عورت …………اسلام کی نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عورت …………اسلام کی نظر میں
مولانا عبدالخبیر آزاد
خطیب بادشاہی مسجد، لاہور
دور حاضر میں عورتوں پر مختلف طریقوں سے تشددکے واقعات سننے اور دیکھنے میں آرہے ہیں کہیں ان کو وراثت سے محروم کرنے کی کوششیں ، کہیں قرآن کریم سے ان کی شادی رچائی جانا ، کہیں ونی کی رسم ، کہیں کاروکاری ، کہیں خواتین کے ناک کان کاٹ دینا کہیں چوٹی کاٹ لینا کہیں جسم پر تیزاب پھینکنا اور کہیں غیرت کے نام پر قتل وغیرہ ایسے مسائل نے جنم لیا ہے جن کو روکنا معاشرے میں قیام امن کے لیے بہت ضروری ہے اس کے پیش نظر دو طرح کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں ایک اسلام کی روشن اور نفیس تعلیم دوسری طرف مغرب کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے غیرفطری مفروضے۔
بنیادی طور پر ہندو مت ، عیسائیت ، یونانی تہذیب یہودیت ،رومی اور قدیم تہذیبیں جن کا مشترکہ نظریہ عورت کےبارے میں جابرانہ اور ظالمانہ ہے جبکہ اسلام نے عورت کو بلندیوں سے نوازا ہے اوراحترام وعزت بخشی ہے۔ چنانچہ چند آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا۔
اس آیت کریمہ کا ماحصل یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کرنا چائیے۔ خواہ وہ سہاگن ہوں یا بیوہ آیت کریمہ نے تہمت، عیب جوئی، بدگمانی، اور غیبت و بدگوئی کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بند کردیے۔
مرد بعض اوقات، اظہار خفگی کے وقت، عورت کی برائیاں گنانا شروع کردیتا ہے اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ جو عورت تمہارے دامن سے وابستہ ہے مانا کہ اس میں کچھ برائیاں اور لاپروائیاں ہیں لیکن ان برائیوں کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی توپائی جاسکتی ہیں۔ اگر وہ کاہل یا لاپرواہ ہے تو ساتھ ہی مثلا تمہاری وفادار اور عصمت شعار بھی تو ہے تو اس کی ان خوبیوں کو بھی تو نظر میں لاؤ، کبھی ان کا بھی خیال کرلیاکرو۔ھن لباس لکم وانتم لباس لھن وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔مرد عورت دونوں کو حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کےلیے مخلص اور وفادار رہیں بلکہ یک جان و دو قالب ہوں، ایک دوسرے کے پردہ پوش، ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی تسکین کاذریعہ ہوں اور ایک دوسرے کی معاشی اور معاشرتی کمی میں کمال کا وسیلہ بن کر رہیں۔اکثر عورتوں میں ضد اور ہٹ ہوتی ہے۔ مرد کو چاہئیے کہ اس کی ضد کے مقابلے میں سختی اور درشتی سے کام نہ لے۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے
من یعمل من الصالحات من ذکر او انثی ٰوھو مومن۔۔۔۔ الایہ
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے فرمادیا ہے کہ اچھے عمل کرنے والا خواہ مرد ہے یا عورت وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اس سےملتی جلتی ایک آیت کریمہ اور بھی ہے لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثیٰ اللہ تعالی کسی کے عمل کو ضائع نہیں فرماتے خواہ وہ مرد ہویا عورت۔ اسی سے ایک اصول نکلا کہ جو بھی محنت کرے گا کامیاب ہوگا اس لیے آج بھی عورت کے لیے ولایت کے میدان ،علم وتقوی کے میدان حاضر ہیں جتنی محنت کرے گی اتنا نام کمائے گی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
اسکنوھن من حیث سکنتم۔۔۔۔ الایہ
اس آیت میں اللہ تعالی نے مردوں کو حکم دیا کہ جیسے تم رہتے ہو ایسے ہی ان )خواتین( کے لیے بندوبست کرو۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی رضا اور منشاء بلکہ حکم یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام میں عورت پر ظلم نہیں کیا جاتا بلکہ جن امور میں برابری ممکن ہوتی ہے وہاں خود شریعت اس کا حکم دے دیتی ہے۔ ہاں ہر معاملہ میں برابری کا تقاضا کرنا جہاں شریعت کے منافی ہے وہاں عقل سلیم کے بھی سراسر خلاف ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
لا تمسکوھن ضرارا لتعتدو ا ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ۔۔۔۔ ۔ الایہ
آئے دن اسلام اور قرآن کریم پر انگشت طعن دراز کرنے والے آئیں اور اس قرآنی حکم کو سمجھیں کہ کس طرح اسلام نے عورت کی حفاظت فرمائی ہے۔ قرآن کی نظر میں وہ شخص ظالم شمار ہوتا ہے جو خواتین پر تشددکرے اور ان کو نقصان پہنچائے جب تک مسلمان ان قرآنی احکام پر عمل پیرا تھا اس وقت تک امن وسکون اور خاندانی نظام باحسن چل رہا تھا۔ لیکن افسوس جب خود مسلمان اس حکم سے دور ہوا تو غیر مسلم اقوام بلکہ نام نہاد مسلمان بھی یہ کہتے نظر آئے اسلام میں عورتوں کا تحفظ نہیں ہے۔ یوں نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق اور تحفظ کے جو خدائی احکامات تھے ان پر آج مسلمان خود عمل پیرا نہیں ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ۔۔۔۔ نسائی
دنیا کا اچھا متاع یعنی قیمت چیز نیک عورت ہے۔ اس حدیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کو فرامین نبوی میں کس قدر اہمیت حاصل ہے کہ عورت کو دنیا بھر کی قیمتی چیز قرار دے دیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
خیرکم خیر لاہلہ۔۔۔۔۔ترمذی
تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ انسان کے بہتر، خوش اخلاق اور صالح ہونے کی یہ ایک ایسی پہچان بتادی گئی ہے کہ اس آئینہ میں ہر شخص اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ جو اپنوں کے ساتھ احسان اور انصاف نہیں کرسکتا اس سے کیا توقع کہ وہ دوسروں سے اچھا سلوک کرے گا۔ حسن معاملہ اور نیکی گھر سے شروع ہونے چائیے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
حجۃ الوداع کے مشہور خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! عورتوں کے بارے میں، نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کروبے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔
(ابن ماجہ)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
ایک موقع پر ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ، یا رسول اللہ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) بیوی کا حق شوہر پر کیا ہے؟ فرمایا جب خود کھائے تو اس کو کھلائے، جب اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اس کی سزا کےلیے اس کو علیحدہ کردے۔
ابن ماجہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے :
بخاری شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ارشاد موجود ہے کہ ہم لوگ عورتوں کے بارے میں بہت محتاط رہا کرتے تھے مبادا کہیں ہم پر ان کے بارے میں کوئی ایسا حکم نہ نازل ہوجائے )جس میں ہم ظالم شمار ہوں (