سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور علامہ محمد اقبال

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور علامہ محمد اقبال
سیفی خان، مانسہرہ
امیرشریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ اورعلامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے باہم تعلقات تاریخ کے سینہ پر ثبت ہیں لیکن ہمارےمصنفین کی ذاتی پسندوناپسند نے ان شخصیات کی تعلق داری اوردوستی کے واقعات پر پردہ ڈال رکھا ہے۔وگرنہ ان حضرات کی آپس کی قربت اتنی نمایاں تھی کہ جانبدارقلم کاروں کی دیدہ ودانستہ سینہ زوریوں کے باوجودآج بھی ان کے دوستانہ مراسم لوح تاریخ پر جگمگاتے نظر آتے ہیں۔تاریخی قرائن پتادیتے ہیں کہ اقبال اور بخاری کے مابین شناسائی کا آغاز دسمبر1919ء میں خلافت کانفرنس ، امرتسر میں ہوا۔ جس میں علامہ اقبال سمیت ہندوستان کے تمام نمایاں سیاسی رہنمابھی شریک تھے۔اس کانفرنس میں سیدعطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی زندگی کی پہلی سیاسی تقریرکی تھی۔جسے سن کر مولانامحمدعلی جوہر کہہ اٹھے ’’ بخاری! جب تم لوگوں کو پلاؤ اورقورمہ کھلادیتے ہوتواب تمہارے بعد ہمارے ساگ اورستو کو کون پوچھے گا۔‘‘جب سید بخاری اپنی ایسی ہی شعلہ بارتقریروں کی بدولت گرفتارہوکر تین سال کے لیے جیل چلے گئے تو خان غازی کابلی کی روایت کے مطابق اقبال نے سیدبخاری کی گرفتاری پر ’’اسیری ‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی :
ہے اسیری اعتبار افزاء جو ہو فطرت بلند قطرۂ نیساں ہے زندان

صدف سے ارجمند

مشک ازفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے مشک بن جاتی ہے

ہو کر نافۂ آہو میں بند

ہرکسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت ، مگر کم ہیں وہ

طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند

اقبال نے بخاری کی اسی نظربندی پر ایک بیان میں کہا تھاکہ’’مجھے مجلس خلافت کے ان ارکان سے ہمدردی ہے جواپنی مجلس کی تجویزکے مطابق نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہوئے گرفتارہوئے کہ وہ ایک پاک مقصد کی خاطر ایثارکررہے ہیں۔ خاص کر مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری اورخواجہ عبدالرحمٰن غازی ایسے مشہورکارکنوں کے ساتھ ہمدردی ہے۔ہمیں ان کی بعض آراء سے اختلاف بھی ہو،لیکن عقل وانصاف کا تقاضایہ ہے کہ ان کی خوبیوں کا بھی اعتراف کیاجائے۔وہ قومی کاموں میں بہت حصہ لیتے ہیں اورضرورت کے وقت بڑاایثار دکھاتے ہیں۔‘‘
)گفتار اقبال،ص40)
گویا اقبال؛ سیاسی اختلاف کے باوجودان کی قربانی وایثار کے معترف تھے۔اقبال ہی کاشعر سیدبخاری کے حسب حال ہے کہ
ازل سے فطرت احرارمیں ہے دوش بدوش قلندری و

قبا پوشی و کلہ داری

اقبال نے بخاری کی انہی دینی وقومی ا ورملی خدمات کے پیش نظرکیاخوب تاریخی جملہ کہاتھا کہ’’ شاہ جی! آپ اسلام کی چلتی پھرتی تلوارہیں۔‘‘مارچ 1925ء کو” انجمن خدام الدین لاہور“کے زیرِاہتمام ایک جلسہ ہواجس میں ہندوستان کے نامورعلماء نے شرکت کی۔ رات کو علامہ اقبال مرحوم نے اپنے گھرمیں ایک ضیافت کااہتمام کیاتھاجس میں علامہ محمد انورشاہ کشمیری ،علامہ شبیر احمدعثمانی ، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی اور مولاناسید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہم اللہ مدعوتھے۔ ضیافت کے دوران بہت سے علمی اوردینی مسائل زیر بحث آئے جن میں سود کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ جب اقبال 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں اترے توفرزند اقبال جسٹس(ر)جاوید اقبال کے بقول:
”سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اقبال کے انتخابی جلسوں میں ان کی حمایت میں تقریریں کیں۔ اقبال کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو ان کی اس سیاسی کامیابی میں سیدبخاری کی خطابتی سحرکاری کابھی خاصاعمل دخل شامل تھا۔ “
پنجاب میں قادیانیت کے فتنہ نے زورپکڑا تو علامہ محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے تحفظ ختم نبوت کے لیے خصوصی تگ ودوسے کام لیا اوراستیصالِ قادیانیت کے لیے نہ صرف خودبھی خصوصی جدوجہدفرمائی بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی ا س اہم محاذپر کھڑاکیاتھا۔1930ء میں انجمن خدام الدین لاہور کے جلسہ میں علامہ محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی قادیانیت شکن سرگرمیوں اورمجاہدانہ یلغاروں کے اعتراف میں انہیں امیرشریعت نامزدکیا اور پانچ سو علماء سمیت سیدبخاری رحمہ اللہ کی بیعت کی۔ اس تاریخی موقع پر علامہ اقبال بھی موجودتھے۔ اقبال اوربخاری کے درمیان کا فی معاملات قدر مشترک تھے۔مثلاً قرآن فہمی، عالم اسلام کی ناگفتہ بہ حالت پر اضطراب وبے قراری،انگریزدشمنی ، شعروادب کا ذوق وغیرہ۔یہی وجہ تھی کہ 1930ء میں ممتاز اشتراکی مصنف باری علیگ نے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں ’’ اقبال اوربخاری‘‘ کے عنوان سے ایک پرمغز مقالہ تحریر کیاتھا۔جس میں انہوں نے دونوں شخصیات کا موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں کو ان کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ بھی دیا تھا۔1931ء میں سید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی قیادت میں کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے ”مجلس احراراسلام“ نے پہلی عوامی تحریک چلائی۔ تحریک کشمیر کے آغازمیں ہی علامہ اقبال مرحوم نے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں ہونے والے جلسوں کا انتظام مجلس احر اراسلام کے سپردکردیاجس کی تفصیلات روزنامہ ’’انقلاب‘‘لاہورکی فائلوں میں محفوظ ہیں۔آزادئ کشمیرکے سلسلہ میں ہی ایک جلسہ اقبال کی صدارت میں لاہورکی سرزمین پر منعقدہوا جس میں سید بخاری رحمہ اللہ نے تقریر فرمائی۔ عوام کے اصراراورشاہ جی کی سفارش پر اقبال نے ناسازئ طبع کے باوجودحسب ذیل ایک شعر بھی سنایا
لا الہ گوئی بگو از روئے جاں لاالہ ضرب است

وضرب کاری است

انہی دنوں ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیاتھا جس میں دیگر مسلمان رہنماؤں کے علاوہ علامہ اقبال بھی شامل تھےلیکن بدقسمتی سے کمیٹی کی سربراہی کاسہرا آنجہانی مرزا بشیر الدین محمود (سربراہ قادیانی جماعت) اپنے سر پر سجانے میں کامیاب ہوگیا۔جس پر مجلس احرار نے ملک گیر شدید احتجاج کیا اورسید عطا ء اللہ شاہ بخاری ، چودھری افضل حق اورمولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی رحمہم اللہ نے بارہا علامہ اقبال سے مذاکرات کیے اوران پر واضح کیاکہ کشمیریوں کی حمایت کے پردہ میں قادیانی کشمیرکو قادیانی ریاست بنانے کاناپاک منصوبہ بروئے کار لاناچاہتے ہیں۔ بعد کے حالات نے بھی قادیانیوں کا مکروہ چہرہ واضح کردیا۔احرارکی رہنمائی میں مسلمانوں کے شدید دباؤ پر مرزا بشیرالدین کشمیرکمیٹی سے مستعفی ہوگیا اورعلامہ اقبال کو نیا صدرمنتخب کرلیا گیا لیکن علامہ اقبال بھی قادیانیوں کے اصل عزائم سے باخبر ہونے پر کمیٹی سے استعفیٰ دے کرالگ ہوگئے اوریوں اقبال نے سید بخاری اوران کی جماعت کے اصولی مؤقف کے درست ہونے کی عملاً تائید کردی۔اقبال وبخاری کا یہ تعلق خاطرآخردم تک قائم رہاحتیٰ کہ جب 1938ء میں اقبال کا انتقال ہواتو سید بخاری نے مسجد خیرالدین امرتسرمیں ایک تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’اقبال کو نہ انگریز نے سمجھا ،نہ قوم نے۔ اگر انگریزسمجھتا تواقبال بستر پر نہ مرتے، بلکہ پھانسی کے تختہ پر لٹکائے جاتے اوراگر قوم سمجھ لیتی تو آج تک غلام نہ رہتی۔‘‘اقبال وبخاری میں قرآن فہمی کا ذوق بدرجہ اتم موجودتھااقبال رحمہ اللہ نے قرآن مجید کے بحر عمیق میں غواصی کی تھی۔اسی لیے سید بخاری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ’’بابو لوگو! قرآن کی قسمیں نہ کھایاکرو،قرآن کو سمجھ کر پڑھاکرو۔دیکھا! اقبال نے قرآن کو ڈوب کر پڑھا تو دانش فرنگ پر ہلہ بول دیا۔‘‘آج ملک وقوم جن حالات سے گزررہے ہیں۔ایسے میں اقبال جیسے دانشورانہ تدبراوربخاری جیسی مومنانہ بصیرت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔یورپی اورامریکی استعمار نے عالم اسلام کو بری طرح اپنی سازشوں کاشکار کررکھا ہے۔دنیائے اسلام میں انقلابات کروٹیں لے رہے ہیں لیکن ان کی قیادتیں تدبروبصیرت سے محروم ہیں اوران کے عوام اپنی منزل سے کوسوں دوربھٹک رہے ہیں۔اللہ امت مسلمہ کو اقبال وبخاری جیسے عظیم المرتبت رہنما عطا فرمائے۔ تاکہ ملت اسلامیہ کی کشتی ساحل مراد سے ہمکنار ہوسکے۔ خاموش ہوگئے ہیں، چمنستاں کے رازدار سرمایۂ گداز تھی، جن کی نوائے درد