گھریلو جھگڑے کیسے ختم ہوں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

گھریلو جھگڑے کیسے ختم ہوں؟

پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
ایک خاتون کا انوکھا انداز شکایت :
خلیفہ ثانی امیر المومنین سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ ایک خاتون آئی اور آکر کہنے لگی :
امیر المومنین !میرا خاوند بہت نیک ہے ،ساری رات تہجد پڑھتا رہتا ہے ،اور سارہ دن روزہ رکھتا ہے اور یہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔
عمر رضی اللہ عنہ بڑے حیران کہ خاتون کیا کہنے آئی ہے ؟اس نے پھر یہ ہی بات دہرائی کہ میرا خاوند بہت نیک ہے ساری رات تہجد میں گزاردیتا ہے اور سارہ دن روزہ رکھتا ہے اس پر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے :اے امیرالمومنین !اس نے اپنے خاوند کی بڑے اچھے انداز میں شکایت کی ہے۔
کیسے شکایت کی ؟
امیر المومنین !جب وہ ساری رات تہجد پڑھتا رہے گا اور سارہ دن روزہ رکھے گا تو پھر بیوی کو وقت کب دے گا ؟تو یہ کہنے آئی ہے کہ میرا خاوند نیک تو ہے مگر مجھے وقت نہیں دیتا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے خاوند کو بلایا تو اس نے کہا ہاں میں مجاہدہ کرتا ہوں ،یہ کرتا ہوں ،وہ کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ان کا فیصلہ کریں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان صاحب سے کہا کہ دیکھو !شرعاً تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارو ،ہنسی خوشی اس کے ساتھ رہو اور کم از کم ہر تین دن کے بعد اپنی بیوی کے قریب جاؤ۔ خیر وہ میاں بیوی تو چلے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا !
آپ نے یہ شرط کیوں لگائی کہ ہر تین دن کے بعد بیوی سے ملاپ کرو ؟
انہوں نے کہا کہ دیکھیں!اللہ رب العزت نے مرد کو زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت دی۔ چنانچہ اگرچار شادیاں بھی کسی کی ہوں تو تین دن کے بعد پھر بیوی کا دن آتا ہے۔ تو میں نے اسے کہا کہ تم زیادہ سے زیادہ تین دن عبادت کر سکتے ہو تین دن کے بعد ایک رات تمہاری بیوی کا حق ہے ،تمہیں گزارنا پڑے گا تو دیکھو شریعت انسان کو کیا خوبصورت باتیں بتاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواج مطہرات سے رویہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کےساتھ بہت محبت پیار سے رہتے تھے ان سے ان کی دل لگی کی باتیں کرتے تھے آپ سوچیئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جہنم کا کیا نظارہ ہو گا ،جسے آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ رب العزت کے خوف سے اور خشیت کا کیا عالم ہو گا؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،لوگو میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔وہ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے جہنم کو آنکھوں سے دیکھا جو اللہ کی عظمت سے واقف تھے ان کے دل پر کس قدر اللہ کی عظمت کا معاملہ رہتا ہو گا ؟ لیکن وہ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی بیوی کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان سے دل لگی کی باتیں کرتے تھے احادیث میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازاوج مطہرات سے دل لگی اور ان کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔
ایک میدان جنگ سے واپسی کا وقت تھا اس وقت عورتیں اپنی ضرورت سےفارغ ہونے کے لیے اپنے خاوندوں کے ساتھ باہر نکل جاتی تھیں ،ٹوائلٹ تو بنے نہیں ہوتے تھےنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ گئےرات کا وقت تھا کھلا میدان تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ کو فرماتے ہیں حمیراآؤ! دوڑ لگائیں۔ اب دیکھیں !کتنی عجیب بات لگتی ہےچنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ کے ساتھ دوڑنے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جیتنے دیا جب وہ جیت گئیں تو بہت خوش ہوگئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اندازہ لگائیے کہ بیوی کو خوش کرنے کے لیے اگر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اس دوڑ میں تھوڑی دیر کے لیے پیچھے رہ سکتے تھے تو کیا عام خاوند اپنی بیوی کے لیے خاموش نہیں ہو سکتا ؟کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ پھر اسی قسم کی صورت حال ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ دوڑیں ؟پھر جب دوڑ لگائی تو اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور مسکرا کے فرمایا :حمیرا! تلک وتلک پہلے تم جیت گئی تھی اب میں جیت گیا میں نے تمہارا حساب برابر کر دیا تو دیکھو !بیوی کی دل لگی کے لیے ایسی باتیں ہیں۔
ایک مرتبہ عید کا دن تھا باہر کچھ حبشی نو جوان کھیل رہے تھے،دوڑ رہے تھے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ عائشہ !کیا آپ یہ کھیل دیکھنا چاہو گی ؟فرمایا : جی دیکھنا چاہوں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہو گئے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکو اپنی اوٹ میں لے لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تھوڑی رکھی اور اس طرح وہ کھیل دیکھنے لگیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر بعد پوچھتے کہ تم دیکھ رہی ہو کہ بس کریں !فرمایا :نہیں ابھی اور دیکھنا چاہتی ہوں دو تین مرتبہ ایسا ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہیں یہ کھیل بہت اچھا لگا۔ اب دیکھئے !کہ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم) پردے کی آیات نازل ہونے سے پہلے( یہ کھیل خود اپنی بیوی کو دکھا رہے ہیں۔
چنانچہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوعورتوں کی کہانی سنائی کہ کنویں پر پانی بھرنے کے لیے نو عورتیں اکٹھی ہوئیں۔ ایک نے کہا کہ تم بالکل آج کھری کھری بات سنا دو !تو ایک نے کہا کہ میرا خاوند ایسا ہے ،ایسا ہے۔ دوسری نے کہا ،میرا خاوند ایسا ہے۔۔۔ تیسری نے کہا ایسا ہے۔۔۔اب دیکھو!اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے ان عورتوں کی کہانی سنا رہے ہیں اور فرمایا کہ ان میں سے ایک عورت ام زرع تھی۔اس نے ابو زرع کے بارے میں کہا کہ وہ مجھے اتنا محبت سے رکھتا ہے ،وہ مجھے اتنا کھلاتا ہے ،اس نے مجھے سونے سے لاد دیا ،اس نے مجھے اتنی محبت دی یہ باتیں سنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،عائشہ !ابو زرع ،ام زرع سے جتنی محبت کرتا تھا میں اس سے زیادہ تم سے محبت کرتا ہوں۔ اب بتائیں کہ خاوند اگر ایسی بات بیوی سے کرے گا تو اس کی زندگی میں تو خوشیاں آجائیں گی اس کو تو اپنا گھر بستا نظر آجائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ایک دفعہ جا رہی تھی۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہادوسرے اونٹ پر سوار تھیں) اللہ کی شان (وہ اونٹ بھاگ گیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ وہ اونٹ بھاگ رہا ہے تو فرمایا ”واعرو ساہ “) ہائے میری دلہن (اب اندازہ لگائیے کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ شادی کا دن نہیں تھا سالوں گزر گئے تھے شادی کو ،اس وقت جب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اونٹ بھاگاتیزی کے ساتھ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”واعرو ساہ “ہائے میری دلہن۔ تو جب خاوند اس طرح بیوی کے ساتھ پیار کرے تو بیوی کیوں نہیں گھر کو آباد کرے گی۔
انجشہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں وہ خواتین کے اونٹوں کی مہار پکڑ کے چل رہے تھے تو انہوں نے ذرا تیز چلنا شروع کر دیا ان کے پیچھے اونٹوں نے بھی بھاگنا شروع کر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کے اونٹ تیزی سے بھاگ رہے ہیں تو انجشہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ اونٹوں کو آہستہ چلاؤ!اس کے اوپر ہمارے آبگینے سوار ہیں کہ جیسے شیشے کی بنی ہوئی چیز کو ذرا نازک ہونے کی وجہ سے پیار سے ہینڈل کرناچاہیئے تو اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ استعمال کیا۔ آپ سوچئے !جو اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کو تیز چلا کر بھی ان کو تکلیف نہیں دینا چاہتے وہ اپنی بیویوں کو کتنا خوش رکھتے ہوں گے۔
چنانچہ ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی بیوی ان کے بارے میں فرمایا کرتی تھیں کہ انہوں نے پوری زندگی کبھی مجھ سے لہجہ بدل کر ہی بات نہیں کی۔کیا حسن معاشرت ہے !کیا حسن اخلاق ہے !فرماتی ہیں ناراض ہونا ،غصے ہونا تو بڑی دور کی بات ہے۔ انہوں نے کبھی میرے ساتھ لہجہ بدل کر بات نہیں کی۔ ہمیشہ محبت پیار کے لہجے میں بات کرتے تھے۔
شادی کے پہلے اور بعد نوجوانوں کی سوچ میں فرق :
یہ نوجوان جب کنوارے ہوتے ہیں اس وقت ان کی سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے کہ شادی ہو جائے،بیوی مل جائے۔ ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں کہتے ہیں )بیو ی کے بغیر کوئی زندگی ہےNo life With Out Wifeاس وقت ان کو بیوی کا اتنا انتظار ہوتا ہےہر وقت وہی سوچیں،ہر وقت وہی باتیں ،وہی نوجوانوں کا ہنسی مذاق اس وقت سمجھتے ہیں پتہ نہیں یہ کیا نعمت ہے!اللہ مجھے جلدی دے۔
چنانچہ ایک نوجوان کہنے لگا کہ مجھے موت سے محبت ہی اسی لیے ہے کہ وہ آتی ہے ،آتا نہیں ہے۔ تو جب کنوارے تھے تو پھر اتنا شوق کہ ہائے اللہ مجھے یہی نعمت دے دے اور جب وہ بیوی گھر میں آجاتی ہے تو اب ان کو سختیاں یاد آجاتی ہیں اس وقت بھی محبت پیار سے رہیں۔
بعض شوہر دل جلاتے ہیں :
اور آج کل کے خاوند تو دل جلاتے ہیں شادی ہوئی اور بس۔کئی لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جو خود فسق وفجور میں پڑ جاتے ہیں ،غیر عورتوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی کے جھگڑے کی 75 فی صد جو وجوہات ہیں ان میں سے ایک وجہ کہ شادی کے بعد نوجوان مرد غیر لڑکیوں کے ساتھ Envolve )منسلک (ہو جاتے ہیں اور اپنی بیوی کو Ignoreنظر انداز کر دیتے ہیں۔ گھر وقت نہیں دیتے ،گھر آتے ہیں تو ان کو نیند آئی ہوئی ہوتی ہے ،بیوی سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی ،وہ بات بھی کرتی ہے تو وہ دو لفظوں میں جواب دے دیتے ہیں۔ کہیں بیٹھے ہوتے ہیں ،بیوی فون کرتی ہے ..اچھا تم مجھے کام نہیں کرنے دے رہی اور کام کیا ہوتے ہیں ،بیٹھے میسجز کر رہے ہوتے ہیں یہ کس قدر ظلم ہے!جس کو یہ نکاح کے بعد اپنے گھر لائے۔ جن محبتوں کی وہ حقدار تھی اب انہوں نے وہ محبتیں غیر لڑکی کے لیے استعمال کرنی شروع کردیں جب جی بھرا ہوا ہو تو کسی کے سامنے بریانی بھی رکھ دو تو اس کا جی نہیں چاہتا بریانی کو ہاتھ لگانے کو۔ ان کا یہ ہی حال ہوتا ہے کہ باہر فون کر کے ،باتیں کر کے I miss you )میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکوں گا(کہہ کر اپنی محبتوں کے جذبے پورے کر کے آتے ہیں گھر آتے ہیں تو بیوی بریانی کی طرح بھی ہو تو بھی ان کو دیکھنے کو دل نہیں کرتا یہ ان جھگڑوں کی بنیادی وجہ سے نوجوان لڑکوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو دیکھیں گھر میں آکر ان کا دل نہ دکھائیں بلکہ درگزر سے کام لیں۔
بیوی کی ناز برداری بھی ہونی چاہیئے :
شریعت نے کہا ہے کہ بیوی کا چونکہ خاوند کے ساتھ پیار کا تعلق ہے ، محبت کا تعلق ہے اب اس محبت میں کئی مرتبہ بیوی میں ناز بھی آجاتا ہے تواعتدال کے ساتھ بیوی کے ناز کو بھی برداشت کر لینا چاہیئے اور اس پر صبر کرنا چاہیئے چنانچہ اللہ کے پیارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کوئی بات ہو گئی ابھی یہ بات چل رہی تھی کہ ادھر سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ابو بکر !تم اچھے وقت پر آئے ،آؤ ! ہم تمہیں کہتے ہیں کہ تم ہمارے درمیان ایک بات کا فیصلہ کرو۔ تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے جی۔ تو فرمایا کہ کون بات کرے گا ؟تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بات کرتا ہوں ،میں بتاتا ہوں کے کیا ہو ا؟تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ذرا غصہ میں تھیں ،کہنے لگیں کے ہاں ٹھیک ہے ،آپ ہی بات کریں مگر ٹھیک ٹھیک بات کریں۔
اب جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا کہ بات آپ فرمائیں لیکن ٹھیک ٹھیک بات کریں تو انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ایک زور کا تھپڑ لگایا کہنے لگے: تجھے تیری ماں روئے ،کیا اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک بات نہیں کریں گے؟اب جب تھپڑ لگا ،تو بیٹی تھیں جلدی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چھپ گئیں کہ دوسرا نہ پڑ جائے ،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر!ہم نے تو آپ کو فیصلہ کے لیے بلایا تھا ، یہ تو نہیں کہا تھا کہ مارنا شروع کر دیں آپ جائیں ! ہم اپنا معاملہ خود سمیٹ لیں گے چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے۔ جیسے ہی وہ گئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے سے دوسری طرف آئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر دیکھا اور فرمایا : دیکھا! دوسرے تھپڑ سے میں نے ہی تمہیں بچایا ہے نا۔اب اتنی سی بات پر پھر محبت پیار کی زندگی تو معلوم ہوا کے بیویوں کے ساتھ تحمل مزاجی کے ساتھ رہنا چاہیئے اور اعتدال کے ساتھ ان کے ناز اور نخرے کو بھی برداشت کر لینا چاہیئے۔
ساس کے سوچنے کا عجیب انداز:
اب ساس کو یہ چیز بری لگتی ہے ،مگر وہ اپنی زندگی پر نظر دوڑائے کہ جب وہ بہو تھی تو وہ کتنے ناز کیا کرتی تھی؟اب چونکہ بوڑھی ہوگئی اس لیے اس کو یہ چیزیں اچھی نہیں لگتی پھر وہ بیٹے کو سمجھاتی رہتی ہے کہ کیا تمہاری بیوی بنی رہتی ہے !کیا تم اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھے رہتے ہو !اصل میں وہ نہیں بول رہی ہوتی ،بیچاری کا بڑھاپا بول رہا ہوتا ہے ،تو میں سمجھتا ہوں کہ ساس بھی بیچاری بے قصور ہی ہوتی ہے وہ خود نہیں بول رہی ہوتی ،اس کا بڑھاپا بول رہا ہوتا ہے۔اگر وہ اس عمر میں ہوئی جس عمر میں اب یہ بچے اور بچیاں ہیں تو اس کی سوچ کی فریکونسی بھی مختلف ہوتی۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا اپنی ازواج سے رویہ :
حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرنی پڑی تو بیویوں کے اندر ایک دوسرے کےساتھ آپس میں معاملہ چلتا ہی ہے ،کبھی یہ ناراض کبھی وہ ناراض۔ فرماتے ہیں !کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ میں ایک گھر جاتا تو دروازے کو کنڈی لگی ہوئی ہوتی ،وہ کھولتی ہی نہیں تھی تو میں وہیں دروازے پر مصلی بچھا کر نماز پڑھ لیتا اور واپس آجاتا تھا یہ حکیم الامت رحمۃاللہ علیہ ہیں جن کو اللہ نے علم کا سمندر بنایا۔
فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری بڑی گھر والی کہیں جانے لگی اور مجھے کہہ گئیں کہ گھر میں مرغیاں پالی ہوئی ہیں تو ان کو اپنے وقت پر کھانا ڈال دیجئے گا میں نے کہا بہت اچھا فرماتے ہیں کہ مجھے بات ہی بھول گئی۔ اب میں تفسیر بیان القران لکھنے جو بیٹھا تو کوئی مضمون وارد نہیں ہو رہا ،بڑی اللہ سے توبہ کی بڑی دعائیں مانگیں مگر طبیعت میں کوئی انشراح ہی نہیں ہو رہا ،آمد کا سلسلہ بالکل بند تھا۔
کافی دیر کے بعد فرمانے لگے کہ ہو نہ ہو ،کوئی مجھے سے ایسی کوتاہی ہوئی گناہ ہوا جس کی وجہ سے جو روز مجھ پر علم آتا تھا ،اللہ نے مجھے اس معرفت سے آج محروم کردیا کہنے لگے میں بیٹھ کر سوچنے لگا تو اچانک مجھے خیال آیا کہ اوہو!میں نے تو مرغیوں کو آج دانہ بھی نہیں ڈالا۔فرماتے ہیں : میں اٹھ کر فوراً گھر گیا ،مرغیاں بھوکی پیاسی تھیں،میں نے دانہ ڈالا ،ان کو پانی دیا۔ جب مرغیوں نے وہ پانی پیا اور دانہ کھایا ،اللہ نے مضامین پھر وارد کرنے شروع کر دیے اور پھر میں نے آکے اللہ کے قرآن کی تفسیر لکھی۔ اگر مرغیوں کو تکلیف پہنچتے تو اللہ تعالیٰ اپنی معرفت کے علم کو روک لیتے ہیں جو اپنی بیوی کا دل دکھائے گا وہ اللہ کی معرفت کیسے پائے گا ؟تو دیندار لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے۔
بیوی کو معاف کرنے پر ایک شخص کی بخشش:
حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کی بیوی سے کوئی غلطی کوتاہی ہوئی اب وہ اسے سزا دیتا تو وہ حق بجانب تھا مگر اس نے اللہ کی بندی سمجھ کر معاف کر دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد خاوند کی وفات ہو ئی کسی نے خواب میں پوچھا : سناؤ!کیا ہوا؟کہنے لگا :اللہ کے حضور پیشی ہوئی ،فرمایا کے تو نے اس موقع پر اپنی بیوی کو میری بندی سمجھ کر معاف کر دیا تھا ،آؤ!آج میں تمہیں اپنا بندہ سمجھ کر معاف کر دیتا ہوں۔ اللہ اکبر کبیرا۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اللہ رب العزت اس بات کو کتنا پسند کرتے ہیں۔
ابو الحسن خرقانی رحمہ اللہ کی کرامت:
چنانچہ ابو الحسن خرقانی رحمۃاللہ علیہ شیر کی سواری کر کے آرہے تھے کسی نے پوچھا :حضرت !آپ کو یہ کرامت کیسے ملی کہ شیر پر سوار ہوتے ہیں ؟ فرمانے لگے : گھر میں میری بیوی تیز مزاج کی ہے ،میں اس کی تلخ مزاجی پر صبر کر لیتا ہوں تو اللہ کا شیر میرے بوجھ کو اٹھانے پر صبر کر لیتا ہے۔
حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمہ اللہ کا مقام:
حضرت مرزامظہر جان جاناں رحمۃاللہ علیہ بہت ہی زیادہ نازک مزاج تھے ان کے تو واقعات بہت ہی زیادہ ہیں ،مگر روحانی مقام اتنا تھا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے تھے :اللہ رب العزت نے مجھے ایسا کشف دیا کہ پوری دنیا کو اس طرح دیکھتا ہوں جیسے ہتھیلی پر پڑے ہوئے کسی دانے کو دیکھتا ہوں۔ یہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے اور فرماتے ہیں کہ اس کشف کے حاصل ہونے کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اس وقت پوری دنیا میں مظہر جان جاناں جیسا دوسرا کوئی بزرگ موجود نہیں۔ تو جن کے بارے میں ایک محدث ،مفسر یہ کہہ رہا ہو ،اس مرزا مظہر جان جاناں رحمۃاللہ علیہ کو جو یہ مقام ملا ،اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی بیوی ذرا تیز زبان کی تھی۔بات بات پر سخت لفظ بول دیتی تھی ،توانہوں نے اپنی بیوی کے اس ایذا ء پر صبر کیااللہ نے ان کو ولایت کا اتنا اونچا مقام عطا فرمایا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :یغلبن کریما ویغلبھن لئیم کریم لوگوں پر یہ غالب آجاتی ہے اور کمینے لوگ ان پر غالب آجاتےہیں
فاحب ان اکون کریما مغلوبا ولا احب ان اکون لئیما غالبا۔
)روح المعانی ج5ص14(
)میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں کریم بنوں اگر چہ مغلوب ہو جاؤں لیکن یہ پسند نہیں کرتا کہ بد اخلاق بنوں اور ان پر غالب رہوں (
تو کریمی کو اور نرمی کو اتنا پسند فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں کریم بن کر رہوں اگرچہ میری بیوی مجھ پر غالب ہی کیوں نہ آجائے۔ یہ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں۔