دل بھی کیا چیز ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دل بھی کیا چیز ہے!
نمرہ ابوذر، سرگودھا
بڑ ے بزرگوں سے سنا ہے کہ انسان کے اندر بھی ایک انسان اور ہوتاہے اگر اندر والا انسان درست ہو تو باہر والا خودبخود درست ہو جاتاہے۔ اگر اندر والا انسان مر جائے تو باہر والا انسان پہلے ہی مرجاتاہے اور اس اندر والے انسان کو دل کہتے ہیں۔ جب دل کا قبلہ ٹھیک ہوجائے تو انسان کا ظاہری چال، ڈھال ،نظر ، سماعت ، قدم ،سوچ ، فکر گویا کہ سب کچھ ٹھیک سمت میں چل پڑتے ہیں اور دل ٹھیک ہوتاہے اللہ کے ذکر سے۔
جیسا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ’’ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ‘‘
ترجمہ: ’’خبردار رہو اللہ کی یاد وہی چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتاہے۔
الرعد:۲۸
اور جب دل بگڑ تاہے تو گویا سارا انسان ہی بگڑ جاتاہے۔ دل پر بھی مہر لگ جاتی ہے اور سیاہ نقطہ بھی جیساکہ اللہ پاک نے قرآنِ مجید فرقان حمید میں فرمادیا ہے:
’’ختم اللہ علیٰ قلوبھم ‘‘
ترجمہ: ’’ اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کو دلوں پر ‘‘
اور دل بگڑتاہے غفلت بھری زندگی گزارنے سے۔ اس سے انسان کا دل اندھا ہو جاتاہے اور ایسا اندھا ہوتاہے کہ پھر یہ نیکی ، بدی ، دشمن ، دوست ، اندھیرے ، اُجالے، نفع، نقصان کسی میں بھی تمیز نہیں کر سکتا۔ جیسے انسان نیکی میں ترقی کرتاہے اسی طرح انسان بدی میں بھی ترقی کرتاہے۔ ہمارے بزرگ اُستاد حضرت مولانا قاری حنیف (مرحوم) اپنے بیانات میں فرمایا کرتے تھے کہ جب انسان بدی میں ترقی کرتاہے تو پھر وہ درندہ بن جاتاہے پھر اُس کی خصلت بن جاتی ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے۔ اپنا چاہے کوئی فائدہ نہ ہو اور یہ سب اُس وقت ہوتاہے جب دل بگڑتاہے۔
ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ نادان لوگ دولت کیلئے دل کا چین لٹا دیتے ہیں اور عقل مندلوگ دل کے چین کیلئے دولت لٹا دیتے ہیں۔ اگر انسان گوشت پوست کے اس چھوٹے سے ٹکڑے (دل) پرقابو پالے تو پوری دنیا کو قابو کر لینا اس کیلئے آسان ہے۔ اصل بگاڑ یہیں سے (دل ) بنتاہے۔ جو دل کے کالے ہوتے ہیں ان کے گورے چہروں سے نور ختم کردیا جاتاہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کے دِلوں کا اور چہروں کا مشاہدہ ہمارے معاشرے میں خوب کیا جا سکتا ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں آتاہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے جنت کو بنایا اور اس کی کنجی رضوان(جنت کا نگران فرشتہ ) کو دے دی۔ جہنم کو بنایا تو اس کی کنجی مالک (جہنم کا نگران فرشتہ) کو دی۔ بیت اللہ شریف کو بنایا تو اس کی کنجی بنی شیبہ کے حوالے کر دی اور جب انسان کو بنایا تو اس کی کنجی اپنے دستِ قدرت میں رکھی۔ وہی دلوں کو پھیرتے ہیں جسے چاہیں اُلٹ پھیر دیں جسے چاہیں سیدھا پھیر دیں۔ ہمارے بھی دلوں کے تالے اللہ رب العزت اپنی رحمت سے کھول سکتے ہیں۔ حدیث مبارک ہے ’’ تمہارے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوجاتاہے تو سارا جسم درست ہو جاتاہے اور جب وہ بگڑتاہے تو سارا جسم بگڑتاہے۔ معلوم رہے کہ وہ تمہارا دل ہے۔ ‘‘ جب انسان بزرگوں کی محفل میں بیٹھے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بھی دل کی حالت نہ بدلے تو اُس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ دلوں کے سکون کیلئے بڑے امراء دربدر پھرتے ہیں مگر ان کو سکون کہاں سے نصیب ہو سکتاہے کیونکہ اللہ پاک نے سکون نہ تو دولت میں رکھا ہے نہ ہی وزارت ، بادشاہی میں اور نہ ہی رقص و سرور میں۔ انسان سکون کیلئے فحاشی ، عریانی،بدکاری ، جوا، شراب ، چرس، منشیات میں تلاش کرتاپھر رہاہے۔ کچھ لوگ سکون کیلئے نیند آور دوا اور کچھ لوگ فیشن اور گندی تہذیب کے دلدادہ بنے پھرتے ہیں کچھ لوگ سکون کو کھیلوں میں ، سمندروں اور صحراؤں میں چاند ستاروں میں سائنسی علوم میں تلاش کرتے ہیں اور اکثر ناعاقبت اندیش لوگ سکون کو کاروبار فیکٹریوں ، کارخانوں ، حکومتوں ، وزارتوں اور سفارتوں میں تلاش کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ مگر سکون ان کا مقدر نہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو فرماتے ہیں۔ ’’ اے میرے بندے میں بھی تیرا کفیل ہوں میں ہی پالنے والا ہوں میں ہی عزتیں دینے والا ہوں۔ میں ہی نفع و نقصان کا مالک ہوں ، میں ہی تمہارے دلوں کو سکون وراحت دے سکتاہوں۔ اے نادان تو میری طرف آتو سہی میں ہی تجھے سکون اور دل کا چین دونگا۔بھلا کبھی کسی نے تندور اور آگ کی بھٹی پر بیٹھ کر بھی سکون حاصل کیا ہے۔ کانٹوں پربھی کبھی دل کا سکون حاصل کیا جاسکتاہے۔ گندگی کے ڈھیر پر بیٹھ کر بھی تجھے بدبُو نہ آئے تو یہ کیسے ہو سکتاہے۔ گھر کو آگ لگ جائے اور نقصان نہ ہو یہ کیسے ہو سکتاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندے دل کا سکون تو میری یاد میں ہے۔ میرے ذکر میں۔ میرے قرآن کی تلاوت میں ہے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار میں اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے میں ہے۔ یتیم کے سرپر شفقت بھرا ہاتھ پھیرنے میں ہے۔ مال اللہ کے راستے میں خرچ کرنے میں ہے۔ غرباء اور بیواؤں کی سرپرستی میں ہے۔ رزق حلال کی فکر میں ہے۔ قناعت میں ہے۔ صلۂ رحمی میں ہے۔ مساجد اور مدارس کی آبادی میں ہے۔ اگر دلوں کا سکون چاہتے ہو تو اللہ کو راضی کر لو اور اللہ راضی ہوتے ہیں نیک اعمال سے ، صدقہ خیرات کرنے سے ، نمازوں کی پابندی کرنے سے اور اللہ کا ذکر کرنے سے۔آؤآج وعدہ اور عہد کرتے ہیں کہ ہم اندر والے انسان کو اللہ کے تابع کریں گے تاکہ آنے والا کل ہمارے لیے خوشیوں اور سکون کا باعث ہواور ہمارے دلوں کو سکون نصیب ہو۔ جب دل کو سکون ہوتاہے تو پھر نماز میں، تلاوت میں، ماں باپ کی عزت کرنے میں اور تعلیم حاصل کرنے میں گویا ہر نیکی کے کام میں دل لگتاہے اور لذت محسوس ہوتی ہے۔ دل کے سکون سے تہجد کی ادائیگی میں جاگنا اور اللہ پاک سے باتیں کرنا اچھا لگتاہے اور موت کا خوف ختم ہو جاتاہے اور یہی عارضی زندگی ہے جو ایک دن ختم ہونے والی ہے۔