ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 20
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
بابر نے محلات کی زندگی کو ترک کر کے پہاڑوں پر بسیرا کر لیا تھا۔ بابر کو یہ جان کر دکھ بھی ہوا تھا اور اب اچنبھا بھی کہ اس کے ساتھی اسے ایک ایک کر کے چھوڑ گئے تھے۔ حالانکہ اس کا استاد اور دیرینہ جانثار ”سلاخ “بھی اسے چھو ڑ چلا تھا۔ بابر نے سلاخ کو نہایت ہی ٹھنڈے دل سے مغلستان کی طرف جانے کی اجازت دے دی تھی۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ اسے جانے کی اجازت نہیں دے گا تو پھر بھی جانے والا رک نہیں جائے گا۔ بہر حال جاتے ہوئے سلاخ کو اتنا ضرور کہا کہ استاد محترم !اگر آپ کا واپس میرے پاس آنے کا ارداہ ہو تو مجھے صاف صاف بتا دو تاکہ میں انتظار کی زحمت سے نہ گزروں۔
سلاخ بابر کے منہ سے یہ جملہ سن کر بابر کے قدموں میں پڑی ہوئی چوکی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ”سلطان معظم !خادم آپ کا صرف استاد ہی نہیں ہے بلکہ آپ کا اور آپ کے والد گرامی کا دیرینہ خدمت گزار بھی ہے۔جب میں واپسی کا وعدہ کر رہا ہوں تو پھر میں ضرور آئوں گا۔“ بابر کے پہلو میں کھڑے ہوئے نیلی آنکھوں والے قاسم بیگ نے سلاخ کی طرف غصیلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ”مثل مشہور ہے کہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے جہاز کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تم بھی اس برے وقت میں سلطان معظم کو چھوڑ ے جا رہے ہو۔پھر چوہوں میں اور تم میں کیا فرق باقی رہا ہے۔ ؟“
سلاخ نے قاسم بیگ کے اندازِ گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے کہا:
”اے میرے شریک سفر !تیرے بیوی بچے بھی اندجان میں ہیں اگر تو کہے تو انھیں بھی اندجان سے نکلوا لاؤں “ قاسم بیگ نے سلاخ کو طنزا جواب دیا کہ اس مثل کے مصداق کہ ” ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“تو خود تو اپنے اَن داتا کو مشکل میں چھوڑ کر بھا گا جا رہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ مجھے بھی بھاگنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ حیف ہے تمہارے اس بزدلانہ مشورہ پر اور اس مروَّتانہ سوچ پر “
اب سلا خ کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ وہ دل ہی دل کہتا چلا جارہا تھا کہ” کار شاہی خسرواں دانند “کے مصداق ،نو عمر اور ناتجربہ کا ر بابر کاروبار بست وکشاد سے نابلد ،اپنے باپ سے ورثے میں ملنے والی وراثت شاہی سنبھال نہیں سکا ہے اور چند ہی سالوں میں اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے سب کچھ گنوا بیٹھا ہےاور اب صرف چند سو آدمیوں کے ساتھ پہا ڑ کی چوٹی پر جما بیٹھا ہے۔ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب اس کا کوئی بھی مستقبل نہیں ہے پس ایسے بے سروساماں سلطان کی ہمر کابی سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں۔ پھر میں اس کے مستقبل کی خاطر اپنے مستقبل کو کیوں داؤ پر لگاوں۔ آج بھی مغلستان کے خاقان کے پاس بہت کچھ ہے کیوں نہ اس کے دربار میں قسمت آزمائی کی جائے کیونکہ ہم جیسے تجربہ کار فوجیوں کی بادشاہ کو ضرورت ہوتی ہے۔ میں اپنی کہنہ مشقی کی وجہ سے خاقان اعظم کے ہاں ایک خاص مقام حاصل کر سکتا ہوں پھر میں ایک ناتجربہ کار اور ناکام سلطان کی اردلی میں رہ کر اپنا مستقبل کیوں تباہ کروں قاسم بیگ جیسے ناقص العقل ،کج فہم ،ناعاقبت اندیش اور سطحی سوچ رکھنے والے ہی اس نو عمر اور ناتجربہ کار چھوکرے کے ساتھ رہ کر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ ” کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ “سلاخ نے آخری بار بابر کے سامنے جھک کر اسے دونوں ہاتھوں سے کورنش بجالانے کے اندازمیں سلا م کیا اور چلتا بنا۔
اگرچہ قاسم بیگ ابھی تک بابر کی ہمرای پر کمر بستہ دکھائی دیتا تھا مگر دل ہی دل میں وہ بھی سلاخ کی طرح سوچ رہا تھا لیکن اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ سلاخ کی طرح مغلستان میں اس کا کوئی ہمنوا نہیں تھا جس کے برتے پروہ خاقان اعظم کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا۔ اگر وہ اندجان سے اپنے بیوی بچے نکال بھی لاتا تو پھر انہیں کہاں کہاں لیے پھرتا۔ چنانچہ مجبوراً اسے بابر کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ سلاخ کے چلے جانے کہ بعد بابر کا اپنے دوسرے امراء پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا تھا قاسم بیگ کے رویے میں بھی اسے کافی تبدیلی نظر آنے لگی تھی بنا بریں بابر نے ایک دن قاسم بیگ سے پوچھ ہی لیا کہ ”تو ہر وقت چپ چپ سا رہتا ہے آخر تیری اس کم گوئی کی وجہ کیا ہے؟“قاسم بیگ نے مری ہوئی آواز میں جبرا ًمسکراتے ہوئے جواب دیا ”حضور والا !ان دنوں میری طبیعت کچھ ناساز ہے اور مجھے رہ رہ کر بیوی بچوں کی یاد ستا رہی ہے علا وہ ازیں میری کم گوئی کی اور کوئی وجہ بھی نہیں ہے “
حالات کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ وہ لوگ جو بابر کے زیادہ قریب تھے رفتہ رفتہ دور ہوتے جارہے تھے ،جو لوگ دور تھے اور اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے قریب ہوتے جا رہے تھےاور تیموری شہزادہ بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنے قریب تر کرتا چلا جا رہا تھا اور ان سےبے تکلفی سے پیش آنے لگا تھا کیونکہ اسے اس وقت بہر حال افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ اسے اپنے لیے مزید فوجیوں کی جستجو تھی مگر دور دور تک کسی ایسے انسان کا نام ونشان نہیں مل پا رہا تھا جسے وہ اپنے فوجیوں کی صف میں شامل کر سکتا۔
ایک دن قاسم بیگ نے باتوں ہی باتوں میں بابر سے کہا کہ”سلطان معظم !آج کل جو کچھ ہم پر بیت رہی ہے یہ سب کچھ اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ پہلی غلطی جو ہم سے سرزد ہوئی وہ مغل سپاہیوں کا قتل عمد تھا۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ اس عمل سے مغل سپاہی عبرت حاصل کریں گے اور لوٹ مار سے باز آجائیں گے مگر ہوا اس کہ برعکس۔ یعنی اکثر مغل ہمارا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے دوسری یہ غلطی کہ ہم نے آپ کے حکم کے مطابق تاجروں سے لوٹا ہوا مال اپنے سپاہیوں سے چھین کر انہیں واپس لوٹا دیا فوجیوں کے دل کو بہت ٹھیس پہنچی اور اس پر مستزاد یہ کہ حضور والا نے سمر قند میں داخلے کے وقت اپنے فوجیوں کو لوٹ مار سے روک دیا۔ یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے ہمارے فوجی ایک ایک کر کے ہمیں چھوڑتے چلے گئے۔ اب عالم یہ ہے کہ ہم چند سپاہیوں کہ ہمراہ پہاڑوں پر رو پوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ “بابر نے بڑے تحمل سے قاسم بیگ کی تقریر سنی۔ اس کے خاموش ہوجانے پر اس نے جواباً کہا کہ یکے بعد دیگرے میرے احکامات کو جنہیں تو میری غلطیاں شمار کر رہا ہے میں اپنے تئیں انہیں حق بجا نب سمجھتا ہوں۔ مجھے ان پر ذرہ بھر بھی شرمندگی نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جب سے سلاخ مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے تب سے تیرے رویے میں بھی خاصی تبدیلی آ چکی ہے۔ تیرے بیوی بچے اندجان میں ہیں۔ اگر تو بھی اپنے بیوی بچوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے جانا چاہے تو جاسکتا ہے تجھے میرے لیے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب میں ہر اذیت سہنے کے لیے خود کو تیار کر چکا ہوں۔
قاسم بیگ نے جھینپتے ہوئے کہا کہ”حضور والا !میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح آپ سے وداعی چاہتا ہوں۔ بلکہ راہ فراراختیار کر کے میں اپنا نام عامیوں کی فہرست میں لکھوانا نہیں چاہتا۔ “
بابر نے خاموشی اختیار کی اور کچھ اس طرح سوچوں میں گم ہو گیا کہ وہ اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کر رہا تھا۔ پہاڑوں پر بابر نے کچھ ایسے ٹھکانے تلاش کر لیے تھے جہاں وہ خود کو اور اپنے ہمرائیوں کو دشمن کی دست برد سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ کئی ماہ گزر گئے۔ سردیاں رفتہ رفتہ کم ہونے لگیں اور اس کی جگہ خوشگوار موسم نے لے لی تو بابر نے باقی ماندہ سپاہیوں کے ہمراہ پہاڑوں سے اتر کر ”خجند “کے میدانوں میں آگیا۔ لیکن اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ خجند شہر ان کے لیے غیر محفوط ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں سلطان علی مرزا اور سلطان احمد تنبل کے جاسوسوں کا ایک جال سا بچھا ہوا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ شب خون مار کر اسے اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر سکتے تھے۔ کیونکہ طاقت ور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے اس کے پاس مناسب افرادی قوت موجود نہیں تھی۔ بنا بریں بابر کو دوبارہ پہاڑوں پر روپوشی کی زندگی گزارنے کے لیے واپس جانا پڑا۔ } جاری ہے {