تواضع کی حقیقت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تواضع کی حقیقت
اہلیہ مولانا محمد الیا س گھمن
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تواضع للہ رفعہ اللہ
(رواہ الترمذی)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کےلئے تواضع اختیا ر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بلندی سے نوازتا ہےہیں۔تواضع وانکساری یہ نبیوںولیوں کی نشانی ہے اگر انسان کے اندر تواضع نہ ہوتو انسان کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے جس طرح نمرود فرعون ان کے اندر عاجزی کی صفت نہیں تھی اس لئے فرعون نے تکبر میں خدائی دعویٰ کیا۔ جب انسان میں کبر ہوگا دل میں اپنی بڑائی ہوگی اور یہ تکبر اور بڑائی تمام باطنی گناہوں کی جڑ ہے تو انسان سے گناہ صادر ہوں گے۔
رب کی پہلی نافرمانی ……تکبر:
اس تکبر کی بناء پر سب سے پہلے شیطان نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس پہلے نافرمانی کا تصور بھی نہیں تھا اسے آدم علیہ السلام کے آگے سجدے کا حکم ہوا تو اس نے انکار کیا اور کہا أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍاس نے کہا آگ مٹی سے افضل ہےمیں کیوں کر سجدہ کروں ؟اس نافرمانی کی بنیاد تکبر اور بڑائی تھی اس لئے اللہ نے اس کو جنت سے نکال دیا تومعلوم ہوا تمام گناہوں کی جڑ یہ تکبر ہے جس میں تکبر ہوگا اس سے گناہ صادر ہوں گے۔
انسان کی اصل کیا ہے ؟
عام طور پر جب بڑائی ہوتو اپنی بڑائی جتلائی جاتی ہے تو جانتا نہیں میں کون ہوں ایک بزرگ نے اس کا جواب دیا میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں تو کون ہے دیکھ جب ماں کے رحم آیا تو ناپاک ،نجس اور گندا منی کا ایک قطرہ تھا اگر کپڑے پر لگ جائے تو اس کو دھونا پڑتا ہے باپ کی پشت سے نکلا غسل کر نا پڑا پھر رحم میں گوشت کا لوتھڑا بنا وہاں خوراک تیری ناپاک خون رہی جب دنیامیں ساتھ اتنی غلاظت لے کے آیا دیکھ جب مر جائے گا۔ مٹی میں کیڑوں کی خوراک بن جائے گاوہی پیدا ہونے اور مرنے کی بیج زندگی جس میں تو ں اپنے آپ کو بڑا پاک صاف خیال کرتا ہے حالانکہ اب بھی تیرے اندر تین سیر نجاست بھری ہوئی ہے اوراکڑتا یوں پھرتا ہے میں کون ہوں ؟ بہر حال تکبر سے غصہ پیدا ہوتا ہے تکبر سے حسدپیدا ہوتاہےتکبر سے بغض عناد پیدا ہوتاہےجب تک دل میں تواضع نہیں ہوگی ان گناہوں سے نجات نہیں۔
تواضع کیا ہے؟
آدمی یہ کہےمیں کم درجے کا ہوں یا آج کل جس طرح کہتے اور لکھتے ہیں بندہ ناچیز ،بندہ ناکارہ ،خطاکار ،گناہگار اور سمجھتے ہیں ہم نے تواضع اختیار کر لی اس طرح تواضع حاصل نہیں ہوتی بلکہ اپنے آپ کو کمتر سمجھنا یہ تواضع ہے مثلاًیہ سمجھے میں جتنے نیک کام کر رہا ہوں یہ میر ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کی مد دسے کر رہا ہوں۔
یہ ہے تواضع کی حقیقت اب جب یہ والی تواضع حاصل ہوگئی تو زبان سے ناکارہ چیز کہونہ کہو کوئی فرق نہیں تو جو کوئی تواضع کے مقام کو حاصل کرلیتا ہے اللہ اس کو بلند کردیتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر کسی کو اپنے علم پر ناز ہوتو سن لو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم کسی کو عطاءنہیں ہوا حق تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہیں وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ یعنی اگر ہم چاہیں تو وہ تمام علوم جوآپ کو دیے ہیں دفعۃً سلب کرلیںثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا یعنی پھر کوئی آپ کا کا ساز نہیں ہوسکتادیکھئے کتنا سخت خطاب ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ گفتگو ہے تو ہم لوگوں کا کیا کہنا ہمیں اپنے علم عرفان پر تکبر نہیں کرنا چاہئے۔
تکبر تین چیزوں پر ہوتا ہے :
اگر تکبر کریں بھی تو تین چیزوں میں تکبر ہوتاہے: مال، جمال اورکمال اگر کسی ڈاکو یا چور لٹیرے وغیرہ کا دا ؤ لگ جائےتو وہ مال لے اڑے گا مال کی بڑائی تو گئی۔ اب اگر بڑا بخار ہوجائے تو ہفتے میں ایسی شکل آتی ہے کہ خود بھی دیکھنے کو دل نہیں کرتا بخار جمال بھی لے اڑااور رہا کمال تو کمال کا مدار دماغ پر ہے اگر دماغ خراب ہوجائے تو کمال گیا یہ بڑائی عقل کے خلاف ہےبڑائی اس میں جس سے زیادہ کسی دوسرے میں بڑائی نہ ہو اگر ایسا نہیں تو پھر بڑائی عقل کے خلاف ہے اور بڑائی بندہ اس چیز میں کرے جس کے سلب کا اندیشہ نہ ہو اور انسان کی ہر چیز کے سلب ہوجانے کا اندیشہ ہےاس بڑائی کا کیا فائدہ اور بعض کو تو دین کی بڑائی کابڑا زعم ہے ہوتا ہے علمی اور عملی آ پ دیکھ سکتے ہیں موجودہ دور میں قرآن حدیث کا ترجمہ دیکھا کچھ تھوڑی بہت عربی آگئی بس جی مجتہد بن گئے بس خود ہی مسئلے مسائل کا حل نکال رہے ہیں ہر بڑا چھوٹا مرد وعورت مجتہد بن گئے۔
دین پر بے دینوں کی ستم ظریفی:
محترمہ فرحت ہاشمی کو لیجیے ان کا دعوی ہے کہ وہ سب سے بڑی مجتہدہ ہیں اللہ معاف فرمائے ایک آدمی نے شیخ سعدی کی گلستان کا ترجمہ دیکھا اور اجتہاد کیا وہ اس طرح کہ اتفاقاً ان کو ایک دفعہ ان کے دوست راستے میں کچھ لوگوں سے مار کھاتے ہوئے مل گئے وہ بھی ہاتھ پاؤں چلا رہے تھے اپنے دفاع کے لئے اس آدمی نے جا کر ہاتھ پکڑ لئے اس طرح جو بچاؤ تھوڑا بہت ہاتھوں سے ہور ہاتھا وہ بھی گیا اور دوست کو خوب مارپڑی بعد میں دوست نے کہا کہ یہ تم کیا حرکت کی ؟ کہنے لگا شیخ سعدی فرمایا کرتے تھے۔
دوست آں باشد کہ گیر دست دوست
در پریشان حالی ودرماندگی
کہ اپنے دوست کا پریشان حالی اور درماندگی میں ہاتھ پکڑ لینا اس لئے میں نے تمہارے ہاتھ پکڑ لئے ایسے اجتہاد کرکے لو گوں نے دین کی درگت بنائی ہوئی ہے
دل بے قرار کو قرار آگیا :
تواضع کے ضمن ایک واقعہ لکھا ہے کہ سیّد احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ بڑے اولیاء اللہ میں سے گزرے ہیں۔ ان کو ساری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر حاضری کی تمنا رہی تھی پھر جب حج کی سعادت نصیب ہوئی حج کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے روضہ مبارک پر حاضری ہوئی تو بے ساختہ عربی کے اشعار پڑھے۔
فی حالۃ العبد روحی کنت ارسلھا
تقبل الارض عنی وھی نائبتی
وھذادولۃ الاشباح قد حضرت
فامد ویمینک کی تخطیبما شفتی
پہلے حاضری کے بعد سلام عرض کیا"السلام علیک یا رسول اللہ یا جدی " جواب آیا "وعلیک السلام یا ابنی "پریشان اور مضطرب ہوئے اور عرض کیا یا حضور دل بے قرارلے کر اب حاضر ہوا ہوں صرف سلام کے جواب میں مجھے تسلی اور قرار نہیں آئے گا جب آپ سے دور تھا روضہ اقدس پر روح کو بھیجا کرتا تھا وہ آکر میری نائب اور قائم مقام بن کر زمین کا بوسہ لیا کرتی تھی آج جب جسمانی طور پر حاضر ہوا ہوں تو آپ مجھ پر شفقت فرماتے ہوئے دست مبارک دراز فرمائیں تاکہ میرے ہونٹ اس سے سیراب اور فیض یاب ہو سکیں بس شعر کا پڑھنا تھا فوراً روضہ اقدس سے دست مبارک برآمد ہوا ور جتنے لوگ وہاں موجود تھے سب نے زیارت کی۔
کہتے ہیں کہ نوّے ہزار لوگوں نے زیارت کی اور یہ واقعہ دیکھا حضرت رفاعی رحمہ اللہ کے منہ نے بوسہ لیا اور واپس چلے گئے ادھر ایک بزرگ تھے کسی نے پوچھا کے آپ کو رفاعی رحمہ اللہ کی قسمت پر رشک آرہا ہے جواب دیا ظالمو تم میرے رشک کے متعلق پوچھتے ہو اس کی قسمت پر تو ملائکہ حاملان عرش الٰہی رشک کررہے ہیں وہیں حضرت رفا عی رحمہ اللہ کےلئے یہ بہت سعادت کی بات تھی۔
نفسانی دھوکے سے بچاؤ:
فوراً خیال آیا کہیں نفس میں غرور نہ آجائے دیکھنے والوں کا احترام مغرور نہ کر دے فوراً نفس کو مخاطب کیا شاید تو اپنے آپ کو بڑ ا سمجھنے لگا ہے تیرا علاج یہ کہ مسجد کے دروازے پر لیٹ جاؤ لوگ تمھیں روندے ہوئے گزرجائیں تاکہ تمہارے اندر جو بڑائی کا شائبہ ہے وہ لوگوں کے قدموں میں پامال ہوجائے چنانچہ لیٹ گئے اور لوگوں سے کہا مجھے روندتے ہوئے گزرولوگ بھیڑ میں ان کا خیال کئے بغیر روندے ہوئے گزر رہے تھےیہ تھی ہمارے اکابر کی بے نفسی تواضع اور بڑائی سے ڈر۔
حضرت مدنی کی انکساری کا عالم :
دیوبند کے اکابر حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بیعت ہونے کے خواہشمند چبوترے پر بیٹھ گئے گرمی کا موسم تھا سورج ابھی نہیں نکلا تھا جب سورج نکلا شیخ الاسلام تشریف لائے مہمانوں کو دھوپ میں دیکھ کر خدام سے ناراض ہوئے خدام جلدی سے دوڑے اور مشرقی دیوار کے ساتھ چٹائیاں بچھادیں سب مہمان جوتیاں دھوپ میں چھوڑ کر سائے میں جائے بیٹھے حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمہ اللہ مہمانوں کی جوتیاں اٹھا اٹھا کر سائے میں رکھتے جاتے تھے عظمت وبزرگی کے باوجود تواضع کی ایسی مثال اب ملنا بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ تواضع وانکساری والی صفت سے نوازے۔ آمین