دینی مدارس انسانیت ساز ادارے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دینی مدارس انسانیت ساز ادارے
تنویر احمد اعوان
مدارس دینیہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ ہے ، درسگاہ صفہ سے علوم و فنون کی نشر و اشاعت شروع ہوئی تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس مکتب سے علوم قرآنیہ اور حکمت کی تعلیم دی جاتی تھی ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خلافت اسلامیہ کئی کئی شہر شرح خواندگی کے اعتبار سے سو فیصد تھے ،مسلم مدارس اور مکاتب کی غرض و غایت صر ف اور صرف قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم تک محدود نہیں تھی بلکہ مسلمان کو ہر اس فن اور علم کی تعلیم دینا تھی جو ان کی اجتماعی بقاءو فلاح کے لیے ضروری ہو ، اس وقت کے دینی مدارس تمام جدید و قدیم علوم کے مراکز تھے ، ان ہی مدارس سے اسلامی حکومت اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا ، نصف دنیا پر قائم اسلامی خلافتیں جو اپنے وقت کی بہترین ، ترقی یافتہ اور پر امن نظام چلا رہی تھیں ، ان کے لیے فنی و تیکنیکی ضروریا ت کو پورا کرنا ، دینی و مذہبی راہنمائی یہی درسگاہیں کر رہی تھیں ، اگر علوم شرعیہ و دینیہ کے ماہر علماء و راسخین فی العلم اور مشائخ ان مدارس کا ثمرہ ہیں تو دوسر طرف متنوع فنون کے موجد ، جدید اشیاءو نظریات کے بانی ، تحقیق و تجربہ کے شہسوار بھی ان ہی مدارس نے اسلامی معاشرے کو دیے جو انسانیت پربھی بڑا احسان ہے۔
اسلامی ممالک میں ہر طرف پھیلے ہوئے تاریخی تعلیمی مراکز نہ صرف ہمارا اثاثہ ہیں بلکہ ہماری عظمت رفتہ کے روشن مینارے ہیں ، جن کو حالات نے ویران کر دیا ، غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی لا پرواہی نے ان کی حیثیت صرف تاریخی ورثہ تک محدود کر دی ہے ، اسی طرح بر صغیر پا ک و ہند میں انگریز کے آنے کے بعد یکسر تبدیلی رو نما ہوئی اور نظام تعلیم کو مکمل تبدیل کر دیا گیا۔ جامعات ، مدارس کلچر کا خاتمہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ، علماءکو شہید اور مدارس کو مسمار کر کے سرکاری سر پرستی میں دینی اور مذہبی تعلیم کے لیے مدرسہ عالیہ کلکتہ اور مدرسہ عالیہ رام پور جیسے ادارے قائم کیے ان سے مقصود ایسا طبقہ تیار کرنا تھا جو انگریز کا معاون و ممد ہو ، اور دوسری طرف بڑی بڑی اراضیوں پر خالص ولایتی علم پڑھانے والے سیکولر انگریزی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ، انگلش کو قومی زبان قرار دے کر ایک رات میں پورے بر صغیر کے لوگوں کو ”اَن پڑھ “بنا دیا گیا ، تہذیبی روایات و اقدار میں نمایاں تبدیلیاں ظاہر ہونے لگیں عہد غلامی میں مسلمان راہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں نے دور اندیشی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ایسے مختلف دینی ادارے اور درسگاہیں قائم کیں جو ایک طرف اسلامی ثقافت اور تعلیمات کی امین ہوں تو دوسری طرف درپیش چیلنجز سے نبر د آزما ہونے والے رجال کا ر بھی میدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔
جن میں دارالعلوم دیوبند ، ندوة العلماء،سہارنپور اور دہلی کی درسگاہیں ،علماءاکابرین اور مسلم رہنماؤں کی کوشش کاثمرہ تھیں ،یہ وہ موقع تھا جب مسلمان دو انتہاؤں پر تھے سرکاری اداروں میں سیکولرتعلیمی نظام رائج کر کے دینی افکار ونظریات کو نصاب تعلیم سے خارج کر دیا گیا تھا اورمسلم نو جوا ن میں فرنگی تہذیب کو پروان چڑھایا جا رہا تھا۔
ایسی صورتحال میں یہی دینی مدارس ہی علوم دینیہ کی اشاعت و استقلال کا واحد ذریعہ تھے ، الحمد للہ اس ظلم و جبر اور مشکلات کے دور میں اہل مکتب اپنی کاوشوں اور محنتوں میں کامیاب رہے ،اور علوم دینیہ کی شمع کو روشن کیے رکھا ، تب سے آج تک دینی مدارس ہر سطح پر امت کی راہنمائی کے لیے افراد سازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آزادی ہند کی تحاریک ہوں یا انگریزی سامراج کی اسلام کے خلاف سازشیں ، ان ہی مدارس کے فضلاءنے صیانت دین اور آزادی ہند کا فریضہ احسن طریقہ سے سر انجا م دیا ، قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لیے بھی علماءو مدارس کی کوششوں کو فرا موش نہیں کیا جا سکتا۔ ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں
صرف وفاق المدارس العربیہ کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو وفاق المدارس العربیہ سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماءکی تعداد پچانوے ہزار اکہتر (95071)اور عالمات کی تعداد نناوے ہزار چورانوے ہے (99094)۔
مجموعی طور پر ایک لاکھ چرانوے ہزار ایک سو پینسٹھ (194165)علماءو عالمات قوم و ملت کی خدمت کر رہے ہیں ،یہ خدمت تعلیمی و علمی دنیا میں ایک نمایاں مقام و حیثیت کی حامل ہے۔ سولہ ہزار دو سو اکیاسی (16281)مدارس اور جامعات کے نمائندہ بورڈ و فا ق المدارس العربیہ کے زیر اہتمام بیس لاکھ پچیس ہزار سات سو ستر (2025770) طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں اور ہر سال کی طرح امسال 2012ءمیں (8791)طلبہ اور (14656)طالبات مسند فراغت حاصل کر رہے ہیں ، یہ تمام اعداد و شمار علماءکرام کی محنتوں اور کاوشوں کے کامیاب ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ،اور ان کو کوئی ذی عقل انسان نہیں جھٹلا سکتا ہے۔
اہل مدارس و علماءکرام نے ہمیشہ اسلام کے غلبہ اور پاکستان کے استحکام کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ محب وطن اور باصلاحیت افراد کی بہت بڑی جمعیت ان ہی مدارس کے ترتیب یافتہ لوگوں کی ہی ہے ، مگر شکوے شکایات اور الزامات کا لا متناہی سلسلہ بھی اہل مدارس کے سر تھونپ دیا جاتا ہے ، جتنا اہل مدارس قوم و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اتنا ہی اہل اقتدار کی بے توجہی اوران کی سامراج نوازی کا شکا رچلے آرہے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان اداروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جا معات دینیہ و مدارس کے طلبہ کو ملکی سطح پر وہ مقام و حقوق دیں جو عصری جا معات و یونیورسٹیز کے طلبہ کو دیے جاتے ہیں ، تاکہ مدارس دینیہ کے طلبہ ملکی خدمت اور قومی ترقی میں زیادہ نمایاں کردار ادا کر سکیں۔