انوکھے چور

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انوکھے چور
حافظ محسن شریف، شیخوپورہ
” کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ“ لکڑی کے بنے خوبصورت دروازے پر اچانک دستک ہوئی۔ہم سب گھر کے صحن میں بیٹھے واپڈا والوں کو کوس رہے تھے کیونکہ صبح چھ بجے کی لائٹ گئی تھی اور دوپہر کے تین بجنے والے تھے لیکن ابھی تک لائٹ آنے کا امکان نہیں تھا۔میں اپنے ہاتھ میں پکڑے، ہینڈ فین سے سب کو ہوا دینے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ پورے ایک گھنٹے سے صرف میں ہی ہوا دیے جا رہا تھا۔ہوا دے دے کر میری مت ماری گئی تھی۔ کسی اور کو کہہ بھی نہیں سکتا تھاکہ برائے مہربانی اب آپ ذرا زحمت کر لیں،کیونکہ سب سے چھوٹا میں تھااور پھر بڑے بھا ئی کی موجودگی میں میرا کسی اور کو کہنا بھائی کے نزدیک بے ادبی تھا۔ بس اسی ڈر کی وجہ سے میں ہاتھ والا پنکھا ہاتھ میں پکڑ کر بے ڈھنگے انداز میں گھماتا جارہا تھا۔
دروازے پر دستک مزید تیز ہوتی جا رہی تھی۔ ایک تو لائٹ نہیں تھی اور مکھیوں نے ہمارا جینا محال کر رکھا تھااوپر سے دروازے کی دستک کی آواز جو انتہائی بے سُری تھی اور میرے دماغ میں ایک دھماکے کی طرح لگ رہی تھی۔ ”احمد بیٹا دیکھنا ذرا کون ہے ؟“کمرے میں بیٹھی میری دادی اماں کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ ”پتا نہیں کون بدتمیز ہے۔ پہلے تو اس وقت کبھی کوئی نہیں آیا۔“میں بڑبڑاتے ہوئے دروازے کی جانب چل دیا۔دروازہ کھولا تو سامنے تین خوبصورت نوجوان لڑکیاں ،جن کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا ،ہمارے گھر کے باہر کھڑے تھے۔
”جی آپ کون ؟“ میں نے ان کا بغور جائزہ لیتے ہوئے خشک لہجے میں پوچھا”بیٹا ہم مسافر ہیں،فیصل آباد جانا تھا، ملتان سے آئے ہیں۔گرمی کی وجہ سے نڈھال ہیں اور سفر کی وجہ سے بہت زیادہ تھک چکے ہیں۔ کیا ہم تھوڑی دیر آپ کے گھر میں ٹھہر سکتے ہیں؟“ بوڑھے نے رحمدلانہ نظروں سے مجھے دیکھ کر کہا”لیکن ہم تو آپ کو جانتے نہیں ،ہمارے لیے آپ اجنبی ہیں۔ ہم آپ کو کیسے اپنے گھر میں ٹھہر ا لیں۔“
ابھی میں نے اتناہی کہا تھا کہ پیچھے سے بھا ئی آگئے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے ”کیوں جناب کون ہیں یہ لوگ؟“ ”مجھے کیا پتہ؟ آپ خود ان سے پوچھ لیں۔“ میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ پھر بوڑھے آدمی نے وہی پہلے والی بات بھائی کے سامنے دہرا دی۔ ”ٹھیک ہے انکل، آپ اندر آجائیں ،پر یاد رکھیں صبح سے لائٹ نہیں ہے۔“ بھائی نے گویا خبر دار کرتے ہوئے کہا۔ ”کوئی بات نہیں ،پتر اللہ تمہیں خوش رکھے۔“یہ کہتے ہوئے بوڑھا آدمی اور اس کے ساتھ تین نو جوان لڑکیاں جو بوڑھے آدمی کے بقول اس کی بیٹیاں تھیں۔ اندر داخل ہو گئے۔ ”ارے ارے یہ کن کو منہ اٹھائے اندر لا رہے ہو؟“ دادی اماں نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بھائی سے پوچھا۔”دادی اماں یہ مسافر ہیں، بے چارے سفر کی وجہ سے تھکے ہوئےہیں۔ذرا سانس لینے ہمارے پاس رکے ہیں، تھوڑی دیر بعد چلے جائیں گے۔“ بھائی نے تفصیل سنائی۔
”انکل یہ آپ کے تھیلے میں کوئی بم شم تو نہیں؟“ ہماری چھوٹی بہن نے بابا جی کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سرخ رنگ کے تھیلے کے دیکھ کر کہا۔ یہ سنتے ہی میری ہنسی چھوٹ گئی۔ ”چپ رہو کمبختو ، کسی اجنبی سے اس طرح بد تمیزی کرتے ہیں؟“ یہ کہتے ہوئے بڑے بھیا نے ایک ایک تھپڑ ہمیں رسید کیا اور باباجی سے معذرت کرنے لگے۔ ”کوئی بات نہیں بیٹا، بچے ہیں۔“ بابا جی نے چار پائی پر بیٹھتے ہوئے کہا ،تینوں لڑکیاں بھی بیٹھ گئیں۔ پھر وہ بابا جی ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے ”میرے ایک بیٹے کی کل شادی ہے، ہم اس کے سسرال سے آرہے ہیں۔انہوں نے ہمیں دیسی گھی سے بنے ہوئے لڈو دیے ہیں۔ آپ چاہیں تو میری بیٹے کی شادی کی خوشی میں منہ میٹھا کر لیں۔“ ”ہاں ،ہاں !کیوں نہیں بھائی صاحب آپ کا بیٹا ہمارا بھی بیٹا لگتا ہے۔“ دادی اماں اپنی آنکھوں سے عینک اتارتے ہوئے بولیں۔ ”اور میرے بھائی جیسا ہے انکل!“بڑے بھیا نے چپ رہنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ سن کر بوڑھا آدمی بہت خوش ہوا اور سرخ تھیلے سے لڈوؤں کا ایک کلو والا ڈبہ نکال کر کھولنے لگا۔ ڈبہ کھلتے ہی دیسی گھی کی خوشبو ہوا میں مہکنے لگی۔ ”بھائی صاحب! واقعی دیسی گھی کے لڈو لگتے ہیں۔“دادی اماں نے دیسی گھی کی خوشبو سونگھ کر کہا۔ ”ہاں ہاں کیوں نہیں، بالکل دیسی گھی کے بنے ہیں آپ سب کھا کے دیکھیں مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔“ پھر اس نے ہم سب کو ایک ایک لڈودے دیا سب مزے لے لے کر کھاتے رہے۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کو چکر آنے لگے۔ مجھے تو لڈو کھاتے ہی نیند آگئی اور ایسی نیند آئی جیسے میں برسوں سے کبھی سویا ہی نہیں تھا۔ بہر حال ہم سب لڈو کھا کر نیند کی آغوش میں جا چکے تھے اور پھر جب پورے آٹھ گھنٹے بعد سب کی آنکھ کھلی تو ہمارے گھر کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔سارے دراز اور ٹرنک کھلے پڑے تھے۔ بھیا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیکھا تو دراز سے اس کے تین تولے کے زیورات غائب تھے۔ سیف الماری سے سارے قیمتی کپڑے بھی غائب تھے۔ دادی اماں اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر دیکھ رہی تھیں ،بوڑھا اور اس کے ساتھ تین لڑکیاں دادی اماں کے کانوں سے سونے کی بالیاں بھی اتار کر لے گئے تھے،پھر تھوڑی ہی دیر میں سب سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس وقت کو کوس رہے تھے کہ جب سب نے لڈو کھائے تھے اور ساتھ ہی بڑے بھیا کو جھڑکیاں پڑرہی تھیں کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ،تم کیوں ان کو اندر لے کر آئے تھے؟ بہت تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ میرا دوست مجھے جب یہ سارا واقعہ سنا رہا تھا تو میں حیرت میں ڈوبا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے انوکھے چور دنیا میں بستے ہیں۔ بہر حال اس واقعہ سے یہ سبق تو مل گیا کہ آئندہ کبھی بھی کسی اجنبی کو اپنے گھر میں نہ آنے دیا جائے اور نہ ہی کسی اجنبی سے کوئی بھی چیز لے کر کھانی چاہیئے خصوصا ً خواتین کو اس معاملے میں بہت احتیاط کرنی چاہیئے کیونکہ دن کےوقت وہ گھر پر اکیلی ہوتی ہیں۔