سعید باپ کی سعادت مند بیٹی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سعید باپ کی سعادت مند بیٹی
الشیخ احمد جاد
ہمارے معاشرے میں گناہ کو آسان اور نیکی کو مشکل بنا دیا گیا ہے نکاح کو رسوم ورواج اور جان لیوا جہیز کی جکڑ بندیوں میں بھینچ دیا گیا ہے کہ غریب کے لیے بھی مصیبت اور امیر طبقہ بھی ذہنی کوفت میں مبتلا نظر آتا ہے کتنے نوجوان ایسے ہیں جو آسان نکاح نہ ہونے کے باعث زنا اور لواطت کے دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں اور ان گنت دوشیزائیں گھروں میں والدین کے سر پر بوجھ بنی بیٹھی ہیں کہ جن کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پا رہے اسلامی طریقہ اختیار کرنے سے ہی ان پریشانیوں سے چھٹکارا ممکن ہے۔ ذیل میں سید التابعین حضرت سعید بن مسیب کی بیٹی کے ایسے ہی نکاح کا واقعہ نقل کیا جارہا ہے جسے احمد جاد نے خمسون وصیۃ من وصایا الرسول صلی اللہ علیہ وسلم للنساء میں ذکر کیا ہے۔ ادار ہ
ابوبکر بن ابی داؤد فرماتے ہیں عبدالملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کے لیے سعید بن مسیب کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا لیکن سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے انکار کر دیا تھا ،جس کی پاداش میں عبد الملک ان کے خلاف مختلف سازشیں کرتا رہا یہاں تک کہ انہیں سردی کے دن سو کوڑے مارے اور ان پر پانی کا گھڑا انڈیلا اور ان کو اون کا جبہ پہنایا اس کے بعد راوی نے سند ذکر کرنے کے بعد ابن ابی وداعہ کا قول نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی مجالس میں بیٹھا کرتا تھا ، میں کچھ دن حاضر نہ ہو سکا ، جب میں آیا تو حضرت سعید نے پوچھا :آپ کہاں تھے ؟ میں نے عرض کیا ،میری بیوی فوت ہو گئی تھی اس کی مشغولیت کی بنا ء پر حاضر نہ ہو سکا۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا :آپ نے ہمیں اطلاع ہی نہ دی کہ ہم بھی اس کے جنازہ میں حاضر ہو جاتے ہیں اور کیا آپ نے کوئی دوسری عورت تلاش کی ہے ؟میں نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے ، میرے ساتھ کون شادی کروائے گاحالانکہ میں صرف چند دراہم کا مالک ہوں؟سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا :میں تیری شادی کرواؤں گا۔ میں نے عرض کیا :کیا آپ ایسا کریں گے ؟فرمایا:ہاں!اور پھر اللہ تعالی کی حمد و ثنا ء بیان کی درود سلام پڑھا اور چند دراہم کے بدلے )اپنی بیٹی سے (میری شادی کرادی ،میں وہاں سے اٹھا لیکن خوشی کی وجہ سے میری سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ کیا کروں ؟
میں اپنے گھر گیا ، چونکہ اس دن میرا روزہ تھا ،میں افطار کے لیے رات کا کھانا لایا جو روٹی اور زیتون کے تیل پر مشتمل تھا ،اچانک میرے دروازے پر دستک ہوئی ، میں نے پوچھا کون ؟جواب ملا :سعید!یہ سن کر میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے علاوہ ہر اس شخص کے بارے میں سوچا جس کا نام سعید تھاکیونکہ حضرت سعید بن مسیب کو چالیس سال ان کے گھر اور مسجد کے درمیان ہی دیکھا گیا تھا ،میں باہر نکلا توکیا دیکھتا ہوں کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کھڑے تھے ،میں نے گمان کیا کہ ان کے سامنے میری کوئی بات ظاہر ہوئی ہوگی اور شاید انکار کر دیں۔
میں نے عرض کیا :اے ابو محمد !آپ مجھے بلواتے میں حاضر ہو جاتا ،حضرت سعید رحمہ اللہ نے فرمایا ،نہیں آپ اس بات کے زیادہ حقدا رہیں کہ آپ کے پاس آیا جائے ،آپ ایک بے نکاح شخص تھے میں نے آپ کی شادی کروا دی تو یہ بات مجھے ناپسند معلوم ہوئی کہ آپ تنہا رات گزاریں لہٰذا آپ کی بیوی حاضر ہے ،،وہ ان کے پیچھے ان کی سیدھ میں کھڑی تھیں ،یہ کہہ کر سعید بن مسیب اپنی بیٹی کو چھوڑ کر چلے گئے……… وہ لڑکی شرم کی وجہ سے گر گئی ،میں نے دروازہ کو مضبوطی سے بند کیا ،پیالہ کو چراغ کے سائے میں رکھا تاکہ وہ اسے دیکھ نہ لے ،پھر میں چھت پر چڑھ گیا اور پڑوسیوں کو آواز دی ،وہ باہر آئے اور میری خیریت پوچھی ،میں نے ان کو گھر کا سارا ماجرا سنایا وہ اس کے پاس آگئے ،میری والدہ کو خبر پہنچی وہ بھی آگئیں اور مجھے کہا:تیرے لیے میرا چہرا دیکھنا حرام ہے اگر تو نے میرے تین دن تک اس کے سنگھارنے سے پہلے اس کو ہاتھ لگایا:میں تین دن تک رکا رہا ،پھر اس سے ملاقات کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت ،قرآن مجید کو سب سے زیادہ یاد رکھنے والی ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جاننے والی اور خاوند کے حقوق کو سب سے زیادہ پہچاننے والی تھی۔میں شادی کے ایک مہینہ بعد تک حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا پھر میں آیا تو وہ اپنے حلقہ میں بیٹھے تھے ،میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور مجلس برخاست ہونے تک مجھ سے کوئی بات نہ کی جب سب لوگ چلے گئے تو فرمایا:اس کا کیا حال ہے ؟ میں نے عرض کیا :اے ابو محمد !وہ خیریت سے ہیں اور اس حالت میں ہیں جسےدوست پسند اور دشمن نا پسند کرتا ہے ،حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا :اگر تجھے اس کی کوئی بات نا پسند لگے تو عصا استعمال کرنا جب میں گھر واپس آگیا تو انہوں نے میرے لیے بیس ہزار درہم بھیجے۔