اولڈ ہوم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اولڈ ہوم
حافظ محسن شریف ، شیخوپورہ
بڑھاپے میں اپنے والدین کی خوب خدمت کرنی چاہیے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انسان کو جھنجھوڑتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ والدین سے حسن سلوک کرو جب دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو ان کو اف تک نہ کہو۔۔۔ مغربی کلچر میں نوجوان نسل اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہوم میں جا کر داخل کرادیتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اسی تہذیب کو اپنانے لگے ہیں۔اسی بارے حافظ صاحب کی ایک اچھوتی تحریر۔
وہ اپنی نظریں بار بار اِدھر اُدھر گھما رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کے انتظار میں ہو۔ اسے یہاں آئے ہوئے پورے پچاس برس گزر چکے تھے۔ اس کے ارد گرد بہت سے بوڑھے آدمی بیٹھے ہوئے تھے جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے لیکن وہ چپ چاپ اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اور کچھ سوچ رہا تھا اور آنسو اس کی آنکھوں سے مسلسل ٹپ ٹپ کرتے گر رہے تھے۔۔ جن کو وہ بار بار اپنے کرتے کے دامن سے صاف کر رہا تھا۔ وہ روزانہ ایک بات سوچتا اور پھر سوچتے سوچتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔
یہ ایک بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 110سال ہو چکی تھی اور جب وہ اس جگہ آیا تھا اس وقت اس کی عمر 60 برس تھی وہ مسلسل کسی کے انتظار میں رہتا تھا دوسرے بوڑھے جب اس سے رونے کی وجہ دریافت کرتے تو وہ بات کو ٹال دیتا آج بھی وہ مسلسل رو رہا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی جس کا نام خدا بخش تھا اس کے پاس آبیٹھا اور اس کو تسلیاں دینے لگا کہ اچانک بوڑھے نے خدا بخش کو اپنے گلے سے لگایا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ آج وہ اپنا غم ہلکا کرنا چاہتا تھا اور وہ باتیں خدا بخش کو بتانا چاہتا تھا جن کو وہ مسلسل پچاس سال سے چھپا رہا تھا۔
دوسرے بوڑھے یہاں رہنے کے عادی ہوچکے تھے جبکہ کریم بخش وہ واحد بوڑھا تھا جو ایک ہی بات ہر وقت کہتا رہتا کہ ”میرا بیٹا بھی یہاں ایک نہ ایک دن ضرور آئے گا۔ “ کریم بخش کی یہ بات سن کے دوسرے بوڑھے ہنس دیتے اور اس کی بات کا مذاق اڑاتے کہ کریم بخش وہ زمانہ گزر گیا اب تمہارا بیٹا یہاں نہیں آئے گا تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پچاس سال میں صرف ایک مرتبہ تمہارا بیٹا یہاں آیا تھا اور تمہیں یہاں داخل کرا گیا تھا اس کےبعد تو تمہارا لاڈا کبھی نہیں آیا اب وہ یہاں کیسے آسکتا ہے؟ لیکن کریم بخش ان کی یہ ساری باتیں نظر انداز کردیتا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
آج……… سارے بوڑھے اس کے ارد گرد جمع ہوچکے تھے اور اس سے وہ بات سننا چاہتے تھے جو وہ ان سے پچاس سے چھپاتا چلا آرہا تھا اور وہ بات اس کی ”آپ بیتی“ تھی کہ وہ یہاں کیسے آیا ؟کریم بخش ان کو ماضی کی باتیں بتانے لگا
”بیگم تجھے پتا نہیں بچوں نے سکول جانا ہے؟ دیکھو سات بج چکے ہیں اور وہ ابھی تک سوئے ہوئے ہیں۔ ہاں ہاں پتا ہے انہوں نے اسکول جانا ہے ابھی اٹھاتی ہوں۔ ارے نفیس ،ارشد ،شاہد اٹھو بیٹا پتا نہیں کہ اسکول جانا ہے؟ اچھا ماما اتنی بھی کیا مصیبت ہے جلدی اٹھنے کی؟ اٹھ جاتے ہیں نفیس نے بدتمیزی سے جواب دیا۔ سن رہی ہو بیگم ؟ کیسے بات کر رہا برخوردار !! تمیز بھی نہیں ہے اسے بولنے کی،کریم بخش نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
ارے جانے دیں بچے ہیں ابھی سمجھ نہیں ہے ان کو، جب بڑے ہوں گے تو خود ہی سمجھ جائیں گے کہ ماں باپ کا ادب کیا ہوتا ہے؟اور والدین سے کیسے بات کرتے ہیں ؟بیگم تم ہمیشہ ایسی باتیں کر کے ٹال دیتی ہو اگر ابھی سے ادب نہیں کریں گے تو بڑے ہوکر کیا خاک ادب کریں گے ؟؟کریم بخش نے منہ بناتے ہوئے کہا اور اپنی فیکٹری کی جانب چل دیا۔
کریم بخش ایک بڑی فیکٹری کے مالک تھے، وہ بڑے عیش وعشرت سے زندگی بسرکر رہے تھے ،ان کے تین بیٹے تھے اور تینوں ہی برے لڑکوں کی مجلسوں میں بیٹھ بیٹھ کر برے بن چکے تھے۔وہ تینوں جوان ہو چکے تھے اور ان تینوں کی شادی انہوں نے بڑی دھوم دھام سے کی تھی ان کے تینوں کی شادی کو چارسال کا عرصہ بیت چکا تھا اور تینوں کے ہاں دو دو بیٹے پیدا ہوچکے تھے۔
کریم بخش کی عمر پچپن سال ہوئی تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں دے دیا اور خود گھرمیں رہنے لگے عمر جوں جوں گزرتی گئی ویسے ویسے بیماریوں بھی بڑھتی گئیں کچھ عرصے بعد کریم بخش کی وفادار بیوی بھی دنیا سے کوچ کر گئی تھی اب وہ اکیلا تھا ایک کمرے میں پڑا کھانستا رہتا، کوئی اس کو پوچھنے والا نہ تھا۔
اس کی اولاد اس سے برا سلوک کرنے لگی اس کا دل تڑپتا تھا کہ میں کسی سے بات کروں لیکن ان کے بیٹے تو اپنی اولاد کو بھی ان سے دور رہنے کی تلقین کرتے کہ کہیں کھانسی کی بیماری ان کو بھی نہ لگ جائے۔ کریم بخش ہر وقت روتا رہتا اس کو صرف آدھی روٹی دی جاتی وہ بھی اس طرح جیسے کسی جانور کے سامنے پھینکی جاتی ہے۔ یہ دیکھ کراس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا۔ کروڑوں روپے میں کھیلنے والا کریم بخش آج کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا لیکن وہ اس بات خوش کہ اس کی اولاد نے اس کو گھر میں رکھا ہوا ہے اب تو کھانسی کے ساتھ ساتھ خون آنا بھی شروع ہوگیا تھا۔
اس کے بیٹوں جب یہ دیکھا تو آپس میں مشورہ کیا اگلے دن وہ اسی مشورے پر عمل کرنے کے لیے کریم بخش کے کمرے میں موجود تھے وہ میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگے۔ کریم بخش ان کی باتیں سن کر خوش ہو رہا تھا کہ
اس کے بڑے بیٹے نفیس نے کہا :اباجی! ہم آپ کو ایک ایسی جگہ لے جانا چاہتے ہیں جہاں آپ بہت سکون اور راحت سے رہ سکیں گے۔ بیٹا اس جگہ کانام کیا ہے ؟ کریم بخش نے اپنے بیٹے سے سوال کیا۔
” اولڈ ہوم “نفیس نے جواب دیا۔ ک۔ کک۔ کک کیا اووولڈ ہوم۔ ؟ نن نن نہیں!میں وہاں نہیں جاؤں گا ، مجھے مرنا ہے اپنے گھرمیں۔ نہیں! میں نہیں جاؤں گا مجھے یہیں رہنے دو! میری ساری دولت تم لے لولیکن مجھے وہاں لے کر نہ جاؤ! کریم بخش نے روتے ہوئے اپنے بیٹوں سے کہا۔
دولت تو ساری ہم پہلے ہی لے چکے ہیں اب تیرے پاس کیا ہے ؟ جو تو ہمیں دے گا ؟ نفیس نے بدتمیزی سے جواب دیا۔ نفیس کا بڑا بیٹا علی غور سے یہ سب کچھ سن اور دیکھ رہا تھا۔ اٹھاؤ اس بوڑھے کو اور لے چلو اس کو اولڈ ہوم ہم اب زیادہ اس کی بیماری برداشت نہیں کر سکتے۔ شاہد نے غصے سے کہا اب وہ تینوں بھائی اپنے والد کو گاڑی میں بٹھا کر اولڈ ہوم کی طرف رواں دواں تھے۔ کریم بخش بے چارہ زور زور سے چلا رہا تھا مجھے وہاں نہ لے کر جاؤ مجھے وہاں نہ لے کر جاؤ
کہ اچانک گاڑی ایک جگہ رک گئی۔ سامنے ان کو اولڈ ہوم کا دروازہ نظر آرہا تھا جو جیل کی طرح تھا سارے بوڑھے اندر سے باہر کی جانب جھانک رہے تھے۔ کریم بخش کے تینوں بیٹے کریم بخش کو اٹھائے تیزی سے ایک دفتر کی جانب چل رہے تھے پھر انہوں نے دفتر والے کو کچھ پیسے دیے اور کریم بخش کو اولڈ ہوم میں چھوڑ کر چلے گئے۔ “
اپنی یہ کہانی سنا کر کریم بخش زور زور سے رونے لگا جبکہ دوسرے بوڑھے اس کو دلاسہ دے رہے تھے بالکل عین اسی وقت ان کے سامنے ایک گاڑی رکی اس میں دو نوجوان لڑکے نکلے جنہوں نے ایک بوڑھے آدمی کو اٹھایا ہوا تھا پھر وہ اسی دفتر کے اندر گئے جہاں کریم بخش کو لے جایا گیا تھا ان لڑکوں نے دفتر والے کو کچھ پیسے دیے اور بوڑھے کو جیل نما کمرے میں چھوڑ دیا۔
کریم بخش بڑی حیرت سے اس آنے والے بوڑھے کو دیکھ رہا تھا اور آنے والا بوڑھا چلا رہا تھا خدا کے لیے مجھے یہاں چھوڑ کہ نہ جاؤ۔ اسی دوران آنے والے بوڑھے کی نظر کریم بخش پر پڑی وہ اس کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھااور دوسری طرف کریم بخش کی بھی یہی حالت تھی آنے والا بوڑھا یک دم اٹھا اور کریم بخش کے قدموں میں گر گیا ابا جان مجھے معاف کردو مجھے معاف کردو یہ مجھ سے کیسی غلطی ہوگئی ؟کریم بخش نے بوڑھے کو اٹھایا اور بغور دیکھا یہ کریم بخش کا بڑا بیٹا نفیس تھا جو کہ بہت زیادہ بوڑھا اور کمزور ہو چکا تھا اپنے بیٹے کو دیکھتے کریم بخش کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے بے اختیار اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھر وہ دونوں زار وقطار رونے لگے۔ نفیس کے بڑے بیٹے جو کہ کچھ ہی فاصلے پر کھڑے تھے انہوں نے جب رونے کی آوازیں سنیں تو پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کوئی بوڑھااس کے والد کو گلے لگا کر رو رہا ہے یہ دیکھتے ہی اس کو کچھ یاد آیا اور بھاگ کر اولڈ ہوم میں پہنچا اس نے غور سے دیکھا تو وہ بوڑھا کریم بخش اس کے دادا ابو تھے۔ علی کے ذہن میں فوراًکہ اگر آج میں نے اپنے والد کو یہاں چھوڑا ہے تو یقیناً کل میری اولاد بھی مجھے یہاں ضرور چھوڑ کر جائے گی۔
یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں سے گناہوں کی سیاہ پٹی اتر گئی اور وہ اپنے والدنفیس اور دادا ابو کریم بخش سے معافیاں مانگنے لگا اور دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آیا۔
نعمان خوشی سے اپنے والد علی کی طرف دیکھ رہا تھا اور اپنے دادا اور پردادا کو دیکھ کر بھی زیادہ خوش ہو رہا تھا علی کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بہت بڑی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہے اور اس کا مستقبل تباہ و برباد ہونے سے بچ گیا ہے۔