ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر21
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم ، لیہ
خجند سے واپسی کو بعد پہاڑوں کے محفوظ ٹھکانوں میں رہتے ہوئے بابر اور اس کو باقی ماندہ چند سو ہمرائیوں کو کئی دن گزر گئے تھے اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کرتے کرتے بابر کا ذہن ماؤف ہوتا چلا جا رہا تھا اس کے ذہن میں ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا پھیلتا چلا جا رہا تھا امید کی کوئی بھی کرن کہیں سے بھی نمودار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ایک روز جب وہ اپنے گھٹنوں پر سر رکھ کر سوچوں میں گم تھا تو ایک خیال جھماکے سے اس کے ذہن ِ ماؤف میں اتر آیا اس نے اپنے دوستِ دیرینہ قاسم بیگ کو اپنے پاس بلوالیا۔ قاسم بیگ کی استقامت اور وفاداری کا امتحان لینے کی غرض سے اسے کہا :
”میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تو کچھ اُداس اُداس اور پژمردہ سا رہنے لگا ہےشاید تجھے بھی سلاخ کی طرح اپنی بیوی بچوں کی یاد ستا رہی ہے اور تو ان کے مستقبل سے متعلق کافی فکر مند بھی لگتا ہے۔میں تجھے کھلے دل سے اجازت دیتا ہوں کہ تو اندجان جا کر اور اپنے بیوی بچوں کو بحفاظت نکال لا۔ میری پرواہ مت کر میں اپنے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لوں گا۔“
قاسم بیگ نے بابر کےچہرے کے خدوخال کے اتار چڑھاؤپر نظریں جماتے ہوئے جوابا ًعرض کی:
”سلطانِ معظم ! میری سوچ سلاخ کی سوچ سے قدرے مختلف ہےمیں آپ کو ان نامساعد حالات میں چھوڑ کر کہیں بھی جانا نہیں چاہتا میرے بیوی بچوں کا خدا ہی حافظ و ناصر ہےمیرا مرنا جینا فقط آپ کے ساتھ ہے۔ مجھے سلاخ جیسے ناعاقبت اندیش شخص کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں ہے۔ وہ ایک پست ہمت منگول تھاجو اپنے نو عمر مغل سلطان کو منجدھار کے بیچ یوں چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے آپ کے والدِ گرامی اور آپ کا ڈھیر سارا نمک کھایا ہےمیں نمک حرامی کا مرتکب نہیں ہونا چاہتامیرا مرنا اور میرا جینا فقط آپ کے لیے ہے اور آپ کے ساتھ ہےاس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں چاہتا۔ “
بابر کو قاسم بیگ کےاس جواب سے کافی طمانیت بھی ہوئی اور حوصلہ بھی ملا۔ بنا بریں اس نے قاسم بیگ سے اور قریب ہوتے ہوئے اسے مخاطب کر کے کہا:
”کچھ دنوں سے میں ایک تجویز پر مسلسل غور کر رہا ہوں میں چاہتا ہوں کہ تجھے بھی مشورے میں شریک کر لوں میرا خیال ہے کہ اگر اس تجویز پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جائے تو ہماری بگڑی ہوئی بات بن سکتی ہے۔ “
قاسم بیگ نے بابر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پوچھا : ”حضور والا! وہ کیا تجویز ہے ؟ ذرا میرے بھی گوش گزار فرمائیں۔ “
بابر نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے کہا کہ” میں چاہتا ہوں کہ تو میری طرف سے میرے ماموں اور مغلستان کے خاقان اعظم محمود خان کے پاس میرے ایلچی کی حیثیت سے جائے اور اسے میری زبوں حالی سے متعلق پوری طرح آگاہ کرے کیونکہ تو وہ سب کچھ جانتا ہے جو میں جانتا ہوں۔ سلطان احمد تنبل اور سلطان علی مرزا کی کارگزاری سے متعلق بھی انھیں آگاہ کرنا ضروری ہے۔ خاقان اعظم کو یہ بھی بتانا ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ اور ہمشیرہ سلطان احمد تنبل جیسے نمک حرام اور احسان فراموش شخص کی قید میں ہیں اس نے خواجہ قاضی جیسے وفادار اور نیک نام شخص کو سولی پر لٹکا دیا ہے اندریں حالات اگر انہوں نے ہماری مدد نہ کی تو پھر ہمارے پاس پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ “
بابر کی تجویز سن لینے کے بعد قاسم بیگ نے اس پر صاد کیا اور مغلستان جانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا دریں اثنا اسے معلوم ہوا کہ خاقان اعظم ان دنوں تاشقند میں مقیم تھا۔یہ خبر اس کے لیے بڑی خوش کن بھی تھی اور باعث طمانیت بھی بنابریں قاسم بیگ نے بڑی تیز رفتاری سے تاشقند کا رخ کیا۔ تاشقند پہنچنے پر اسے خاقان اعظم سے ملاقات کرنے کے لیے زیادہ زحمت نہ اٹھانا پڑی خاقان کے دربار میں اذن باریابی حاصل کرنے کے بعد وہ سات بار کورنش بجا لایا اورپھر اس نے خاقان اعظم سے اس کے بھانجے بابر کی زبوں حالی کی داستان دل خراش کہہ ڈالی خاقان اعظم کو بابر کی مدد پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے اپنی چرب زبانی کا خوب استعمال کیا خاقان اعظم محمود خان نے پوری توجہ سے قاسم بیگ کی باتیں سنیں۔بابر کی ماں ،نانی اور اس کے دیگر اہل خانہ کے سلطان احمد تنبل کی قید میں ہونے کی خبر پا کر محمود خان نہایت ہی افسردہ خاطر چیں بہ جبیں ہو گیا۔
اس نے قاسم بیگ سے کہا: ”خاقان اعظم کی ماں اور بہن؛ سلطان احمد تنبل جیسے رذیل اور کوتاہ نظر شخص کی قید میں رہے میری غیرت چنگیزی پر ایک تازیانے سے کم نہیں خانوادہ چنگیزی کی باعزت خواتین کو اس نمک حرام شخص کی قید سے جب تک رہائی نہیں دلا دیتا میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔میں اپنے بھانجے کی درخواست کو منظور کرتا ہوں اور اس کی مدد کے لیے اپنی فوج کا آزمودہ کا ر دستہ روانہ کرنے پر تیار ہوں۔ “
مغلستانی فوجی دستے کو ترتیب دینے کا حکم دے دیا گیا مگر خاقان کے کچھ سردار؛ بابر کی طرف بھیجی جانے والی اس کمک کے خلاف تھے۔ خاقان کی فوج میں کچھ اور بھی ایسے مغل سپاہی موجود تھے جن کے ساتھیوں کو بابر کے حکم پر قاسم بیگ نے سمر قند میں موت کو گھاٹ اتار دیا تھا اور وہ وہاں سے اپنی جانیں بچا کر بھاگ آئے تھے۔انہوں نے مغلوں کے قاتل قاسم بیگ کو پہچان لیا تھا اب جبکہ قاتل ان کی نظروں کے سامنے تھا” خون کے بدلے خون “ کے تحت وہ اس کا سر اتارنا چاہتے تھے۔ مگر خاقان ان کے آڑے آ گیا اور اس نے بر ملا ان کی خواہش کو رد کرتے ہوئے کہا:” تم خوب جانتے ہو کہ بابر ہمارا بھانجا ہے اور وہ اس وقت بہت مشکل میں ہے۔ خانوادہ چنگیزی و تیموری کی معزز خواتین ایک کم ظرف اور کوتاہ بیں شخص کی قید میں ہیں اور قاسم بیگ؛ سلطان بابر کا قاصد ہے میری غیرت کو یہ قطعا ً گوارا نہیں کہ اس آڑے وقت میں اس کی مدد نہ کروں بلکہ اپنے بھانجے کے قاصد کو تہ تیغ کردوں۔ “اگرچہ قاسم بیگ مغلوں کے وحشی پن کا خوب واقف تھا وہ جانتا تھا کہ اس کی زندگی تاشقند میں محفوظ نہیں ہے وحشی مغل اسے کسی وقت بھی پار کر سکتے تھے مگر اس کے باوجود وہ وہاں رہنے پر مجبور تھا کیونکہ وہ وہاں بابر کے ایلچی کی حیثیت سے آیا تھا۔ بہر حال! اپنے سلطان کے لیے اسے اپنا فریضہ سر انجام دینا تھا۔
قاسم بیگ کم وبیش دس روز تک خاقان کا مہمان رہا۔ خاقان نے مغلوں کی فطری وحشیت کے پیش نظر قاسم بیگ کی حفاظت کا بھر پور انتظام کیا تھا۔ اسے شاہی قاصد کے پورے اعزاز کے ساتھ مہمان خانے میں رکھا گیا۔ خاقان کو اس بات کا پورا پورا ادراک تھا کہ بابر کی بھر پور مدد کرنے پر اس کے بیشتر سردار اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو سکتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر وہ بابر کی مدد نہیں کرتا تو اس کی ماں اور بہن دشمن کی قید میں شب وروزگزارنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ بنا بریں اس نے فیصلہ کیا کہ کم از کم پانچ سو سپاہیوں کا دستہ بابر کی مدد کے لیے ضرور بھیجا جانا چاہیئے۔ حالانکہ وہ چاہتا یہ تھا کہ اسے سلطان احمد تنبل پر بذات خود حملہ کر دینا چاہیئے مگر مصلحت وقت کے پیش نظر اس نے اپنا ارادہ کچھ وقت کے لیے مؤخر کر دیا۔
خاقان اعظم نے گیارہویں دن پانچ سو فو جیوں پر مشتمل مغل فوج کا ایک دستہ قاسم بیگ کے ہمراہ بابر کی مدد کے لیے روانہ کر دیا۔ اس نے قاسم بیگ سے کہا کہ میرے بھانجے کو کہہ دینا کہ ” سر دست میں تیری اتنی ہی مدد کر سکتا ہوں کیونکہ میرے گرد و پیش کے حالات مجھے اجازت نہیں دیتے کہ میں تیری بھر پور مدد کروں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں جونہی میرے حالات مجھے اجازت دیتے ہیں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کیے بغیر تیری مدد کو ضرور پہنچوں گا۔ فی الحال اسی پانچ سو فوجیوں کے دستے کو غنیمت سمجھو اور اپنا کام چلاؤ۔“
خاقان اعظم نے فوجی دستے کو الوداع کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قاسم بیگ سے کوئی تعرض نہ کیا جائے بلکہ اس کےساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے کیونکہ یہ شاہی قاصد ہے اور قاصد کا قتل کسی طور بھی جائز نہیں سمجھا جاتا۔ ) جاری ہے (