وقت لوٹ کر نہیں آتا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
وقت لوٹ کر نہیں آتا
ام سعد، گگومنڈی
خدیجہ لاہور کی باسی ہے وہ ایک سکول میں پڑھا کر گزارا کرتی ہے حالانکہ جب وہ نئی بیاہی پیا گھر آئی تھی تو اس وقت اس کے ٹھاٹ باٹھ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ تو پہلے ہی نازوں میں پلی بڑھی تھی مگر شوہر کے وسیع بزنس نے آسائش و آرام میں اضافہ کر دیا۔ شادی کے سال دو سال تو جاو چونچلوں ہی میں گذر گئے مگر آخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ماں باپ نے خدیجہ کو زیورات سے تو لادا ہی تھا جہیز کا سامان بھی کچھ کم نہ دیا مگر خدیجہ؛ زیور، ادب اور خاوند کے حقوق سے آگاہ نہ تھی خاوند جب دن کا تھکا ہارا کاروباری مصروفیات سے گھر لوٹتا تو خدیجہ کے لیے ہوٹل سے پکا پکایا کھانا بھی لے آتا مگر وہ تھی کہ خاوند جب بھی گھر آتا فلم دیکھنے میں مصروف ہو جاتی۔ ابتدا میں تو وہ نظر انداز ہی کرتا رہا شاید ابھی میکے سے دوری کی وجہ سے دل بہلاتی ہو مگر یہ تو معمول ہی رہا شوہر نے گاہے بگاہے یاد دہانی بھی کروائی کہ مجھے تمہارا شوہر نامدار ہونے کا شرف حاصل ہے تھکا ماندا آتا ہوں دسترخوان لگا دیا کرو اور کچھ گھریلو ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے کبھی کھانا بنا لیا کرو۔ مگر وہ تو فلموں اور گانوں کی ایسی رسیا تھی کہ ذرا بھی کان پہ جوں نہ رینگی۔ اسی طرح کی اور عادات بھی تھیں جو ماں باپ کے لاڈ پیار کی وجہ سے پختہ ہو چکی تھیں جن میں ہر وقت سوئے رہنے کی عادت بھی شامل تھی۔ خاوند نے تنگ آ کر کہنا بند کر دیا اور دوری بڑھتے بڑھتےزیادہ ہی ہوتی چلی گئی اور اس کا وہی نتیجہ کہ خدیجہ طلاق لے کر گھر میں بیٹھی ہوئی ہے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں ،بھائی بھاوج پوچھتے تک نہیں بالوں میں چاندی اتر آئی ہے۔ تنہا وقت گزارنا پڑتا ہے۔ گھر بسانے کو دل چاہتا ہے مگر کوئی پوچھتا نہیں۔ ہر وقت پرانی یادیں دل میں بسی رہتی ہیں اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ذرا دل کو تسلی ہو۔ خدیجہ اب سکول میں بچیوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ادب کے گہنے بھی دیتی ہے ہمہ وقت حقوق العباد کی تلقین کرتی ہے۔ نماز شاید کبھی ہی قضا ہوئی ہو۔ روزے رمضان کے علاوہ بھی رکھتی ہے۔ مگر وقت ہے کہ لوٹ کر ہی نہیں آتا۔