کیا عورت مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">کیا عورت مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے؟

مولانامحمد بلال جھنگوی،جھنگ
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالی کے خاص انعامات فضل وکرم اور رحمتوں کے نزول کا مہینہ ہے جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برار کر دیا جاتا ہے۔ اور انسان کے کھلے دشمن شیطان کو قید مزید یہ کہ جہنم کے دروازوں کو بند کر کے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ اور آسمان دنیا سے آواز دی جا رہی ہوتی ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کر دوں ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخشش دوں
تو ہر مسلمان مرد ہو یا عورت اس مہینہ میں عبادت زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس نیکیوں کے سیزن والے مہینہ میں جتنا ہو سکے اپنی آخرت کو سنوا لیں اور اپنے محبوب کو راضی کر لیں۔
اس لیے جہاں وہ دن کو روزہ اور رات کو نماز تراویح کا اہتمام فرماتے ہیں وہی اس کے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کیونکہ معتکف کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو کسی کے در پر جا پڑے کہ جب تک میری درخواست قبول نہ ہو میں یہاں سے جاؤں گا نہیں۔
بقول شخصے
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی معتکف ھو یعتکف الذنوب ویجری لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلھا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی نیکیاں اتنی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے۔
جوآدمی اعتکاف کرنا چاہے تو وہ بیس رمضان المبارک کے دن نماز عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے سے پہلے اپنی اعتکاف کی جگہ میں بیٹھ جائے اور انتیس یا تیس رمضان کو(یعنی عید کا چاند دیکھنے کے بعد)بعد از مغرب اعتکاف سے نکلے، اور دوران اعتکاف آدمی بغیر کسی شرعی ضرورت کے(مثلا قضائے حاجت وغیرہ)اعتکاف کی جگہ سے نہ نکلے۔
مرد کے لیے سب سے افضل جگہ مسجد حرام ،پھر مسجد نبوی، اس کے بعد بیت المقدس ،اس کے بعد جامع مسجد، پھر دوسری مسجد۔اور عورت کے لیے اپنے گھر کی وہ جگہ جس کو مسجد یعنی نماز کے لیے مقرر کیا ہو اور اگر کوئی جگہ متعین نہ ہو تو کسی کونہ کو اس کے لیے مخصوص کر لیں اور عورت کا گھر میں اعتکاف سب سے افضل ہے۔
جب حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نما ز پڑھنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے میرے پیچھے نماز پڑھنے سے۔ یہ سن کر حضرت ام حمید رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ گھر کے ایک کونے میں ان کے لیے مسجد )یعنی نماز کی جگہ( بنائی جائے اور پھر آپ اپنی وفات تک یہیں نماز پڑھتی رہیں۔
{بخاری ج1 ص273-271 }
مزید یہ کہ مفسر قرآن ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ نے” وانتم عاکفون فی المساجد“ {البقرہ} اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم صرف مردوں کو ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔
شکوک و شبہات اور ان کا ازالہ:
بعض حضرات بخاری شریف کی دو احادیث پیش کر کے عورتوں کو گھروں سے نکال کر مسجد میں اعتکاف کرواتے ہیں:
1: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا
2: امہات المومنین نے اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمے لگائے۔
اگر یہ لوگ ضد سے ہٹ کر حدیث مبارکہ کا بغور مطالعہ کریں تو حقیقت واضح نظر آئے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد میں خیمے دیکھے تو تعجب سے سوال کیا کہ کس چیز نے ان {یعنی ازواج مطہرات } کو اس نیکی پر ابھارا۔
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ان خیموں کے اکھاڑنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم ارشاد فرمایا تو مسجد نبوی سے خیمے اکھاڑ دیئے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا اور پھر شوال میں اس کی قضا فرمائی۔
1: اگر عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا۔ ؟
2: خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم کیوں دیا۔؟
4: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعتکاف کو بھی ختم کیوں فرمایا۔ ؟
علامہ ابن حجر ؒشارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیۃؒ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیںاور مزید لکھتے ہیں:’’ عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے اور امام شافعیؒ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔ اتنی عام فہم حدیث کے باوجود عورت کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے۔ ؟نفس کی خواہش کی اتباع نہیں تو اور کیا ہے۔؟
اگر غور کیا جائے تو نماز ایک اہم عبادت ہے جو کہ فرض ہے اور کسی حال میں بھی معاف نہیں ہے اس کے لیے عورت کو اگر مسجد میں جانے کی اجازت نہیں تو اعتکاف تو فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ جس کے لیے تو اگر محلہ میں سے ایک آدمی بھی بیٹھ گیا تو سب کی طرف سے کافی ہو جا ئے گا اگر کوئی نہ بیٹھا تو تب سب ہی گناہ گار ہوں گے۔ اور عورت کے لیے مسجد سے زیادہ آسانی بھی گھر میں ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی صحیح فہم نصیب فرمائیں۔