اے میری بہنا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اے میری بہنا
ام عکراش
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وقرن فی بیوتکن یعنی تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو“اس آیت مبارکہ میں عورتوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں، اس میں خطاب تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہے لیکن دوسری عورتیں بھی معنی و مفہوم کے اعتبار سے اس میں داخل ہیں، شریعت مطہرہ تمام عورتوں کو اپنے گھر وں میں ٹک کر رہنے کا حکم دیتی ہے اور بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج نبی علیہ السلام کو بھی اپنے گھروں سے وابستہ رہنے کا حکم دیا اوران کو احتراماً اس حکم کا مخاطب بنایا۔
محمد بن سیر ین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ”مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ حج اور عمرہ کیوں نہیں کرتیں جس طرح آپ رضی اللہ عنہا کی دوسری بہنیں حج و عمرہ کرتی ہیں ؟ حضرت سودہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ میں نے حج بھی کیا ہے اور عمرہ بھی کیا ہے ، میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے گھر میں سکونت اختیار کروں ، پس خداکی قسم ! میں اپنے گھر سے نہیں نکلوں گی یہا ں تک کہ میں اللہ کو پیاری ہوجاوٴ ں۔محمد بن سیر ین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم وہ اپنے حجر ے کے دروازے سے باہر نہیں نکلیں،یہاں تک کہ ان کا جنازہ وہیں سے نکالا گیا۔“
علامہ کمال الدین الادھمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : گھروں میں پابندہو کر رہنا خیر کا وہ دروازہ ہے کہ جو عورت اس دروازے سے داخل ہوجائے تو وہ اپنی جان ،مال ، عزت وآبرو اور شرافت کو محفوظ و مامون کر لیتی ہے، اور عورت عصمت و عفت کا اعلیٰ نمونہ بن جاتی ہے، گھر وہ جگہ ہے جہاں عورت اپنے گھر کے ضروری کام ، اپنے شوہر اور اولاد کی ذمہ داری اور دینی امور کو انجام دیتی ہے ان کاموں سے کوئی امر مانع نہیں ہوتا ، بلکہ اس کو عبادت وریاضت اور دینی و اخلاقی کتب پڑھنے کا کھلاوقت ملتا ہے ، یوں وہ زندگی کی حقیقی لذت سے بہر ہ یاب ہوتی ہے اور محسوس کرتی ہے کہ وہ سعادت و فلاح اور حقیقی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہورہی ہے ، کیوں نہ ہو؟ اس نے اپنے رب کو بھی اور اپنے خاوند کے حقوق ادا کرکے راضی کیا ہے۔
عورت کے لیے اس سے بڑی سعادت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کارب اس سے راضی ہے اور اس کا شوہر بھی اس سے خوش ہے، آوارہ اور بے حیا عورت کا حال اس کے خلاف ہے، وہ اپنے گھر میں ایک لمحہ کے لیے بھی ٹکتی نہیں ہے بلکہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر دن رات گھومتی پھرتی ہے ہر ایک کے ساتھ اختلا ط کر تی ہے ، خو اہ وہ جا ئز ہو یا نا جا ئز جب گھر آتی ہے تو جو کچھ باہر دیکھا ہوتا ہے، اس کے دماغ میں ایک ایک چیز کی فرمائش موجود ہوتی ہے ، پھر وہ اپنے شوہر سے ہر فرمائش پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے، حالانکہ بسااوقات شوہر کی حالت اس کی فرمائش پوری کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہوتی ، نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ دونوں میں اختلاف و نزاع کی آگ بھڑک اٹھتی ہے ، تم دیکھتے ہوکہ ایسی عورت کو گھر کے کاموں سے دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنی اولا د کی تربیت کی پر واہ ہوتی ہے، اپنے رب اور اپنے شوہر کے حقوق ادا نہیں کرتی ، بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ دین و ادب کی کتابوں کا بھی مذاق اڑاتی ہے اور اس کی ساری توجہ ، اخلاق سوز اور باغیا نہ لٹریچر پر مرکوز ہوتی ہے، انہیں کو وہ پڑھتی ہے۔ جب خاوند اس کو سمجھا نے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتی ہے، اور اس پر سب وشتم کی بوچھاڑ کر دیتی ہے۔ تم ہر وقت ایسی حیا باختہ عورت کو تنگ دل اور بد خلق دیکھو گے یہ اصل میں اس کے کیے کی اس کو سزا ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : ومن اعرض عن ذکر ی فان لہ معیشة ضنکا ونحشرہ یوم القیٰمة اعمٰی یعنی جو شخص میری یاد سے منہ پھیرتا ہے اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھا ئیں گے۔
یہ ساری خرابی عورت کے گھر سے نکلنے اور شرعی احکا م کی پا بند ی نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ گھر سے نکلنے کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ حاصل شدہ نعمت کو حقیر جاننے لگتی ہے اور اپنے شوہر کو استخفا ف کی نظر سے دیکھتی ہے ، اس لیے کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو گھر سے ز یادہ پر تعیش زندگی اور اپنے شوہر سے زیادہ دل کش انسان کو دیکھتی ہے، خصوصاً جبکہ اس کا خاوند عمر رسیدہ یا تنگ دستی کا شکار ہو،
تیجہ یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف و نزاع کی زہر آلودفضا پیدا ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات معاملہ طلاق و افتراق کی حد تک پہنچ جاتا ہے، پھر شادی ، آبادی کی بجائے بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ جو عورت اپنے گھر سے وابستہ رہتی ہے وہ سب سے زیادہ خوش حال نظر آئے گی اور اپنے خاوند کے ساتھ بڑی اچھی ہو گی ، کسی اور کی طرف نگاہ نہیں اُٹھائے گی کسی نعمت کی نا شکری نہیں کرے گی ، خواہ وہ معمولی سی نعمت کیوں نہ ہو۔ شیطان کو بھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا موقع نہیں ملتا وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش باش زندگی گزارتی ہے۔
یہ ساری برکت گھر میں رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ اے میری مسلمان بہن! اسلام یہ چاہتا ہے کہ نیک بیوی کی معاشرت بہتر سے بہتر ہو، وہ شک و شبہ کے مواقع سے دور رہے، اسی مقصد کے پیشِ نظر جب عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بڑی چادر میں ڈھانپ لے نظر وں کو جھکاتے ہوئے بڑے ادب کے ساتھ چلے اور راستہ کے بیچ میں نہ چلے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:راستہ کے بیچ میں چلنا عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے
نیک عورت راستہ کے کنارے کنارے چلتی ہے ،اس کے بیچ میں نہیں چلتی ، اگر راستہ کے بیچ میں چلے گی تو مردوں کی نظر یں اس پر لازماً پڑیں گیں ، اور عورت کا احترام و وقار بھی جاتا رہے گا۔ لیکن راستہ کی ایک جانب چلنے میں یہ قباحت بہت کم پیدا ہوگی ، نیز وہ شک و شبہ کے موقع سے بھی بچے گی ، کیونکہ وہ حجاب میں نکلی ہے اور احترام اور وقار کے ساتھ جارہی ہے، ہر ایسی چیز سے دور ہے جو اس کے لیے کسی قسم کے شبہات کو پیدا کر سکتی ہو۔