یہودی لابی اور عزت مسلم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

یہودی لابی اور عزت مسلم

محمد بشارت تبسمؔ
وہ آزاد کشمیر کی سرسبزو شاداب وادیوں میں پلی تھی۔ سادہ ماحول و سادہ غذا نے عزت نفس اور حیاء کو اس کے رگ و ریشہ میں سمو دیا تھا۔ایک غریب گرانے میں پرورش پانے والی ڈش اور کیبل کو کیا جانے اس نے تو اپنے گھر میں کبھی ٹیلی ویژن بھی نہ دیکھا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر نئے نرالے فیشن سے اسے چڑ تھی۔ وہ سادہ دیہاتی لباس پہنتی،سر پر دوپٹہ رکھتی ، والدین کی خدمت کرتی باوجود اس کے کہ وہ ایک عصری ادارے کی سٹوڈنٹ تھی لیکن شرم و حیاء کا گویا پیکر تھی۔کیا عصری ادارے کا سٹوڈنٹ ہونا کوئی بے حیائی و فحاشی کی علامت ہے۔۔ ؟ نہیں تو،ہر گز نہیں۔
فنون حاصل کرنے سے کون منع کرتا ہے جتنے چاہو حاصل کرو۔ علوم کی بجائے فنون کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ علم تو وہی ہے جسے اس ذات نے علم کہا ہے کہ جس کے علم کے ساتھ اگر سارے عالم کے علم کا موازنہ کیا جائے تو ہیچ سے بھی اگر نچلے درجے کا کوئی لفظ میرے پاس ہوتا تو کہہ دیتا اور وہ ہے دین کا علم باقی تو سارے ہیں ہی فنون۔آمنہ ان فنون پڑھنے والی لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو حیاء وپاک دامنی کو خیر باد کر کے مغربیت کو مشرقیت پر ترجیح دیتی ہیں۔جن کو دیکھ کر اکبر آلہ آبادی کی یہ رباعی یاد آتی ہے۔
بے پردہ نظر آئیں جو چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرت

قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں

کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا

وہ صبح اٹھتی،والدین کے لیے ناشتہ بناتی،اس کے بعد نقاب میں منہ چھپائے اسکول کی طرف روانہ ہو جاتی ،اسکول سے واپسی پر تھوڑا بہت ٹائم ہوم ورک میں صرف کرنے کے بعد دوبارہ گھریلو کاموں میں مگن ہو جاتی۔یوں اس نے والدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ میٹرک بھی کلیئر کر لی۔ میٹرک سے آگے پڑھنے میں ایک تو خاندانی غیرت آڑے آئی دوسرا غربت و افلاس کی چکی میں پستا ہوا یہ گھرانہ اتنے اخراجات کب برداشت کر سکتا تھا کہ فیسیں بھی بھرے اور ہاسٹل کے اخراجات بھی برداشت کرے۔ آمنہ کے گھر کی حالت دن بدن نازک سے نازک ہوتی چلی جا رہی تھی۔ گھر کے تمام تر اخراجات برداشت کرنے والا بوڑھا باپ پیرانہ سالی کی بیماریوں اور کمزوریوں کو باعث موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ عین ان حالات میں آمنہ کو ایک مغربی تنظیم کی طرف سے جاب کی آفر موصول ہوئی۔ آمنہ سے سوچا کہ چلو تھو ڑے دن ملازمت اختیار کر لیتی ہوں جب حالات تھوڑے بہتر ہو جائیں گے تو چھوڑ دوں گی لیکن اس بے چاری کو کیا پتہ تھا کہ وہ ایک ایسی تاریک سرنگ میں داخل ہونے جارہی ہے جس کا سراخ بے حمیتی اورعریانی کے دروازے پر جا کر کھلے گا۔آمنہ نے ملازمت جوائن کر لی اور ڈیوٹی پر حاضر ہوناشروع کر دیا۔ تقریباً ایک ہفتہ گزرا تھا کہ این۔جی۔او۔کا ایک اجلاس ہونا طے پایا۔چنانچہ جب آمنہ ڈیوٹی پر پہنچی تو اسے ایک تھیلا تھما دیا گیا کہ آج ہمارا چونکہ اجلاس ہے اور اس میں ہر کارکن کے لیے یونیفارم ضروری ہے لہٰذا تم بھی یونیفارم پہن کر آجاؤ۔
آمنہ نے تھیلا کھول کر جو دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اس نے ٹیبل کی طرف گھومتے ہوئے تھیلا اس پر رکھ دیا اور بڑے بے باکانہ انداز میں کہا کہ ”میں پینٹ شرٹ ہر گز نہیں پہنوں گی۔ “آرگنائزر نے اسے ہر چند سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن جب وہ کسی طرح بھی نہ مانی تو اس نے کہا کہ اچھا ایسا کروکہ تم یہ وردی پہن کر دیکھو اگر تمہیں پسند آئے تو ٹھیک ہے ورنہ اتار دینا اس میں تو کوئی برائی نہیں ہے ناں۔ آمنہ واش روم میں جاکر یونیفارم پہنتی ہے۔ ایک شریف عورت کو کب گوارا تھا کہ وہ ایسا ادب سے عاری لباس پہنے ،لہذا فورا ً اس کو اتارا اپنا سادہ لباس پہنا اور واپس آگئی۔ آرگنائزر کی نگاہیں آمنہ پر مرکوز ہوئیں ،جی آمنہ !کیا فیصلہ کیا؟ آرگنائزر کی آواز گونجی۔ ایسا نیم عریاں لباس ہر گز کوئی شریف عورت نہیں پہن سکتی اور نہ ہی میں اسے پہنوں گی آمنہ نے بے دھڑک جواب دیا۔ایک مسکراہٹ آرگنائزر کے چہرے پر نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی یہ الفاظ آمنہ کے پر دہ سماعت سے ٹکرائے کہ”آمنہ !اب تو تمہیں یہ لباس پہننا ہی پڑے گا۔ “ آمنہ پر ایک سکتہ طاری ہو گیا اور وہ بے حس و حرکت آرگنائزر کے چہرے کو تکے جا رہی تھی اس سادہ لوح کو کیا خبر تھی کہ واش روم میں باقاعدہ پروٹوکول کے تحت نصب شدہ کیمرے نے اس کی تصاویر آرگنائزر کے کمپیوٹر پر منتقل کر دی ہیں جنھیں اب وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔اب کمرے میں ہو کا عالم تھا ،آمنہ کو دل کی دھڑکنیں معمول سے ہٹ چکی تھیں۔نیم عریانی پسند ہے یا عریانی ،آرگنائزر کی آواز نے کمرے کے سکوت کو تو ڑا۔ آمنہ نے بہتیری کوشش کی کہ ضبط کرے مگر موٹے موٹے آنسوؤں کی لڑی اس کے رخسار وں پر یوں بہہ پڑی جیسے گلاب پر شبنم۔
اس کے پاؤں تلے سے گویا زمین نکل چکی تھی آخر مرتی کیا نہ کرتی نہ چاہتے ہوئے بھی اسے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور تنظیم کی طرف سے دی گئی وردی اسے زیب تن کرنا ہی پڑی کادالفقران یکون کفرا،کی مصداق آمنہ کی آنکھیں ابتداءمیں مارے شرم کے اوپر نہیں اٹھ رہی تھی وہ آمنہ جو کبھی عزت کی بلندیوں پر ہوا کرتی تھی آج ذلت کی ڈھلوانیں اس کا مقدر بن چکی تھیں جو مزااسے باعزت گھرانے میں بیٹھ کر روکھی سوکھی کھانے میں آتا تھا آج اسٹیم روسٹ میں محسوس کر رہی تھی۔ اس کی عفت و پاکدامنی کا وہ سورج جو کبھی پورے آب و تاب سے چمکا کرتا تھا اب افق مغرب کی گھنگھور گھٹاؤں میں غائب ہو چکا تھا قرآن کی دلدادہ آج تار کی تانوں پر سر دھن رہی تھی۔
اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ زمانہ اس کے ساتھ یوں چال چل جائے گا۔ایک صنف نازک کو کیا معلوم تھا کہ بظاہر نظر آنے والے دانوں کے نیچے انتہائی باریک مگر مضبوط جال بچھا پڑا ہے۔ اسے کیا پتہ تھا کہ ہمدردی کے نام پر لے جا کر یہودی لابی اس کا لباس تک چھین لے گی۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تومیرے ضمیر نے مجھے آواز دی کہ اے تبسمؔ تو آخر کب تک اپنی بہنوں کی عصمتیں پامال ہوتی دیکھتا رہے گا۔کیا یہ لگی ہوئی آگ ایک دن تیرے گھر تک نہ پہنچ جائے گی یہود نے ہمیشہ کے لیے تیری ایک بہن کو تجھ سے جدا کر دیا اور تیرے دفاع کی شریانوں میں جنبش تک نہ آنے پائی۔ اب تو کچھ شرم کر اور کچھ نہیں تو کم از کم اہل اسلام کو اتنا تو بتا دے کہ سنو!مغرب میں جا کر ہمیشہ سورج ڈوبا ہی کرتا ہے۔