حج بیت اللہ اور اربابِ حکومت کو چند مشورے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حج بیت اللہ اور اربابِ حکومت کو چند مشورے
محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری
بارگاہِ قدس کے مرکزِ تجلیات کا نام بیت اللہ الحرام اور کعبۃ اللہ ہے۔ ہر صاحبِ استطاعت پر عمر میں ایک مرتبہ اس بارگاہ پر حاضری کا نام حج بیت اللہ ہے جو دینِ اسلام کا پانچواں رکن اور اہم ترین شعائر اللہ میں شمار ہوتا ہے، قرآنِ حکیم کی آیات ِ کریمہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ قیامِ عالم اور بقاءِ کائنات کا ذریعہ ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کا یہ گھر دنیا میں باقی رہے گا، دنیا قائم رہے گی اور جس وقت اللہ تعالیٰ شانہ اس دنیا کو ختم کرنے کا ارادہ فرمائے گا، اس کعبے کو ویران کردیا جائے گا۔ گویا کعبۃ اللہ اور بیت اللہ میں بقاءِ عالم کا راز ہے، یہ مرکزِ عالم ہے اور اس مرکز کے ختم ہوجانے کے بعد فناءِ عالم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، پھر جس طرح عالم کی ظاہری بقاء کا راز بیت اللہ الحرام کی بقاء میں ہے، ٹھیک اسی طرح روحانی ہدایت ربانی کا سلسلہ بھی اسی بیت اللہ سے قائم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمانی ہدایت وانوار کا فیضان بارگاہِ عرش عظیم سے اس بیت عظیم پر ہوتا ہے اور عالم میں اسی بیت کو منبعِ ہدایت وچشمہٴ ارشاد بنایا گیا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:
ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکاً وہدی للعالمین۔
آل عمران:۹۶
ترجمہ: بے شک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہوا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور ہدایت جہان کے لوگوں کو۔
ترجمہ شیخ الہند
بیت المعمور جو ساتویں آسمان پر طواف گاہِ ملائک ہے، اسی کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے روزِ اول ہی سے زمین پر اس مقام کو مرکزِ تجلیات بنایا اور تاریخِ انسانی کے ادوار میں بیت اللہ کی تعمیر ہوتی رہی، ملائکہ کرام، انبیاء عظام اور مقربینِ بارگاہ کے طوافوں، نمازوں، دعاؤں اور نالہائے عشق ومحبت نے اس کو ایسا بقعہٴ نور بنادیا کہ عقل حیران ہے، یہی وجہ ہے کہ عشاق کو نہ طواف سے سیری ہوتی ہے اور نہ دیدار سے اور بیت اللہ کی یہی معنویت ہے جس کی وجہ سے اسے نمازوں اور نمازیوں کا قبلہ بناکر مزید بارگاہِ قدس کی تجلیات کا نقطہ ومرکز بنایا گیا۔
اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ جہاں کوئی ایک صالح اور مقرب بارگاہ جلوہ افروز ہوتا ہے وہاں رحمتِ خداوندی اور نور الٰہی کا نزول ہوتا ہے، پس جہاں فرشتوں، رسل وانبیاء اور مقرر بینِ بارگاہ کی دعوات وعبادات وتسبیحات وتھلیلات کا مرکز ہو، اس کی برکات کا کیا ٹھکانا۔ حق تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ کے امیدوار اپنے گناہوں سے توبہ کرکے جہاں عالم کے گوشہ گوشہ سے جمع ہوکر والہانہ انداز میں کبھی آہ وبکا اور گریہ وزاری میں مشغول ہوتے اور کبھی سربسجود ہوتے ہیں، ایسے مقامِ اقدس کی برکتوں کا کیاکہنا۔ جس مقام مقدس پر احادیثِ نبویہ کے مطابق ایک سو بیس رحمتیں روزانہ نازل ہوتی ہیں، 60 طائفین کے لئے، 40 نمازیوں کے لئے، 20 زائرین ودیدار کرنے والوں کے لئے۔ اس کی مقناطیسی کشش کا کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور جو سعید روحیں تینوں قسم کی عبادتوں سے شرشار ہوں، ان کی سعادتوں کا کیا کہنا۔
الغرض کعبہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا اس عالم میں عظیم ترین مرکز، رحمتِ ازلیہ کا خزانہ، مغفرت ورحمت کا گہوارہ اور روحانی سیر وسیاحت کرنے والوں کا ربانی مرکزِ ضیافت ہے، جہاں ہرشخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق فیض اٹھاتا ہے، اس لئے ہر مستطیع شخص پر زندگی میں اس مقامِ اقدس کی حاضری کے لئے کم از کم ایک مرتبہ کا حکم دیا گیا، تاکہ مرکزِ رحمت ومرکزِ تجلیات کے انوار وبرکات سے نورِ ایمانی میں مزید روشنی وجلا پیدا ہو، اور رحمتِ ازلیہ کے جلوؤں سے بہرہ نصیب ہو، اور اقطارِ عالم کے مسلمانوں کے لئے آہ وبکا سے سامانِ مغفرت کرنے والوں اوراخلاص وتوبہ وانابت الی اللہ والوں کا یہ عظیم الشان اجتماع طرح طرح کی برکات کا وسیلہ بنتا ہے۔ پھر قدم قدم پر شعائر اللہ کی تقدیس وتعظیم کے جلوے، مقرربینِ بارگاہ کی یادگاریں، کہیں حجر اسود کی نورانیت کا جلوہ ،کہیں مقامِ ابراہیم کی مقناطیسی کشش، کہیں صفا ومروہ وسعی کے انوار وبرکات، کہیں وادی عرفات کی تجلیات، کہیں مزدلفہ ومنیٰ کے انوار، غرض قدم قدم پر مغفرت ورحمت کے وعدے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج مادیت کے پُر آشوب دور کے باوجود بھی ہزاروں دلوں میں حج بیت اللہ کی صحیح تڑپ موجود ہے کہ ذرا بھی جس قلب میں ایمان کا نور موجود ہے، حج بیت اللہ کے لئے بے تاب ہے۔
ظاہر ہے کہ اصلی مقصد تو ان عبادات سے رضائے الٰہی ،سامانِ آخرت کی تدبیر اور آخرت کی نعمتوں کا استحقاق ہے، لیکن شریعتِ مقدسہ اسلامیہ کی یہ جامعیت ہے کہ ان دینی منافع کے ساتھ ساتھ دنیوی منافع بھی وابستہ کردیئے گئے، دنیائے اسلام کے بہترین دماغ، فکر وسیاست کے ماہرین، ارباب ِ صلاح وتقویٰ، اربابِ بیعت وارشاد، علماء ومحدثین، غرض ہر طبقہ اور ہر مزاج کے لوگ پھر عوام وخواص ،اربابِ دولت واربابِ طاقت سب ہی کے عظیم ترین اجتماع کا جس کی نظیر عالم میں کہیں نہیں ملتی کس قدر عجیب انتظام ہے ہر ذوق اور ہر مکتب فکر کا شخص اپنی اپنی حاجت وغایت کی تسکین کا سامان کرسکتا ہے ، اتحادِ عالم اسلامی کے روح پرور مناظر، مشکلاتِ عالم اسلامی کی تشفی انگیز تجاویز اور تعلیم وتربیت اور افادہ واستفادہ کے لئے ایسے قابل غنیمت مواقع کہاں میسر آسکتے ہیں، بہرحال تجارت واقتصاد کی تنظیمات ہوں یا علم ومعرفت کے خزانے اور ادارت وسیاست کے مسائل ہوں یا اتحاد عالم کے خواب سب ہی کی تکمیل کا سامان یہاں موجود ہوتا ہے، قرآن کریم کے دو لفظوں میں یہ سب کچھ آگیا ہے
: واذ جعلنا البیت مثابةً للناس وامناً
البقرہ:۱۲۵
ترجمہ: جب مقرر کیا ہم نے خانہ کعبہ کو اجتماع کی جگہ لوگوں کے واسطے اور جگہ امن کی۔
ترجمہ شیخ الہند
لیشہدوا منافع لہم
الحج:۲۸
ترجمہ: تاکہ پہنچیں اپنے فائدہ کی جگہوں پر۔
کاش! ہمارے پاکستان کے حکمران، ان دینی حقائق اور ان سیاسی مصالح پر نظر کرتے اور قوم کی صحیح جذبے اور تڑپ کی قدر کرتے اور ادائے فریضہ ٴ حج کے لئے آسانیاں مہیا کرتے تو کیا اچھا ہوتا۔ یہ مانا کہ زرِ مبادلہ کا مسئلہ بہت اہم ہے اور حکومت کی مجبوریاں بھی اپنی جگہ بجا ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ حکومت کے کاندھوں پر قرضوں کا جتنا بوجھ ہے مملکت اس کی برداشت سے عاجز آرہی ہے، لیکن اگر اربابِ حکومت ذرا غور فرماتے تو اس مشکل کا حل بہت آسان ہے اور بہت سی صورتیں نکل سکتی ہیں جو قوم اربوں روپے کا ٹیکس دے کر حکومت کا سارا کار خانہ چلا رہی ہے اور جو حکومت فوج اور پولیس پر اربوں خرچ کرکے ملک وملت کی حدود اورجان ومال وآبرو کی حفاظت کررہی ہے، اگر یہ حکومت اس قوم کے ادائے فریضہٴ حج کے لئے ایک کروڑ سالانہ کے زر مبادلہ کا خسارہ برداشت کرے تو کوئی بڑی بات نہیں، لیکن ہم باوجود اس کے اربابِ حکومت کے سامنے چند تجاویز پیش کرتے ہیں:
1: دوسال کے لئے جدید درخواست حج نہ لی جائے، سابق درخواست کنندگان جن کی تعداد تیس ہزار سے ہر گز زیادہ نہیں، اگر پندرہ بیس ہزار ہوں تو بھی بعید نہیں ، پہلے ان سب کو بغیر قرعہ اندازی حج کی اجازت دی جائے، دوسال بعد کوٹہ سسٹم ختم کردیا جائے۔ایک سال قدرے ہجوم ہوگا، ہوسکتا ہے کہ بیس ہزار ہوجائیں، اگلے سال حالات اعتدال پر آجائیں گے اور لوگ بھی مطمئن ہوجائیں گے، بیس ہزار سے کبھی زیادہ نہ ہوں گے، قرعہ کے موجودہ نظام میں پچاس ہزار درخواست کنندگان کی تعداد سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دراصل حج پر جانے والوں کی تعداد پندرہ بیس ہزار سے زائد نہیں، درخواستوں کی یہ کثرت تو صرف اس لئے ہے کہ درخواست کرنے والے حرص کرتے ہیں کہ شاید نام آ جائے، اس لئے درخواست دے دیتے ہیں، اگر لاکھ دو لاکھ ہوتے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچاس ہزار اصلی مشتاق ہیں۔
2: پندرہ بیس ہزار سے بھی اگر زرِ مبادلہ بچانا ہے تو بہت اچھی تدبیر یہ ہو کہ جو اشیاء مملکتِ سعودیہ میں درکار ہیں، چاول، المونیم کے برتن، کورالٹھا، بوٹ، چمڑے کے تیار کردہ سوٹ کیس وغیرہ وغیرہ، بیسیوں چیزیں ہیں جو بہت آسانی سے فروخت ہوسکتی ہیں، ہر حاجی کو برآمد کالائسنس دیا جائے اور اتنا سامان ہر حاجی کے ساتھ جانے کی اجازت ہو یا کسی تاجر کی معرفت ٹھیکہ دیا جائے، وہاں جاکر وہ رقم اس تاجر کے ذریعہ مل جائے گی، بہرحال اس کی تفصیلات بآسانی تاجر طبقہ مرتب کرسکتا ہے، اس طرح حکومت زرِ مبادلہ کی پریشانی سے بھی بچ جائے گی اور یہ فرض ادا کرنے میں حجاج کرام کو پوری سہولت بھی حاصل ہوجائے گی۔
3: ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، اسلامی ہمدردی اور فرضِ منصبی کے پیش نظر مشکل حل کرنے پر اسلامی، سیاسی اور اقتصادی سب گوشوں کو سامنے رکھ کر غور کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ مشکل حل نہ ہو، افسوس یہ ہے کہ اکثر اربابِ حل وعقد جن کے زمامِ اقتدار میں یہ مسائل ہیں کبھی اسلامی وہمدردانہ بنیادوں پر غور نہیں کرتے یا بدقسمتی سے غور کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا نقطہ ٴ نگاہ کا زاویہ ہی بدل گیا ہے۔ بہرحال مشتاقانِ دیدار کعبہ کے لئے آسان تدبیریں سوچی جاسکتی ہیں۔
4: درحقیقت کچھ تکوینی مصالح بھی ہیں کہ یہ سفر، سفرِ عشق ہے اور عشق کی منازل طے کرنے میں امتحان ناگزیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ قلوب میں جتنی تڑپ زیادہ تھی، امتحان بھی شدید تھا، اگر ازمنہ ٴ سابقہ کی تکالیف آج ہوتیں تو شاید بمشکل اس سفر کے لئے تیار ہوتے۔ آج اگر نقل وحرکت کے ذرائع ، مواصلات کی آسانی اور مال ودولت کی فراوانی حاصل ہے، جن کی وجہ سے بڑی آسانی سے ہرشخص کو حج بیت اللہ نصیب ہوسکتا ہے تو امتحان اور آزمائش نے حکومتوں کی پابندیوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔
5: جہاں ان حقائق پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی حجاج کرام کو بھی شدید ضرورت ہے کہ دنیاوی منافع کے تصورات، سیر وسیاحت اور تفریح کی خواہشات، شہرت وسمعت کے رجحانات کی سطح سے بالاتر ہوکر اس فریضہ کے ادا کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور کوشش کریں کہ جو دینی مقاصد ہیں، صرف انہی کے پیش نظر حج کے لئے ارادہ کریں۔ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ حج کر آنے کے بعد ان کی زندگیوں میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوتی جو بہتر علامت نہیں۔ حج مبرور کی علامت یہی ہے کہ حج کے بعد زندگی میں ایک بڑا انقلاب آجائے، اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق قائم ہوجائے کہ اس کی زندگی کا ہر گوشہ متأثر نظر آئے، افسوس یہ ہے کہ حجاج کرام نہ تو مسائل سے واقفیت حاصل کرتے ہیں، نہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حج ادا کرنے کی سعی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مطوفین ومعلمین حضرات نے جو کچھ کرادیا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ حالانکہ کسی زمانے میں واقعی معلمین ومطوفین کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی تھی کہ حجاج کرام صحیح فریضہ ٴ حج ادا کر سکیں اور ان کی صحیح رہنمائی ہو، پھر ان کی نقل وحرکت وقیام وسفر میں سہو لتیں بھی میسر ہوں، لیکن آج کل تو مطوف ومعلم کا مقصد صرف قیام وطعام ونقل وحرکت وسواری ومکان کرایہ کے انتظامات کرنے ہیں، ان کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ حج کیسے ہوا۔ اور کیسے نہ ہوا، معلمین کا رخ ہی بدل گیا اور شاید یہ اسی کا اثر ہوکہ حجا ج کرام کی نیتوں میں بھی فرق آگیا۔
بہرحال نظام سارا بدل گیا،آوے کا آوہ بگڑ گیا،حکومت، عوام، راعی، رعیت، حاجی ومعلم سب ہی کو توجہ وحسنِ اصلاح وحسن تدبیر کی ضرورت ہے، تاکہ بے نظیر فریضہ اور حیرت انگیز دینی ودنیاوی مصالح پر مشتمل عبادت؛ بازیچہٴ اطفال اور سیر وتفریح وتماشانہ رہ جائےاگر چند نفوسِ قدسیہ صحیح روح کے حامل بھی ہوں وہ بھی جدید تغیرات کی وجہ سے پوری برکات سے محروم ہو جاتے ہیں۔