پی کا کم سے کم چار فی صد تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے ،لیکن اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے حال ہی میں یہ سفارش کی ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو اپنی جی ڈی پی کا کم سے کم چھ فی صد تعلیم پر ضرور خرچ کرنا چاہیے جب کہ پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ہم عملاً اپنی جی ڈی پی کا محض 1.2فی صد بنیادی تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں جب کہ اعلیٰ تعلیم کی مد میں صرف0.22 فیصد صرف کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی اخراجات کے لحاظ سے پاکستان نہ صرف جنوبی اشیا بلکہ بیش تر افریقی ممالک سے بھی پیچھے ہے سرکاری طور پر پاکستان میں شرح خواندگی 58 فی صد تک بتائی جاتی ہے اگر اسے درست تسلیم کیا جائے تب بھی یہ انتہائی کم ہے۔ ہمیں نہ صرف خواندگی کی شرح کو بڑھانا چاہیے بلکہ اعلیٰ تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے موجودہ حکومت نے جس ایجوکیشن پالیسی کی منظوری دی ہے اس میں تعلیمی بجٹ کو بتدریج بڑھا کر جی ڈی پی7 فی صد لانے کی بات ہے لیکن اب تک اس سلسلے میں عملی صورت حال زیادہ خوش گوار دکھائی نہیں دیتی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کم از کم اپنی منظور کر دہ پالیسی پر تو مکمل عمل درآمد کرے۔ موجودہ دور میں تعلیم و ٹیکنالوجی کے بغیر کسی ملک کواستحکام نصیب نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم دنیا میں ایک خود مختار قوم کی حیثیت سے جیناچاہتے ہیں تو تعلیمی بجٹ کو بھی دفاعی اخراجات جیسی اہمیت دیتے ہوئے جنگی بنیادوں پر فروغ تعلیم کیلئے ہمیں جدوجہد کرنی ہو گئی۔